کالمز

انتخابات میں عدم دلچسپی ۔۔۔۔لمحہ فکریہ 

گلگت بلتستان میں انتخاباتی سر گرمیاں زور و شور سے جاری ہیں ، 8 جون میں منعقد ہونے والے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے انتخابات کیلئے سینکڑوں امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں ، مختلف وفاقی سیاسی جماعتوں ، مذہبی جماعتوں ،قوم پرست جماعتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی ان انتخابات میں جیت کی امید لئے آمنے سامنے ہونگے۔ جوڑ توڑ اور لالٹین مہم عروج پر پہنچ گئی ہے امیدوار اپنی بھر پور تیاری کے ساتھ مد مقابل کو زیر کرنے کے مختلف حربوں کا استعمال کر رہے ہیں،حالیہ انتخابات میں بہت سارے نئے چہرے بھی نئے اور دلفریب نعروں کے ساتھ سامنے آئے ہیں، کارکنان اپنے امیدوار کیلئے ووٹ مانگنے کیلئے اپنے اپنے حلقہ جات میں پھیل گئے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ اور اتحاد بنانے کی کوششیں بھی تیز ہو گئی ہیں ، یعنی انتخابات کا عمل اپنے عروج کو پہنچ گیا ہے، لگتا یہی ہیکہ جو امیدوار زیادہ محنت اور پیسہ خرچ کریگا جیت اسی کی ہوگی۔ 

ranaانتخابات جمہوریت کا حسن ہے اور اس حسن کو برقرار رکھنے کیلئے ہر 5 سال بعد ممبران کا چناو عوام اپنے ووٹ کے ذریعے کرتی ہے، تاکہ وہ علاقے کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرسکیں،گلگت بلتستان میں یہ روایت رہی ہیکہ امیدوار انتخابات کے دنوں میں عوام کے پاس ووٹ مانگنے جاتے ہیں اور انہیں مختلف خواب دکھا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اسکے بعد ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں، عوام ہر سال اس امید پرممبران کو منتخب کرتی ہے کہ وہ عوام کی خدمت کر یں نہ کہ اپنی عیاشی کے تقاضے پورے کریں، لیکن اگر ہم ماضی کے اوراق پلٹیں توہمیں ممبران اسمبلی کے زبانی دعوے ہی نظر آئینگے ، عملی طور پر کسی ممبر اسمبلی نے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس کی ہم مثال دے سکیں، جب انتخابات کا دور شروع ہوتا ہے تو نہ صرف سرکاری مشنری حرکت میں آتی ہے بلکہ وفاقی جماعتوں کو بھی گلگت بلتستان کے لوگوں پر پیار آنے لگ جاتا ہے،ایک بار پھر موسمی پرندوں نے یہاں کا رخ کرنے کیلئے پر نکال لئے ہیں۔ یہاں قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ اس بار عوام و خواص سے بارہا ملاقاتوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ انتخابات سے عدم دلچسپی اظہار کر رہیں ہیں، گلگت بلتستان کے 50 فیصد عوام سابقہ برے تجربات کی وجہ سے دلبرداشتہ ہیں ، نہ ہی وہ کسی مہم کا حصہ ہیں نہ ہی الیکشن پر کوئی مباحثے میں شریک ہوتے ہیں بلکہ ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے حالیہ انتخابات میں ووٹ نہ ڈالنے کا بھی فیصلہ کر لیاہے۔

کل کی بات ہے ایک دوست کے ساتھ چائے پینے میں ایک مقامی ہوٹل میں داخل ہوا ، ہوٹل میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی بڑی مشکل سے ایک کونے میں ٹکنے کا موقع مل گیا، چائے آرڈر کرنے کے بعد آس پاس کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ زیادہ تعداد مزدورطبقے سے تھی ، ہماری ٹیبل کے ساتھ ہی کچھ افراد الیکشن کے موضوع پر طویل بحث میں مصروف تھے ، مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ اپنے حلقے میں کس امیدوار کو ووٹ دے رہیں ہیں ، خلاف توقع جواب ملا کہ وہ تو کسی کو ووٹ نہیں دینگے بلکہ اس دن مزدوری کیلئے نکلیں گے اور اپنی خواتین کو بھی ووٹ دلوانے کا انکا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 

جمہوری نظام میں بھلے ہی بہت ساری خامیاں سہی لیکن اگر عوام اسی طرح انتخابات میں رائے دہی سے کنارہ کشی اختیار کرتی رہی تو پھر تبدیلی کوسوں دور رہ جائیگی، اور عوام کی عدم دلچسپی درحقیقت جمہوریت کی موت ہے ۔ اگر عوام کسی ایک امیدوار کے انتخاب سے عاجز آئیگی تو پھر ایسے لوگ ہی حکمران بنیں گے جو پیسے کے بل بوتے پر الیکشن لڑتے ہیں ، قابل ، عوامی سوچ رکھنے والے اور زیرک سیاستدان اسی لئے ہر دفعہ ہار جاتے ہیں کیوں کہ ہماری عوام کو شعور نہیں ہے ۔ 

حال ہی میں برطانیہ میں انتخابات ہوئے جہاں عوام نے ایک پارٹی کے حق میں ووٹ دیا ، نہ تو وہاں الیکشن کی وجہ سے سڑکیں بند ہوتی ہیں نہ ہی نظام زندگی متاثر عوام باشعور ہیں وہ پارٹیز کے منشور کو سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں نہ کہ ہماری طرح کہ ایک پارٹی کا امیدوار دوسری پارٹی کے امیدوار کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ 

موجودہ غیر یقینی صورت حال میں عوام کو چاہئے کہ وہ نہ تو کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کی زد میں نہ آئے اور نہ ہی ظاہری جاہ و جلال کے دھوکے میں ،بلکہ انتخابات سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے ، اہل ، ایماندار اور عوامی نمائندے کو ووٹ دیں تاکہ وہ کم از کم بہتر قانون سازی ہی کر سکیں جو کہ ہمارے لئے وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button