گلگت بلتستان کا مستقبل
جون کے مہینے میں پاکستان کے شمال میں واقع سرزمین بے آئین یعنی گلگت بلتستان کے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے جارہےہیں۔اس سلسلے میں وفادریاں تبدیل کرنے،مختلف جماعتوں کے راہنماؤں کے بیانات اور اسلام آبادمیں بیٹھ کر چند لمحوں کے لئے گلگت بلتستان کے روایتی لباس زیب تن کرکے فوٹوسیشن کے بعد لیڈر بے ضرر سی بیانات دے کر اپنی اپنی کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔72 ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور بیس لاکھ کی آبادی پر محیط علاقہ گلگت بلتستان کو ڈوگرہ حکمرانوں سے آزاد کروانے میں گلگت اور چترال سکاؤٹس اور علاقے کے عوام نے نمایاں کردار اداکیا تھا جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں لداخ تک کے علاقے کو آزاد کیا جسے چترال کی روایات میں’فتح سکردو’کے نام سے یاد کیا جاتا ہے بڑوں بڑوں کی زبانی سنا ہے کہ جنگ سکردو کے جانبازوں کو جب محاذ پر روٹی پکانے کے لئے کوئی ذریعہ نہ ملا تو انہوں نے کئی دنوں تک بھوکے رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا اور گوندے ہوئے آٹے کو کچہ کھاکر سکردو کے سنگلاخ پہاڑیوں سے دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت میں پاکستان کی حکومت اور فوج کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ ڈوگرہ راج سے علاقے کی آزادی چترال اور گلگت سکاؤٹس(دونوں اس وقت خودمختار شاہی ریاستیں تھیں)اورعلاقے کے عوام کی قربانیوں کا ثمر ہے۔لیکن یہ قربانیاں اس وقت رائیگان ہوگئی جب گلگلت بلتستان کو عوام کی مرضی پوچھے بغیربفر ذون بنا کرپاکستانی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا،اور علاقے کے عوام کو جمہوریت اورسیاسی آزادیوں سے محروم رکھاگیا۔یوں ڈوگرہ راج سے نجات کے بعد علاقہ گلگت’آسمان سے گراکھجور پہ اٹکا’یا کھوار زبان کے محاورے ‘ہونارنسی ریشٹوموڑتو'(سیلاب سے بچ کر برفانی تودے کی زد میں آنا)یعنی ایک مصبیت سے نکل کر دوسرے مصبیت میں مبتلا ہونے کے مصداق پاکستان کی جھولی میں آگرا تو حکومت پاکستان،اسٹبلشمنٹ اور فوج نے کشمیر کاز کو مضبوط بنانے کے لئے گلگت کو بھی کشمیر کے ساتھ متنازعہ ڈیکلئیر کیا،حالانکہ گلگت بلتستان کا ثقافتی،لسانی،ادبی،تمدنی اور تاریخی کسی بھی حوالے سے کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی کشمیر کی طرز پر قبائلی پٹھانوں نے حکومت پاکستان کی آشیر باد سے گلگت کی آزادی میں حصہ لیاتھا۔گلگت بلتستان کو کشمیر سے ملا کر متنازعہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ یہ فرض کر لیا تھا اگر اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری عمل میں لائی گئی تو مقبوضہ کشمیر کے عوام اگر بھارت کے حق میں بھی ووٹ ڈالے تب بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی ووٹوں کا تناسب بڑھ جائے گااور یوں ریفرنڈم کے بعد نہ صرف گلگت بلکہ کشمیر کے دونوں حصے بھی پاکستان کے قبضے میں آئینگے۔لیکن حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ کی یہ پالیسی ناکام ہوگئی کیونکہ گزشتہ 68برسوں سے کشمیرمیں رائے شماری کامرحلہ نہیں آیااور شائد کبھی آئے اگر اس وقت حکمران حالات کا ادراک کرتے تو گلگت میں ریفرنڈم کراکرباآسانی پاکستان کے ساتھ ضم کرسکتےتھے کیونکہ اس دور میں علاقے کے عوام کی اکثریت پاکستان کے حامی تھے اب بھی عوام کی بڑی اکثریت پاکستان کی حمایت کرتی ہے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنے حقوق کے لئے بیداری کی لہر پیداہورہی ہے۔نہ صرف یہ کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ گھمبیر ہوچکا ہے بلکہ حکمرانوں کی نااہلی اسے مزید الجھا رہی ہے۔علاقے کے لوگوں کو خوش کرنے کےلئے وقتاَفوقتاَحکومت پاکستان کی جانب سے اصلاحات کا ڈھونک بھی رچایاگیا،انہی میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ حکومت میں ”گلگت بلتستان خودمختاری ایکٹ” کے نام سے ایک اصلاحاتی پیکچ کا اعلان کیاگیاتھا جس میں علاقے کو صوبے کے برابر خودمختاری دینے کی باتین ہوئی اس آرڈینینس کے تحت 2010ء میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخابات ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی اس وقت تاثر یہ تھا کہ شائد اس پیکچ کے بعد علاقے میں مزید آئینی وسیاسی اور عدالتی اصلاحات لائی جائے گی اور چونکہ علاقے کو صوبے کے برابر کا درجہ ملا تھا لہٰذاعلاقے کے لوگوں کو پاکستان کے مرکزی قانون ساز اداروں اور اعلیٰ عدلیہ تک رسائی ممکن ہوگی۔ایک تاثر یہ بھی تھا کہ شائد قانون ساز اسمبلی بڑے پیمانے پر قانون سازی کرکے علاقے کی مکمل صوبائی خودمختاری کے لئے راہ ہموار کرے گی۔لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد جب مہدی شاہ کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنی مدت مکمل کی تو ماسوائے کرپشن،اقراباپروری،مال بنانے اور وفاق کی وکالت کرنے کے اور کوئی نمایاں کام ان کے حصے میں نہ آئی اس پانچ سالہ نام نہاد جمہوری حکومت میں گلگت بلتستان کی صوبائی خودمختاری کا شیش محل حقائق کی ظالمانہ سنگ باری سے چکنا چورہوگیا،جبکہ علاقے میں آزادی کی تحریکوں کو مزید تقویت مل رہی ہے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ علیٰحدگی پسند قوم پرست راہنماؤں نے بھی الیکشن میں بھر پوراندازسےحصہ لینے کا فیصلہ کیاہے جبکہ 2010ء کے انتخابات میں بھی تمام ترنامساعد حالات کے باؤجود غذر کے ایک حلقے سے علیٰحدگی پسند راہنما نواز خان ناجی کامیابی حاصل کی تھی۔اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ قوم پرستوں نے کتنی محنت کی ہے اور عوام میں انہیں کتنی حمایت حاصل ہے۔پچھلے الیکشن میں عوام میں پاکستان پیپلزپارٹی کا امیج کافی بہتر تھاجوکہ اب قصہ پارینہ بن چکی ہے جبکہ مسلم لیگ(ن)بھی تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔پاکستان تحریک انصاف بھی زیادہ مقبول نہیں البتہ نامور راہنما ڈاکٹر زمان کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کے بعد ایک مرتبہ پھر جی بی کی سیاست نئی رخ اختیار کر چکی ہے۔
قوم پرستوں کا امتحان
گلگت بلتستان کے قوم پرست علیٰحدگی پسند سیاسی جماعتیں اور راہنما گزشتہ کئی برسوں سے علاقے کو مکمل آزادی دینے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ چونکہ گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ فوج سے خود جنگ لڑکر علاقے کو آزاد کروایاتھا لیکن کچھ موقع پرست سیاست دانوں نے اقتدار کے لئے عوام کے امنگوں پر شب خون مار کر عوام کی مرضی پوچھے بغیر گلگت کو پاکستان کے حکمرانوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے،جبکہ پاکستانی حکمرانوں نے اس علاقے کو اپنی کالونی بنارکھی ہے،لہٰذا وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پر مذید زیادتی نہ ہو اور علاقے کے لوگوں کو آزادی ملنی چاہئے جس کے لئے وہ گزشتہ کئی دھائیوں سے علیٰحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔اس بار قوم پرستوں نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے قوم پرستوں نے ان حالات میں دن دوگنی رات چوکنی محنت کی تو بہت ممکن ہے کہ عوام کے دل میں گھر کر جائے۔اگر آئیندہ بننے والے قانون ساز اسمبلی میں قوم پرستوں نے کوئی بڑی بریک تھرو کی تو حکومت کے لئے مسائل کھڑا ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ قوم پرست جماعتیں اپنے منشور میں ذرہ برابر تبدیلی لانے اور مصلحت کے لئے بالکل تیار نہیں ایسے حالات میں اگر قوم پرست قوتین کامیاب ہوسکتی ہے تو ان کاکیا لائحہ عمل ہوگافی الحال اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا قوم پرست قوتوں کے مطالبے یعنی آزاد گلگت بلتستان حکومت پاکستان،اسٹبلشمنٹ اور پڑوس میں نئے ابھرنے والے چینی سامراج کے لئے قابل قبول ہوگا؟کیا اسٹبلشمنٹ اور فوج علاقے کوبغیر کچھ کہے آزادی دے سکتے ہیں؟اگر قوم پرست طبقات مسلح جدوجہد پر اتر آئے تو اسکا انجام کیا ہوگا؟
وزیر اعظم کا حالیہ دورہ گلگت بلتستان اور اعلانات
جب سے گلگت بلتستان قانون ساز اسبملی کے انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے راہنما علاقے کا دورہ کرکےزیادہ سے زیادہ عوامی حمایت کے حصول کی کوشش کررہے ہیں اس سلسلے میں چندروز قبل وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھی گلگت بلتستان کا دورہ کیا عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کا جھال بچھانے،سڑکوں کی تعمیر اور علاقے میں چار نئے اضلاع کے قیام کا اعلان کردیا جبکہ سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک آئینی کمیٹی تشکیل دے کر گلگت بلتستان میں مزید اصلاحات لانے سے متعلق تجاویز تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیر اعظم کے اس دورے اور ترقیاتی منصوبوں کے اعلان کو حزب اختلاف کی جماعتیں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف نے پری پول ریگنگ قراردے کر الیکشن کمیشن سے رجوع کرکے وزیر اعظم کے خلاف کاروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم دو سال تک کہاں ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے تھے جونہی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات قریب آئے فوراعلاقے کا دورہ کرکے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کردیا۔ہمارے ملک کا المیہ یہ رہاہے کہ مقتدر قوتین ہر دور میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے سرکاری خزانے کا بے دریع استعمال کرتے ہیں۔وزیراعظم کا حالیہ دورہ گلگت بلتستان اور وہاں اعلان کئے گئے ترقیاتی منصوبے علاقے کے مفادات سے زیادہ مسلم لیگ کو انتخابات میں کامیابی دلانے کے لئے کیا گیاہے۔ جس کی مذمت اورعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایسی سازشوں کو ناکام بنانا ہر باشعور شہری کی ذمہ داری بنتی ہے۔
انتخابات میں دھاندلی کو روکنے کی ضرورت ہے
گلگت بلتستان سمیت ملک میں جہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں دھونس دھاندلی کے الزامات تواتر سے گردش کرتے آئے ہیں۔جس کی وجہ سے عوام کا سیاسی نظام سے امید ختم ہوتا جارہا ہے۔اگر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی جس کا واضح امکان ہے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں،کیونکہ حالیہ چند برسوں کے دوران علاقے کے تعلیم یافتہ نوجوان قوم پرست علیٰحدگی پسندقوتوں کی جانب کھینچے ہی چلے جا رہے ہیں،انتخابات میں دھاندلی ہونے کی صورت میں عوام کا اعتماد موجودہ نظام سے مزید اٹھ جائے گااورعلاقے کی حساسیت کے پیش نظر انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اگر جی بی کے مسئلے کی جانب توجہ نہیں دی گئی اوروفاقی حکومت جرات کا مظاہرہ کرکے علاقے کے آئینی حیثیت کاتعین نہ کیا تو ممکن ہے علاقے کے عوام اور تعلیم یافتہ نوجوان پاکستان سے مزید مایوس ہونگے۔خدشہ یہ ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں کے اندر علاقے کی موجودہ حالات باقی نہ رہے اسکی جھلکیاں سوشل،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ابھی سے نظر آرہی ہے،خاص کر دیامر بھاشا ڈیم سے ملنے والی رائلٹی،گندم سبسڈی اور پھر پیر کرم علی شاہ کو بغیر نوٹفیکشن کے گورنری سے ہٹا کر باہر سے برجیش طاہر کو گورنر بنانے کے خلاف جو ردعمل ہوا وہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔لیکن ابھی تک ہمارے حکمران اس گھمبیر مسئلے کو بڑے سطحی انداز سے دیکھ رہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات علاقے کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کر سکتے ہیں جبکہ علاقے کے مستقبل پر منڈلاتی سیاہ بادل اور گھٹائیں روز بروز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔
گلگت بلتسان کا مستقبل کس طرح ہونی چاہئے؟
چونکہ گلگت بلتستان میں روز بروز مایوسی کی کیفیت بڑھ رہی ہے ان حالات میں موجودہ انتخابات سےعلاقے کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتی ہے اس دوران پاکستان تحریک انصاف جی بی چیپٹر نے وفاق سے ہٹ کر علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا علیٰحدہ منشور پیش کیا ہے جس میں وغدہ کیا گیا ہے کہ اگر انہیں حکومت ملی تو تین سے چھ ماہ کے دوران گلگت بلتستان کو مکمل صوبائی خودمختاری دیا جائے گاجبکہ عمران خان نے الیکشن جیتنے کی صورت میں علاقے کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے،وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں گلگلت بلتستان کا دورہ کرکے بہت سارے ترقیاتی منصوبوں کےعلاوہ تین نئے اضلاع کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے، جبکہ مزید آئینی اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے کر اس سلسلے میں کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے آخر گلگت بلتستان کا مستقبل کیا ہوگا؟کیا اکیسویں صدی کے وسط میں جبکہ دنیا میں جمہوریت،نمائندہ حکومت اور شخصی آزادیوں کا بول بالا ہے گلگت بلتستان کے عوام کومزید بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت سے محروم رکھاجائے گا؟ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز مرہ کا معمول ہے عوام کی نہ تو پاکستان کے قانون ساز اداروں میں کوئی نمائندگی موجود ہے اور نہ ہی عدلیہ تک عوام کی رسائی ہے، پاکستان کے موجودہ آئین میں گلگلت بلتستان کے لئے کچھ بھی موجودہ نہیں۔کیا پاکستان کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ مزید اس علاقے کو بحیثیت کالونی کے اپنے قبصے میں رکھینگے یا پھر عوام کی مرضی سے اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کرینگے؟حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ گلگلت بلتستان میں ریفرنڈم منعقد کرکے عوام سے رائے پوچھ لے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ پانچوں صوبے کے طورپر رہنا چاہتے یا پھر آزادملک کے علیٰحدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اگر مزید تاخیر کی گئی تو یہ مسئلہ مزیدالجھن کا شکار ہوسکتی ہے۔