کالمز

کوا سفید ہے۔۔جی بی پاکستان ہے

کسی بھی سربراہ مملکت یا وزیر آعظم کا دورہ ناکام ہو یا کامیاب وہ دور رس نتائج کا حامل ضرور ہوتا ہے۔ اور یہ دوررس نتائج اپنے پیچھے بہت سارے ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے بھی بڑے دوررس نتائج ہی نکلتے ہیں۔یہ دوررس نتائج اچھے اور بد دونوں صورتوں میں سامنے آجاتے ہیں۔اور ہر دو صورتوں میں علاقے کے باسی ہی مستفید یا خمیازہ بگھتے ہیں ۔اگر سربراہان عقل و فراست سے کام لیتے ہوئے علاقے کی بہتری کے اقدام کریں تو لا محالہ ان کے نتائج بھی اچھے ہی نکلتے ہیں اور وہ علاقے خوشحالی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ ۔۔سربراہوں کے دورے گلگت بلتستان خطے میں کب شروع ہوئے اس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ان کی تاریخ کا سلسلہ ۱۸۴۲ سے جا کے ملتا ہے۔اس سے پہلے اس خطے میں سربراہوں کے دورے نہیں بلکہ حملے ہوتے تھے اور ان ہی حملوں کی بدولت یہاں کے ہی ایک باسی نے کشمیر سرکار سے مدد مانگی اور ہوا کیا جو مددگار تھے وہی حاکم بن گئے اور یہ خطہ سکھ حکمرانوں کی عملداری میں چلاگیا تو گویا ایک طرح سے نتھے شاہ کا یہ مددگاری دورہ شائد کسی حکمران کا پہلا دورہ تصور کیا جا سکتا ہے جس کے دوررس نتائج یہ سامنے آئے کہ گلگت بلتستان کے علاقے ریاست کشمیر کا حصہ بن گئے۔۔۔

Hidayat-Ullahاس عملداری کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوا کہ یہ علاقے پہلی بار ایک اکائی کی شکل میں دنیا کے نقشے میں ابھرے۔ اس کے بعد دوروں کا سلسلہ چل نکلا ۱۸۴۶ میں ہی انگریزوں اور مہارجہ کشمیر کے درمیان معاہدہ امرتسرطے پایا اور اسی کے ہی نتیجے میں گلگت بلتستان کو شمالی سرحدی صوبہ بشمول کارگل لداخ قرار دیا گیا۔جوکہ قیام پاکستان تک اورقانونی لحاظ سے وزیر آعظم پاکستان نواز شریف کے حالیہ دورے تک برقرار ہے۔ ریاست کشمیر کے نقشے پر نظر جمائیں تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ 1947 تک کشمیر کا کل رقبہ 84,471مربع میل اور آبادی 40لاکھ سے قدرے زیادہ تھی جس میں مسلمان 81فیصد تھے۔ اس وقت کشمیر چار حصوں میں تقسیم تھا ۔ صوبہ جموں و کشمیر جوبھارتی صوبہ پنجاب سے متصل ہے۔دوسرا صوبہ کشمیر تھا جسے وادی جہلم یا وادی کشمیر بھی کہاجاتا ہے۔کشمیر کا تیسرا صوبہ گلگت ایجنسی ۔ بلتستان اور لداخ کے علاقے تھے۔چوتھا اہم صوبہ پونچھ کا علاقہ تھا ۔ یہاں یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ مہارجہ نے کشمیر کو ۱۸۴۶ میں خریدا اور اس سے بھی بڑی اہم بات یہ ہے کہ مہارجہ کبھی بھی ان صوبوں میں براہ راست ملوث نہیں رہا بلکہ مقامی راجوں اور میروں کے ذریعے ریاست کے امور احسن طریقے سے چلاتا رہا۔

گلگت بلتستان کے علاقے جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہےسکھوں نے 1841-42میں فتح کرکے کشمیر میں شامل کیا تھا۔ لیکن یہ علاقہ سیاسی وجوہات کی وجہ سے انگریزوں نے پٹے پر لے رکھا تھا۔ گلگت بلتستان کی آبادی80فیصد مسلمان تھی۔جب ہندوستان میں تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی تو کشمیر میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہوگئے اور یہاں چند نوجوانوں نے کشمیری مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش شروع کر دی ان کشمیری نوجوانوں میں شیخ محمد عبداللہ اور چوہدری غلام عباس پیش پیش تھے اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک سیاسی جماعت 148آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس147 بنائی یہ اور ۱۹۳۵ کی بات ہے جبکہ اس وقت گلگت میں انگریز پولیٹل ایجنٹ مہارجہ کشمیرکے ماتحت گلگت وزارت اور پولیٹیکل علاقہ جات کا نظم و نسق چلاتے تھے اور یہاں کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی سرگرمی کا عنصر تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا۔دوروں کی بات ہو رہی تھی اور بات سیاست پر آگئی اور سیاست پہ کیسے نہ آئے کیونکہ ہماری سیاست کا دار مدار بھی ریاست کشمیر کے ساتھ ہی منسلک ہے اور یہی چوہدری غلام عباس تھے جن کی مسلم کانفرنس گلگت میں قائم ہوئی اور اس میں شامل مقامی لوگ مرحوم امیر حمزہ ، مرحوم فضل الرحمان عالمگیر اور ریٹائرڈ ڈی سی محمد حسن اس سیاسی پارٹی کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ دوروں کے دوررس نتائج ہی تھے جس کے تحت حالات کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔۔ چلیں جی دوروں کے دوررس نتائج پہ دوبارہ آجاتے ہیں اور اس کا دائرہ محدود کرکے آزادی کے بعد سے شروع کرتے ہیں اس سلسلے میں پہلا اور مستقل دورہ پاکستانی پولیٹکل ایجنٹ سردار محمدعالم خان کا ہے اس پاکستانی گورنر کے دورے کے دوررس نتائج یہ نکلے کہ گلگت میں قائم عبوری کونسل کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا جس کے گلے اور شکوے آج بھی سننے کو ملتے ہیں اس کے بعد مسلم کانفرنس کے سربراہ چوہدری غلام عباس کا دورہ جو کہ ۱۹۴۹ میں ہوا تھا اس کے دور رس نتائج میں یہاں مسلم کانفرنس کی داغ بیل پڑی اور اس دورے کے دور رس نتائج میں بد نام زمانہ معاہدہ امرتسر کی شکل میں یہاں کے لوگوں نے پایا ۔۔۔اور ایک خود مختار ریاست کے صوبے کو انتظامی کنٹرول کے تحت حکومت پاکستان کے حوالہ کیا گیا۔۔۔

جیسا اوپر ذکر ہوا ہے کہ دور رس نتائج فائدے کے بھی ہوتے ہیں اور نْقصان کے بھی اقتصادی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتصادی اور معاشی حالت پہلے سے بہتر ہےْ اور یہ سب مرحوم صدر ایوب خان کی مرہون منت ہے اس کے دورے کے فورا بعد پاک چین بارٹر ٹریڈ اور قراقرم ہائی وے کا معاہدہ عمل میں آیا لیکن اس کے نتیجے میں گلگت بلتستان کشمیر کا کچھ حصہ چین کے پاس گروی رکھا گیا جس کا فیصلہ کشمیر مسلے تک التوا میں رکھا گیا ہے ۔پاکستان کے پہلے منتخب ہونے والے وزیر آعظم ذولفقار علی بھٹوجس کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ وہ وزیر خارجہ وزیر آعظم صدر اور مارشلا ایڈمنسٹریٹر کے عہدوں میں کام کرتے رہے۔ان کے دورے کے نتیجے میں اس خطے کی حالت یکسر بدل گئی اور سٹیٹ سبجیکٹ رولز معطل ہوئے پاکستانی سیاست پیپلز پارٹی کی شکل میں ریاست کشمیر کے اس خطے میں گھس آئی اور غیر مقامی آدمیوں کو یہاں جائدیدیں بنانے کا موقع فراہم ہوا۔بے شک بھٹو نے یہاں سے لگان مالیہ اور میری اور راجگی سسٹم ختم کر دیا مگر دوسری طرف سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم یا معطل کر کے پیٹھ پر چھرا مارنے والا کردار بھی ادا کیا ہے۔ اس وقت بغل میں چھری کسی کو نظر نہیں آئی ۔

اس کے بعد رہی سہی کسر جرنل ضیا الحق نے پوری کر دی جس نے چند آدمیوں کو سیاسی رشوت یا مراعات جو بھی سمجھ لیں مشیر بنا دئے اور تاثر یہ دیا کہ یہاں کے باسی بھی پاکستانی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس۔ضیا الحق کا طویل ترین دور اس کی حادثاتی موت کے بعد اختتام پذیر ہوا تو۔اسحاق خان فاروق لغاری پھر نگران وزیرآعظموں کا تانتا اور مشرف صاحب کی ق لیگ کے وزیر آعظم کے دورے سب کے نتائج ہمارے سامنے ہیں لیکن ہماری ایک ہی رٹ پاکستان کا صوبہ۔۔اگر صوبہ بننا ہوتا تو بھٹو سے زیادہ زیرک کون تھا اسے بھی گلگت کے ایک جلسے میں کہنا پڑا کہ صوبہ میں نہیں بلکہ تاریخ صوبہ بناتی ہے ۔مشرف بے نظیر ڈیل کے تحت بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو دوبارہ اقتدار ملا لیکن پھر وہی چلتر بازی ۲۰۰۹ کا لو لا لنگڑا گورننس آرڈر پلے پڑا اب پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت اور نواز شریف کے اعلانات سے یہ اندازہ لگانا کیا کوئی مشکل کام ہے کہ یہ حکومت بھی اس لولے اور لنگڑے سیٹ اپ میں کچھ کمی یا بیشی کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔جہاں تک نواز شریف کے اقتصادی اعلانات کا تعلق ہے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ اس کے دور رس نتائج تو ہونگے ہی ہم اس کی اہم اقتصادی منصوبوں کی صرف مخالفت برائے مخالفت تنقید کریں یہ زیادتی ہوگی ۔ یقینا یہ بڑے فائدے کے منصوبے ہیں جو کہ پہلے سے ہی پائپ لائن میں موجود تھے۔رہی بات آئنی حقوق کی اس بارے یہاں کے عوام کو بڑی توقعات تھیں کہ نواز شریف کوئی اعلان کرینگے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے سیاستدانوں اور دانشوروں کو اس بات کا علم نہیں کہ پاکستان کا کوئی بھی وزیر آعظم اس خطے کو پاکستان کا صوبہ بنا نہیں سکتا اور نہ ہی اس کی ریاستی حثیت میں رد بدل کر سکتا ہے ۔۔

ویسے ایک بات کا کریڈت نواز شریف حکومت کو ضرور ملتا ہے کہ اس نے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اس لئے اس کو پاکستان کا آئنی صوبہ بنانا ممکن نہیں ۔تو کیسے نواز شریف اس کو صوبہ بنانے کا اعلان کرتا۔۔ ایسی صورت میں صرف کمیٹی تشکیل دی جا سکتی تھی جس کا اعلان انہوں کیا اور یہ کمیٹیاں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ مسلے سے جان چھڑائی جائے تاکہ اگلے پانچ سال آرام سے گذر جائیں ۔

نہ جانے مقامی لوگوں اور سیاستدانوں کو یہ کھلی نشانیاں کیوں نہیں نظر آتی ہیں۔ حقیقت سے چشم پوشی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہم خود ماموں بننا چاہتے ہیں ۔۔بالکل اسی طرح جس طرح مسلم لیگ گلگت بلتستان کی مقامی قیادت نے اپنے ہی قائد کو پہلے ہی سے جاری منصوبوں پر دوبارہ نام کی تختی لگوا کر ماموں بنایا اور اس کا تاثر عوام میں کوئی اچھا نہیں رہا۔۔

باقی اعلانات بھی فرمائشی تھے جو پوری کی گئی اگر دیامر اور غذر کے لیڈر بھی تھوڑی سی پھرتی دکھاتے تو شائد دو اور ضلعوں کی بھی گنجائش نکل سکتی تھی۔ اب اصل بات ان اعلانات پر عمل درآمد کی ہے۔ لیکن دوسری طرف پاکستان کے جلسوں میں نواز شریف کی تقریریں جن میں وہ خزانہ خالی ہونے کا رونا روتے ہیں سے اندازہ یہی ہوتا کہ یہ بس صرف اعلانات ہی ہی رہئنگے ۔ان اعلانات سے جو فائدے اور نقصانات سامنے آئنگے وہ تو اپنی جگہ لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ آنکھ مچولی اور کمیٹیوں کی تشکیل اور ایڈہاک والا نظام کب تک ۔ اب جو کمیٹی سرتاج عزیز کی نگرانی میں بنے گی کیا وہ اپنے موقف سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کر سکے گی جس کا جواب یقیناً نفی ہی میں ہے۔

آخر جی۔بی کے سیاستدان اور عوام اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ علاقے متنازعہ ہیں اور پاکستان کا صوبہ تو درکنار بغیر اقوام متحدہ کے ریفرنڈم اس کا حصہ بھی نہیں بن سکتے وہ بھی اس صورت میں جب پاکستان کے حق میں ووٹ پڑیں ۔یہ کوئی مبالغہ نہیں حْیقت ہے مبالغہ تو شاعری میں اور ہیرا پھیری کاروبار میں ہوتی ہے لیکن اس کی بھی کچھ حدیں ہیں۔ آپ کوے کو سفید نہیں کہہ سکتے.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button