اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان
وفاقی حکومت ایک بار پھر گھر والوں سے پوچھے بغیر گھر کے نیچے سے کوہل بنانے جارہے ہیں کہا جارہا ہے کہ اس کوہل کی تعمیر کے نتیجے میں ملک کے آئینی صوبے سیراب ہونگے مگر گلگت بلتستان کی معاشی اور اقتصادی ترقی پر کیامنفی یا مثبت اثر پڑے گا اس حوالے سے کوئی بحث نہیں۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس منصوبے کے تکمیل کی صورت میں نہ صرف پاکستان میں خوش حالی آئے گی بلکہ چین ، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا ء کے تقریباََ تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گایعنی اس منصوبے کے ذریعے مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباََ نصف آباد ی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کی تاریخ کا سب سے اہم معاہدہ ہے اور اس منصوبے کی باہمی اشتراک سے گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا ئے گا اسی طرح پائپ لائنوں کے ذریعے تیل اور گیس دونوں ملکوں کے درمیان منتقل ہوں گے یہی وجہ ہے کہ چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیں۔ بحیثیت باشندہ گلگت بلتستان میں سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ ایک طرف پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ ماننے سے انکار کرتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں درست بھی ہے تو دوسری طرف یہ منصوبہ گلگت بلتستان کی سرزمین کو استعمال کئے بغیرپایہ تکمیل تک پونچناناممکن نظرآتا ہے لیکن پاکستان اور چین کا گلگت بلتستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کے حوالے سے واضح پالیسی کا سامنے نہ آنے کی وجہ سے شکوک اور شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔کیونکہ وفاق ایک طرف گلگت بلتستان کے سرزمین کواس راہداری کیلئے استعمال کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے تو دوسری اس خطے کے عوام کی تمام ترقربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کا بہانہ بنا کر اس خطے کے عوام کو مکمل طور پر پاکستانی شہریت کا درجہ دینے سے انکار کرنااس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان ہمشیہ مفادات کیلئے گلگت بلتستان کو اپنا حصہ مان کر یہاں کے بیس لاکھ عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ آج اس اہم منصوبے پر اس خطے کے عوام کو اعتماد میں نہیں لانے کی وجہ سے یہاں کے عوام میں ایک بے چینی نظر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے، جنہیں تمام مذہبی اور قومی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے،ایک چارٹرڈ آف ڈیمانڈ خطے کے عوام کی طرف سے وفاقی وزیر گورنر کے ذریعے حکومت کو پیش کیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے آن بورڈ لیا جائے اور اس منصوبے کا مرکزی ٹرمینل گلگت بلتستان میں بنایا جائے جو کہ یہاں کے عوام کا حق ہے۔یہاں میں خطے میں موجود وفاقی پارٹیوں کو بھی احساس دلانا چاہوں گا کہ آج تک آپ لوگ دوسروں کی مفاد کیلئے سب اچھا ہے کا نعرہ لگا تے رہے ہیں لیکن اب وقت ہے کہ خطے کی مفاد کیلئے بھی منہ کھولا جائے کیونکہ وفاقی مہروں کی وجہ سے ہی پاکستان آج تک خطیکے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ہمیشہ وفاقی مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔یہاں ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان کی متازعہ حیثیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جس طرح کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ لاگو ہے بلکل اسی طرح اس خطے میں بھی یہ نظام لاگو ہونا چاہئے تھا لیکن اس نظام کو ختم کرنے کی اصل وجہ کیا تھی آج تک معلوم نہیں ہوسکا البتہ اس خطے کی متنازعہ حیثیت کے باوجود خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان خطے کوخود سے الگ نہیں سمجھتے کیونکہ گلگت بلتستان دفاعی، جعرفیائی، سیاحتی اور تجارتی حوالے سے پاکستان کی ایک اہم ضرورت ہے یہ الگ بات ہے کہ یہاں کے باشندے آج تک اپنی حیثیت کے مطابق حقوق حاصل نہیں کر سکے ۔بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایک سٹیٹ پالیسی کے تحت اس خطے کے عوام کو صرف تین وقت کی روٹی فراہم کرکے گزشتہ دہائیوں سے اپنے حق میں نعرے لگواتے رہے ہیں آخر کب تک؟؟ اس خطے کی تمام تر اہمیت اور خدمات کے باجودیہاں جب تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بات آتی ہے تو متنازعہکہہ کر ٹال دیا جاتا ہے، وسائل پر سبسڈی دینے کی بات آتی ہے تو گندم کا احسان جتایا جاتا ہے،اس خطے کے تمام سرکاری اداروں کی انفراسٹکچر اس لئے تباہ حالی کا شکار ہے کیونکہ یہ خطہ آئین پاکستان کے دائرے میں نہیں آتا لیکن جہاں کہیں اسلام آباد کو مفادنظر آئے یہ خطہ مکمل طور پر پاکستانی کہلاتے ہیں جس کی تازہ مثال یہ معاہدہ ہے یعنی وفاق ایک بار پھر منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے گلگت بلتستان کی سرزمین کو یہاں کے عوامی کی مرضی کے بغیر استعمال کرنے کی بات کر رہے ہیں جو کہ اس خطے کے عوام کی ساتھ کھلی ذیادتی تصور کیا جائے گا ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے عوام پہلے ہی مسلط عناصر کی وجہ سے پریشان ہیں یہاں ہر محکمے میں مقامی لوگوں کو بیروزگار رکھ کر غیر مقامی افراد کو مسلط کیا ہوا ہے ایسے میں اس معاہدے کی تکمیل کے بعد گلگت بلتستان ایک بار پھر غیر مقامی اور غیر ملکیوں کا مسکن بن جائے گااور ہمارے عوام بدقسمتی سے ہمشیہ کی طرح اس بار بھی غیروں کی خدمت گزاری کرنے پر مجبور ہونگے ۔لہذا حکومت پاکستان کو چاہئے کہ گلگت بلتستان کے عوام کا پاکستان کیلئے دی جانی والی قربانیوں کا صلہ دیتے ہوئے اس اہم منصوبے کی تکمیل سے پہلے اس خطے کی آئینی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے اس منصوبے کی فیصلہ سازی میں خطے کو بھی شامل کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے مقامی حکومت کو پہلے موقف واضح کردینا چاہے تھا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کہنے کو تو قانون ساز اسمبلی موجود ہے لیکن انکادائرہ اختیار مراعات کی منظوری سے بڑھ کر نظر نہیں آتا کیونکہ ہم نے ماضی میں بھی اس اسمبلی سے کئی درجن قراداد پاس ہوتے دیکھا لیکن نہیں معلوم وہ سارے قردار کشمیر افیئرز کے کس سیکریٹری نے کب ردی میں ڈال کر گلگت بلتستان اسمبلی کے اختیارات کو پاوں تلے رونددیا۔یہاں ایک اور اہم بات نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بدقسمتی سے آج اسیبے اختیار اور غیر آئینی اسمبلی میں جانے کیلئے قوم پرست لیڈران بھی بے چین نظر آتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام قوم پرست لیڈران اس طرح کے نام نہاد نظام سے دور رہ کر خطے کے ساتھ ہونے والے ذیاتیوں کے حوالے سے عوام کو شعور دلائیں اور حکومت پر بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں گلگت بلتستان کی مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے دباو ڈالیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف یہ لوگ نظام کو غیر آئینی سمجھتے ہیں تو دوسری طرف اسی نظام کا حصہ بننے کیلئے بے چین نظر آنا کم از کم میرے لئے تو تعجب کی بات ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ہمارے قومی رہنمامنزل کی تعین میں تذبذب کا شکار ہے تواس طرح کے اہم منصوبوں میں گلگت بلتستان کو نظرانداز کرنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ وفاق کو معلوم ہے کہ یہاں ہر کوئی اقتدار کے بھوکے ہیں لہذا جس قوم کے لیڈران قومی مفاد کو ذاتی ترقی اور کرسی پر قربان کرنے کیلئے تیار ہو اُس قوم کا یہ حال آج اکیسویں صدی میں ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ بلکل بجا ہے۔ آج بھی اگر ہم پیکج کو صوبہ اورگندم کو حقوق سمجھ کر خوشیاں مناتے رہیں گے تو عین ممکن ہے کہ اس اہم منصوبے میں شراکت داری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا لہذا وقت گرزنے سے پہلے تمام وفاقی اور قومی جماعتوں کو اس اہم مسلے کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے ہونگے۔