کالمز

شندور میلے کو میلا نہ بنایا جائے 

شمس الحق قمر گلگت

کسی زمانے میں لواری ٹینل چترال کے سادہ لوح عوام سے ووٹ بٹور کر اسمبلی تک پہنچنے کا ایک زریعہ تھا یہ ٹینل تعمیر ہونے کے بعد مختلف پارٹیاں اسے اپنی پارٹیوں کا مرہون منت قرار دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہ کی اور اسی نام پر سادہ لوح عوام سے ماضی قریب تک ووٹ بٹورتے رہے اب جب عوام کو تھوڑی بہت سمجھ آئی کہ وہ کونسا ایسا ملک دنیا کے نقشے میں ہے جس کے شہری سال کے چار مہینوں تک اپنے ملک سے قطع رہتے ہوئے بھی اُس ملک کو اپنا ملک کہتے ہوں ؟ یہ تو ہمارا حق اور حکومت کی مجبوری تھی کہ وہ ہمیں سال کے بارہ مہینے اپنا حصہ بنائے رکھے ورنہ ؂ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کا فارمولا کام آتا ۔ پرویز مشرف چونکہ ایک جنرل تھا اُسے معلوم تھا کہ ایک ملک کے شہریوں کے آمدوفت کا سلسلہ ملک کے باقی تمام شہروں سے چار مہینے تک منقطع رہنے کا نتیجہ کتنا سنگین ہوتا ہے۔ لہذا اُس نے بیرونی خطرات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لواری ٹینل پر کام شروع کروا دیا ۔ شندور بھی ایک ایسا پاس ہے جو کہ گلگت اور چترال کو تقریباً تین مہینے ایک دوسرے سے دور رکھتا ہے ۔ گلگت چونکہ پاکستان کا حصہ ہے اور گلگت کو پاکستان سے ملانے والا دنیا کا بڑا اور مشہوور شاہراہ قراقرم ہمیشہ سے غیر محفوظ رہا ہے ۔ اگر یہ راستہ خدا ناخواستہ پڑوسی دشمن کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے تو گلگت بلتستان پاکستان کے نقشے سے ہٹ سکتا ہے لہذا متبادل آمدورفت کے لئے شندور بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ راستہ نہ صرف دونوں تہذیبوں کو ملا نے کا اہم ذریعہ ہے بلکہ دفاعی نظر سے پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے۔تاہم ہمارے سیاست دان اس شاہراہ کو بھی لواری کے نعم البدل کے طور پر اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ 

shandur-polo-match-003گزشتہ دنوں پشاور میں گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت جناب عنایت اللہ شمالی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے مشیر وزیر اعلیٰ برائے سیاحت کا شندور پولو کے کامیاب انعقاد پر مشترکہ یادشت پر دستخط ملک کی ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج کل چترال کے مقامی میڈیا میں شندور کو متنازعہ بنا کر غیر ضروری طور پر اُچھالاجا رہا ہ ہے ۔ پشاور میں دستخط ہونے والےMemorandum of understanding کے کس صفحے پر یہ لکھا گیا ہے کہ چترالی نمائندوں نے شندور کا بٹوارہ کر دیا ہے ؟ ہمارے بعض سیاسی حلقے جان بوجھ کر الیکشن کے قریبی دنوں میں حساس اور ملکی دفاع سے متعلق موضوعات کو ہوا دے کر اپنے لئے راستہ صاف کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں. مثال کے طور پر یہ کہنا کہ اس یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے لاسپور کے باسیوں سے نہیں پوچھا گیا کیوں کہ شندورُ ان کی چراگاہ ہے ۔ کیا یہ سوال اُن حلقوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شدور کے نام پر کروڑوں ڈالر ہڑپ کرتے ہوئے بھی کبھی لاسپور کے باسی یاد آئے تھے ؟ کیا لاسپور کے باشندے رائیلٹی کے مستحق نہیں تھے ؟ 

ہم شندور میں پر امن پولو ٹورنمنٹ کے سلسلے میں پشاور میں ہونے والے شندور پولو کے سلسلے میں یاد داشت پر دستخط کی پیش رفت پر امجد آفریدی صاحب ، عنایت اللہ شمالی صاحب ،ماہنامہ شندور کے ایڈ یٹر مجاہد صاحب اور اُن تمام چترالی نوجوانوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے گلگت اور چترال یعنی دو بھائیوں کے بیچ حائل دوریوں کو دور کرنے اور فاصلوں کو کم کرنے میں اپنے دن رات ایک کرکے اس مسٗلے کو ایک خوبصورت موڑ دے کے رکھ دیا ہے ۔

میں چونکہ گلگت میں عرصہ دراز سے رہ رہا ہوں میں حکومت کے چند اعلی ٰ عہدیداروں کے علاوہ سیا سی شخصیات اور پولو سے متعلق عمائیدن کو بھی قریب سے جانتا ہوں. ان میں سے کوئی بھی حلقہ شندور پر مکمل طور پر اپنا حق جتانے کو شندور پولو سے مربوط کر کے قطعی پور پر نہیں دیکھتا ہے ۔ جہاں تک شندور کی ملکیت پر تنازعے کا تعلق ہے تو دونوں فرقین میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ علاقہ ان میں سے کسی ایک کا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ غیر آباد زمین حکومت پاکستان کی ملکیت ہے. اسے بے وقت متنازعہ بنا کرہمارے سیاست دانوں کا سیاست کرنے کا خیال انتہائی احمقانہ ہے۔

جہاں تک ہم نے دیکھا ہے تو گلگت کے لوگوں کے پاس پہلے سے ایسی چراگاہیں بہت پڑے ہیں. دیو سائی کا لق و دق سرسبزو شاداب میدانی علاقہ اِنہیں ایک نظر نہیں بھاتا تو شندور کی کیا حیثیت ہے؟ البتہ گلگت والوں نے شندور پولو سے اس لئے ناطہ توڑا تھا کہ چترا ل سکاؤٹ اور پولس کا رویہ گلگت کے انتظامیہ ، کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے ساتھ درست نہیں تھا ۔ گلگت میں ایک دوست کے گھر میں وزیر سیاحت عنایت اللہ شمالی کے علاوہ گلگت بلتستان کے کئی ایک شعبہ جات کے سیکٹری صاحبان اور ادب و شعری شاعری سے تعلق رکھنے والے احباب مدعو تھے جن میں ناچیز کا نام بھی شامل تھا ۔ محفل میں اگرچہ شندور کا ذکر چھڑ گیا لیکن تمام تر گفتگو شندور کی مالکانہ حقوق نہیں بلکہ شندور پولو اور چترال انتظامیہ کے نا روا سلوک کے گرد گھومتی رہی۔ چترال انتظامیہ سے گلے شکوے کا ان کا انداز بالکل درست اور دلخراش تھا ۔شندور میں گلگت والے چونکہ مہمان ہوتے ہیں لیکن مہمانوں کے ساتھ عجیب انداز میں پیش آیا جاتا ہے ۔ گھوڑوں کے لئے اسطبل نہ کھلاڑیوں کے لئے کوئی اہتمام یہاں تک کہ چترال سے آنے والا ہر تماشائی اسٹیج کی کرسیوں پر قابض ہوتا ہے اور گلگت سے آنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین اور حظرات پتھروں کے اوپر بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ یہاں کرسیوں پر نشست بنانے کیلئے بھی چترال انتظامیہ کی طرف سے ٹکٹوں کا انتظام ہوتا ہے جو کہ پہلے سے بانٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ بس چترال سے قطع تعلق کی صرف یہی وجوہات ہیں جو گلگت کے لوگ بیان کرتے ہیں ۔

ہمارے سیاست دانوں سے ہماری گزارش ہے کہ دو بھائیوں کے بیچ دشمنی اور عداوت کو ہوا نہ دیں بلکہ ہمدردی اور اخوت پیدا کرنے لئے اپنی سیاست کو عمل میں لائیں ۔ پشاور میں ہونے والے Memorandum of understanding کے ذریعے کسی اور مشن پر قطعی پور پر کام نہیں ہو رہا ہے. اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اُسے یہ بات پردے میں رکھ کے لوگوں کو گمراہ بنانے سے ہر چند فائدہ نہیں بلکہ وضاحت فرمائیں کہ کس خفیہ ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button