کالمز

را کی دلچسپی اور شندور کی زمین 

تحریر : ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ 

بعض غیر متعلقہ لوگ غیر مصدقہ خبروں کو لیکر شندور کی ملکیت کا جھگڑا اُٹھا رہے ہیں اور اس کو انٹر نیشنل فیسٹول کانام دیتے ہیں ۔سیاحت کانام دیتے ہیں۔ زمین مالکان کو سیاست میں ملوث ہونے کاطعنہ دیتے ہیں ۔جولوگ اس موضوع پر خو د کو اتھارٹی قرار دیتے ہیں ۔ان کا تعلق ایسی جگہوں سے ہے ۔جنکا شندور سے دُور کا فاصلہ ہے ۔50 کلومیٹر سے لیکر 600 کلومیٹر تک دُور کا بندہ شندور کی ملکیت کا مسئلہ اُٹھا تاہے ۔تو افسو س ہوتاہے ۔پڑوسی ملک کی ایجنسی ریسرچ انیڈ اینے لی سیس ونگ (RAW) نے پر ل کانٹیننٹل ہوٹل پشاور میں شندور کی ملکیت پر خفیہ دستاویز پر دستخط کرانے کی تقریب میں چترال ،لاسپور اور شندور کی ملکیت سے تعلق رکھنے والوں کو نہیں بلایا ۔غیر متعلقہ لوگوں نے مفاہمت کی یاد داشت تیار کی اور غیر متعلقہ لوگوں نے اس پر دستخط کئے ۔جولوگ بیان دیتے ہیں ۔اور کالم لکھتے ہیں ۔انہوں نے مفاہمتی یاد داشت نہیں پڑھی ۔اس یادداشت میں ’’را‘‘ کے اہلکاروں نے 8 شیقیں شامل کئے ۔پہلے شِق میں کوشٹ تحصیل موڑ کہو سے تعلق رکھنے والے شخص کو شندور کا مالک قر ار دیا اور آخری شق میں اس بات کا اعادہ کیا کہ شندور پر جوبھی بات ہوگی ۔کوشٹ کے باشند ے کو اتھارٹی مانا جائے گا ۔بقایا چھ شقوں میں چھ باتیں ہیں۔اور شندور میں زمین کی ملکیت کے حوالے سے ہیں ۔کوہاٹ کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والا امجد افریدی دستخط کر کے دیتا ہے کہ شندور کی زمین مشترک ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ گلگت والے پولو گراؤنڈ کی مرمت کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔وہ دستخط دیتا ہے کہ گلگت والے مکانات ،اصطبل اور دیگر تعمیر ات کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔وہ یہ بھی لکھ کردیتا ہے کہ گلگت والے پولیس چیک پوسٹ بنانے کا حق رکھتے ہیں وہ اس پر ستخط کرتا ہے کہ گلگت والوں کو فنڈ میں برابر کا حصہ ملے گا ۔وہ اس پر بھی دستخط کرتاہے کہ گلگت والوں کو رائلیٹی میں مساوی حق ملے گا ۔وہ بھی لکھ کر دیتا ہے کہ گلگت والوں کو میزبانی کے حقوق ملینگے ۔ان میں سے کوئی بات بھی بونی ،کوشٹ ،کندوجال ،مغلاندہ ،پرواک ،اور پشاور یا کوہا ٹ کے بارے میں نہیں ہے لاسپور کے باشند وں کی پدری جائیدادشندور کے بارے میں ہے ۔میرا برخور دار کریم اللہ اگر پرواک اور نصرگول میں اپنی پدری جائیدار کا ٹکڑ ا گلگت والوں کو رشوت میں دے کر پولو فیسٹیول کرواتا تو لاسپور کے عوام کو کبھی اعتراض نہ ہوتا ۔اس خفیہ دستایز کو قانونی حیثیت دینے کے لئے جو من گھڑت اور بے سروپا مفروضے گھڑلئے گئے ہیں ۔وہ سراسر جھوٹے ہیں ۔پہلا غلط مفروضہ یہ ہے کہ شندور میں سیاح گلگت بلتستان کے لوگوں سے ملنے آتے ہیں۔دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ صدر یا وزیراعظم صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کی دعوت پر شندور کا دورہ کرتا ہے ۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف دونوں گلگت بلتستان کے لوگوں کی دعوت پر شندور آتے تھے ۔تیسر ا جھوٹا مفروضہ یہ ہے کہ ٹیلی وژن چینل صرف گلگت بلتستان والوں کی وجہ سے شندور کا فری سٹائل پولو دکھا تے ہیں چھوتھا غلط مفروضہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو شامل نہ کیاگیا ۔ان کو زمین کے حقوق نہ دئیے گئے۔تو شندور کا پولو فیسٹول دیکھنے کوئی نہیں آئیگا ۔یہ بھی سفید جھوٹ ہے جس سال گلگت بلتستان نے بائیکاٹ کیا ۔اُس سال گلگت سے تعلق رکھنے والے چار چانچ ہزار نماشائیوں کی کمی پاکستان کے دوسرے حصوں سے آنے والے سیاحوں نے پوری کی ۔ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں ۔بنوں ،ڈی آئی خان ،چکوال ،ساہیوال اور کراچی سے لوگ آئے ۔بعض گاڑیوں پر پینر لگا کر آئے ۔چاہے صدر اور وزیراعظم ہوچاہے ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائیندے ہوں چاہے ملکی یا غیر ملکی سیاح ہوں ۔وہ گلگت کے لوگوں سے ملنے ،اُن کے میچ دیکھنے گلگت جاتے ہیں۔ہنزہ جاتے ہیں ۔دیو سائی جاتے ہیں شندور آنے والا چترال کا سیاح ہوتاہے گلگت کا سیاح نہیں ہوتا ۔اور ہم گلگت کی ٹیموں کے بغیر کامیاب فیسٹول منعقد کر کے دکھا چکے ہیں۔میرے برخوردار کریم اللہ کو اچھی طرح علم ہے کہ چترال ،لاسپور اور شندور خیبرپختونخوا کا حصہ ہے ۔جبکہ گلگت بلتستان تنازع کشمیر کے ایجنڈے میں شامل ہے ۔اس لئے پڑوسی ملک کا انٹیلی جنس نیٹ ورک بے ضمیر لوگوں کی مدد سے شندور کی سرحدی حد بندی پر تنازعہ اُٹھا رہا ہے ۔یہ بھی افواہ ہے کہ را نے پر ل کانٹیننٹل پشاور کے خفیہ سیمینار کی فنڈنگ کی ۔گلگت میں اس طر ح کا خفیہ سیمینار کرانے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔لاسپور کے عوام ،محمد شہاب الدین ایڈوکیٹ ،امیر اللہ خان یفتالی،صوبیدار میجر (ر) قلند ر شاہ اور راقم الحروف یادوسرے لوگ سیاست نہیں کررہے بلکہ اپنی پدری میراث کا دفاع کررہے ہیں یہ دراصل پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی زمین کادفاع ہے ۔خیبر پختونخوا کی زمین کا دفاع ہے ۔سابق وزیراعلیٰ امیر حید ر خان ہوتی اور سابق وزیراطلاعات میاں افتخارحسین نے دشمن کے مقابلے میں ایک ایک انچ زمین کے دفاع کا اعلا ن کیا تھا سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد نے عوام کے حق کا دفاع کیا تھا ۔شندور کے اندر لاسپور کے لوگوں کے 600 گھرانوں اور 5 عبادت خانوں کا دفاع کیا ۔یہ پدری زمین کے دفاع کا معاملہ ہے ۔غیر متعلقہ لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہماری پدری میراث کاسودا کریں۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button