شندور میلے کو ناکام بنانے کی کوشش
سطح سمندر سے12ہزار فٹ بلندی پر واقع شندور اپنے قدرتی حسن ،بہتی ندی نالوں ،وسیع وعریض جھیلِ شندور اور دنیا کی بلند ترین پولوگراؤنڈ کی وجہ سے منفرد مقام کا حامل ہے۔ اسی پولوگراؤنڈ میں برسوں سے گلگت بلتستان اور چترال کی پولوٹیموں کے درمیان ’فری اسٹائل پولو‘ کے مقابلے ہوتے ہیں. تاریخی حقائق کے مطابق شندور میں کئی پولوگراؤنڈ موجود ہیں البتہ موجودہ گراؤنڈ سے پرے’ مس جنالی‘ کے نام سے ایک اور پولوگراؤنڈ بھی موجود ہے.
روایت ہے کہ شاہی حکمرانوں کے دور میں جب چودھویں کا چاند دمکتا تھا تو حکمران چاندنی رات کو اس پولوگر اؤنڈ میں پولوکھیلتے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شندور وادی لاسپورکے باسیوں کی گرمائی چراگاہ ہے ہر سال مئی جون کے مہینے میں علاقہ لاسپو ر(شاہی داس سے لیکر سورلاسپور تک کے علاقوں کو بیرونی لوگ لاسپور ہی کے نام سے پکارتے ہیں)کے مکین اپنے مال مویشیوں کولیکر شندورغاری منتقل ہوتے ہیں اور غالباََ اکتوبر کے آخر تک وہی رہتے ہیں.
موجود ہ جشن شندور کا آغاز 80ء کی دھائی کے آخری عشروں میں ہوا جب پاکستان کے سابق آمر حکمران جنرل ضیاء الحق نے گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کی پولوٹیموں کو بھی اس ٹورنامنٹ میں شرکت کی دعوت دی۔اس کے بعد ہرسال جولائی کے دوسرے ہفتے کے تین دن یعنی 7 ، 8 اور 9 تاریخ کو اس ٹورنامنٹ کے لئے مختص کیا گیا.
جشن شندور میں شرکت کرنے والی پہلی ہائی پروفائل شخصیت ضیاء الحق تھے۔ اسکے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور جرنیل پرویز مشرف بھی جشن شندور کے مواقع پر یہاں تشریف لاکر نہ صرف ٹورنامنٹ کی کامیابی میں اپنا کلیدی کردار اداکیا بلکہ چترال میں شروع کئے جانے والے اکثر میگا پراجیکٹس مثلا لواری ٹنل ، مستوج گلگت روڈ اور نیٹکو بس سروس،بونی مستوج روڈ وغیرہ کا آغاز اس فیسٹول کے موقع پر کیا گیا ۔شروع میں یہ ٹورنامنٹ چترال کے ضلعی انتظامیہ کے زیرِ انتظام منعقد ہوتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اسکی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیا تو خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے اسے صوبے کے میگاایونٹ کی لسٹ میں شامل کردیا اور اس کے لئے صوبائی وزارت کھیل وسیاحت بڑی مقدار میں فنڈبھی ریلیز کرتی ہے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ فائنل کے دن پاکستان ٹیلی ویژن اس ٹورنامنٹ اور دوسری تقریبات کو پورے دن لائیونشرکرتے تھے جسکی وجہ سے جشن شندور ایک معمولی پولو ٹورنامنٹ کی بجائے ایک بین الاقوامی لیول کے ایونٹ میں تبدیل ہوگیا۔میڈیا کی اس کوریج کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح زیادہ سے زیادہ اس علاقے بالخصوص جشن شندور کی جانب متوجہ ہوگئے یوں چترال میں جشن شندور کی وجہ سے سیاحت کے شعبے کو بے انتہا ترقی ملی۔ اس سے آگے جونہی شندورمیلہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مالی مفادات وابسطہ ہوگئے تو گلگت بلتستان کی طرف سے اپنے لئے حصے داری کا مطالبہ سامنے آیا اور جب ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو جی بی کی پولوٹیموں نے اس ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ شروع کیاجس سے اس ٹورنامنٹ کی اہمیت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ ایک دور تھا جبکہ صدر پاکستان جرنیل پرویز مشرف سالانہ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرتے تھے اور ایک وقت پچھلے سال ایسا بھی آیا جب گلگت بلتستان نے ٹورنامنٹ میں شرکت سے معذرت کر لی توبیرونی سیاح تو دور کی بات چترال کے لوگ بھی ٹورنامنٹ دیکھنے نہیں گئے۔میڈیا کے اس دور میں جبکہ چند برس قبل پی ٹی وی گھنٹوں اس ایونٹ کی نشریات براہ راست نشرکرتے تھے اب اسکی خبریں مقامی میڈیا تک محدود ہوکررہ گئی۔
چندہفتہ قبل شندور فیسٹول کو دوبارہ زندہ کرنے اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کو دوبارہ اس ایونٹ میں واپس لانے کے حوالے سے پشاور کے ایک ہوٹل میں سیمنار کا اہتمام کیاگیا جسمیں گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ حکومت کے وزراء اور نمائندوں کے ساتھ ساتھ چترال سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے خاتون رکن صوبائی اسمبلی فوزیہ بی بی اور ایم پی اے مستوج سید سردار حسین نے بھی شرکت کی۔پروگرام میں ایک یادداشت پر دستخط کیا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ جشن شندور کے تین روزہ فیسٹول کے انتظامات خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کی حکومتیں مل کر کریں گی۔ یہ کہ دونوں خطوں کے کھلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست کیا جائے گا اور طرفین کے گھوڑوں کے لئے اصطبل تعمیر کی جائے گی۔تاکہ ان تین دنوں میں کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کے اہم محرک یعنی گھوڑوں کے لئے پرسکون ماحول میسر ہو اور اسکے علاوہ اسٹیج پر خیبر پختونخواہ کے ساتھ گلگت بلتستان کی نمائندگی بھی ہوجائے۔یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائینگے محمود وایاز۔
چونکہ خیبر پختونخواہ میں 30مئی کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی گروہ اپنی مفادات کے لئے مختلف قسم کی پروپیگنڈوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں جب خیبر پختونخواہ اور جی بی حکومتوں کے درمیان جشن شندور کو مل کر منانے کا معاہد ہ ہوا تو سیاسی سازشیوں کو موقع ہاتھ آگیا۔ چترال بالخصوص لاسپور میں یہ پروپیگنڈہ شروع ہوا کہ ایم پی اے سید سردار حسین نے گلگت بلتستان کے ساتھ مل کر شندور کی چراگاہ کو دونوں خطوں کا مشترکہ ملکیت قراردیا ہے جس کے بعد اب شندور کے چراگاہ (زمین)میں گلگت بلتستان کا بھی اتنا ہی حق ہوگا جتنا کہ لاسپور کے عوام کا۔ اس پروپیگنڈے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ چند افراد جو کئی دہائیوں سے اس ٹورنامنٹ کے سیاہ وسفید کے مالک بن کر مالی مفادات حاصل کرتے رہے اور ٹورنامنٹ کے لئے مختص کروڑوں روپے چندافرادبغیر قے کئے نگل چکے ہیں، اب اس فیصلے کے بعد شائد ان کے مالی مفادات پرضرب پڑی ہو۔ اسکے علاوہ لاسپور کے علاقے سے ان طبقات کے سیاسی مفادات بھی وابسطہ ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کے سیاسی عزائم کا خاتمہ ہوتا جارہاہے لہٰذا اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور جشن شندور سے حاصل ہونے والے اقتصادی مفادات کو بچانے کے لئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔
بعض لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ کہ اگر جشن شندور میں گلگت بلتستا ن کی ٹیمیں شرکت نہ بھی کریں تواسکا ٹورنامنٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ حالیہ چند برسوں میں جب بھی گلگت بلتستان کی پولوٹیمیں ایونٹ میں شرکت نہیں کرتی سیاحوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہی ہے گزشتہ کئی سالوں سے اسی مسئلے کی وجہ سے کوئی بھی اعلیٰ عہدے دار اس پروگرام میں شرکت نہیں کی سابق آمر جرنیل پرویز مشرف کے بعد یعنی گزشتہ سات سالوں کے دوران صرف ایک بار وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ امیر حید رہوتی نے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کی اس دوران کسی ٹی وی چینل میں اس ایونٹ سے متعلق کوئی تفصیلی رپورٹ نشر نہیں ہوئی جس کے چار انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے ۔
1: یہ کہ ٹورنامنٹ کے پھیکے پن کی وجہ سے کوئی اعلیٰ عہدے دارعلاقے کے دورے پر نہیں آئے جس کی وجہ سے ان سات سالوں میں چترال میں ایک بھی میگا پراجیکٹ شروع نہیں ہوا اور یوں چترال میں گزشتہ سات برسوں سے ترقی کا پہیہ رکاہواہے۔
2:ٹورنامنٹ کی مناسب تشہرنہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر رہی جس کی وجہ سے کاروباری طبقات، ہوٹل مالکان اور ٹرانسپورٹرسمیت سارے شعبوں کے افراد پر برے اثرات مرتب ہوئے۔
3:جشن شندور کے مواقع پر چترال کے اندر سڑکوں کی مرمت اور کشادگی ہوتی تھی لیکن چونکہ گزشتہ کئی سالوں سے اسکی اہمیت ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے انفراسٹریکچر کی تعمیر اور مرمت نہیں ہوئی اور یوں چترال کی سڑکیں ملبوں کا ڈھیر بن چکی ہے ۔
4:جشن شندور پی ٹی وی سے گھنٹوں براہ راست نشر ہوتے تھے جس کی وجہ سے چترال اور جی بی کی ثقافت کے پنپنے اور بیرونی دنیا تک رسائی ممکن ہوئی تھی لیکن گزشتہ کئی سالوں سے پی ٹی وی سمیت کسی بھی بڑے میڈیا میں اس ٹورنامنٹ سے متعلق کوئی خاض رپورٹ نشر نہیں ہوئی جس کی وجہ سے چترال اور جی بی کی ثقافت کے ابھرنے اور بیرونی دنیا تک رسائی کے امکانات معدوم ہوکررہ گئے ۔
علاقہ لاسپور میں مخصوص طبقات سیاسی مفادات کے حصول کے لئے ایم پی اے مستوج سید سردارحسین کی کردارکشی کررہے ہیں تاکہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے من پسند افراد کو کامیابی دلاکر 2018ء کے عام انتخابات کے لئے علاقے میں اپنے لئے spaceپیداکیاجاسکے ۔ جبکہ ایم پی اے صاحب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جشن شندور سے متعلق حالیہ سیمنار میں کئے گئے فیصلوں اور اپنے کردار کو واضح کیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وہ سیمینار میں باقاعدہ مدعو نہیں تھا چترال کے ایک موقر نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والے ان کے (سردارحسین ) بیان کے مطابق’جشن شندور کے سلسلے میں خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے درمیان طے پاجانے والی مفاہمتی یادداشت سے پہلے سیمینار میں ہر گز مدعونہیں تھے بلکہ علاقے کا ایم پی اے ہونے کی وجہ سے انہوں نے خود شرکت کی اوراپنے تقریر میں وضاحت کیا کہ اس فورم میں شندور گراؤنڈ کی ملکیت پر کوئی بات نہیں ہونی چاہئے اور تمام سوچ وبچار فیسٹول کو شایان شان طورپر منانے کے بارے کئے جائیں‘‘۔ایم پی اے نے مزید بتایا ہے کہ’’ اس موقع پر جس مفاہمتی یادداشت یا ایم او یوکے بارے میں واویلا مچایاجارہا ہے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی اسے قانونی دستاویز کے طورپر کہیں پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دونوں پارٹیاں اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے‘۔ سردار حسین صاحب نے اپنے پریس کانفرنس میں شندورفیسٹول کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔’کہ یہ ایک بین الاقوامی شہرت کے حامل ایونٹ ہے جس میں کئی سربراہاں مملکت اوار وزرائے اعظم بشمول بے نظیر بھٹو نے شرکت کی اوریہیں سے چترال کی ترقی کے لئے اعلانات کئے گئے جس کے نتیجے میں چترال میں کئی درمیانی اور میگاپراجیکٹ آج ہمیں نظرآرہے ہیں وزیر اعظم پاکستان نے چینی صدر کے ساتھ 52معاہدوں پر دستخط کیا ہے جن میں سے چھ میگا پراجیکٹس سے چترال اور گلگت بلتستان کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اگر ہم اس سال شندور فیسٹول کے موقع پر وزیراعظم کو مدعو کرکے ان سے اعلانات کرواسکے‘‘۔
شندور کی زمین صرف اور صرف لاسپور کے عوام کی گرمائی چراگاہ ہے اسمیں نہ کوئی لین دین ہوا اور نہ ہی ہوسکتاہے البتہ اس سرزمین میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ فوائد بھی لاسپور کے عوام کو مل سکتی ہے کیونکہ ان کے کاروبار کو تقویت مل سکتی ہے وہاں کے ٹرانسپورٹر کو روزگارملے گا اور علاقے میں سیاحت کے فروع سے عوام کوبہت سارے معاشی فوائد مل سکتی ہے اسلئے علاقہ لاسپور کے باشعو ر عوام کو چاہئے کہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود کو اس پروپیگنڈ ہ بازوں سے ہوشیار رکھیں کیونکہ جشن شندور کے لئے ریلیز ہونے والی فنڈز کا ابھی تک ایک فیصد حصہ بھی لاسپور کے کسی عام آدمی کو نہیں ملا ہے اس کا سارا فائدہ چترال کے چند افراد لے رہے ہیں اور اب بھی وہی عناصر اپنے مفادات کی خاطر عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔