اختلاف کے ساتھ اتحاد
معاشرتی امن اور سماجی انصاف میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ اور ملک عزیز میں سب سے زیادہ اسی کا فقدان ہے۔ آج کی محفل میں ایک بار پھر مختصراً اس موضوع کو چھیڑتے ہیں کہ کیا اختلاف کے ساتھ اتحاد ممکن ہے؟۔ میر ا سادہ سا جواب ہے کہ بالکل اختلاف بلکہ سخت اختلاف و تنوع کے ساتھ بھی اتحاد ممکن ہے۔مجھے علمی اور سماجی و سیاسی شخصیات کے ساتھ ہمیشہ ڈائیلاگ کرنے کا موقع مل جاتا ہے جو سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہر ایک کا یہی رونا ہوتاہے کہ امت کا شیرازہ اختلاف و لڑائی کی وجہ سے بکھرا ہوا ہے۔ اور یہ بات کسی حدتک درست بھی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ آج کے موجودہ معاشرے میں شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، وہابی،حیاتی مماتی، مقلد(حنفی، شافعی،حنبلی،مالکی) غیر مقلد،خارجی غیر خارجی،صوفیہ امامیہ، اسماعیلی آغاخانی، خوجے، بوہری،غامدی، مودودی، غرض سینکڑوں فرقے ہیں پھر ہر فرقے کے اندر جتھے کے جتھے ہیں اور ہر، جتھہ دوسرے کو بدعتی اور لادین و بے دین کہتا نہ تھکتا ہے۔کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ صرف احناف کے اندر کئی گروہ ہیں جو ایک دوسروں پر لعن و طعن اور خارج ازاسلام قراردیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اہل سنت کا گروہ احناف میں بریلوی و دیوبندی ، حیاتی و مماتی اور تبلیغی و جہادی ایک دوسروں کے لیے کتنا احترام اور برداشت رکھتے ہیں یہ سب جانتے ہیں۔آج مملکت خداداد پاکستان میں سینکڑوں فرقے وجود میں آچکے ہیں بقول عبدالخالق تاجؔ کے ،صرف گلگت کشروٹ میں تہتر فرقے ہیں۔تاہم اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ہمیں اسلام کے صدر اول کا مختصر جائزہ لینا ہوگا۔ عین ترقی اسلام میں مسلمانوں کے کئی گروہ یا فرقے وجو د میں آئے تھے۔ ان میں خارجی، جہمیہ، قدریہ، جبریہ،معتزلہ، شیعہ، اہل ہوا،اور اہل بدعت وغیرہ بہت ہی مشہور تھے۔پھر اہل سنت کے اشعری، ماتریدی، حنبلی، محدثین اور دیگر کی علمی بوقلمونیاں اورمعاصرانہ چشمک تاریخ کے صفحات پر عیاں ہیں اور ایک دوسروں کوگمراہ اور زندیق کہنا تو معمول کی بات تھی۔ان کے حوالے دینے بیٹھ جاؤں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے۔
ان تمام فرقوں کے علمی مناظروں و معرکوں کی کہانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔تاہم اس دور میں وہ تمام اصحاب علم و فِرق سمجھتے تھے کہ عقائد کے باب میں اتنے سخت اختلاف کے باوجود بھی مشترک اغراض و مقاصد اور معاشرتی ضروریات ا ورسماجی انصاف کے لیے اتحاد ممکن ہے۔اور اگر سچ پوچھا جائے تو اسی اتحاد ویکجہتی کی دعوت قرآن کریم نے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ لقمان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ واِن جاھداک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم، فلاتطعہما،وصاحبہما فی الدنیا معروفا‘‘۔یعنی اگر وہ دونوں(لڑکے کے والدین) یہ کوشش کریں کہ تو ہمارا شریک اس چیز کو بنائے، جس کا تجھ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آ۔قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین بیٹے کو شرک پر اکسارہے ہیں مگر اللہ بیٹے کو شرک سے روک رہے ہیں مگر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور معاشرتی رواداری کا حکم فرماتا ہے۔اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اختلاف اور اتفاق کی راہیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔یہ سوفیصد ممکن ہے کہ عقائد کے باب میں اختلاف ہو مگردوسرے معاملات بالخصوص معاشرتی یکجہتی و رواداری میں اتفاق و اتحاد ممکن ہے۔
اختلا ف کیساتھ اتحاد ممکن ہے ۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔ اور اس دعویٰ کے سینکڑوں دلائل موجود ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ علامہ زمخشری غالی معتزلی تھے۔ انہوں نے تفسیرکشاف لکھی اس میں اپنے عقائد کو کہیں واضحاً اور کہیں اشارتاً بیان کیا لیکن علماء امت نے ہمیشہ تفسیر کشاف سے استفادہ کیا اور اپنے دروس و نصاب میں اس کو شامل رکھا۔یہی حال علامہ تفتازانی کی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عقلی اور ادبی،عقلی ،سائنسی علوم میں جو لوگ امام مانے جاتے تھے ان کا احترام ہر دور میں کیا جاتا رہا اگرچہ ان کے عقائد میں بعدالمشرقین تھا۔مختلف مکاتب فکر کی کتابیں پڑھائی جاتی رہی۔ اور فرقہ مخالف کے مصنف کا نام احترام و اکرام سے لیا جانا ایک معمول کی روایت تھی اور آج بھی کہیں کہیں یہ بات موجود ہے۔
میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ دوسروں کو چھیڑا نہ جائے اور اپنا عقیدہ چھوڑا نہ جائیں۔ قرآن کریم کی زبان میں اسے ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ کہا جاتا ہے۔اس میں دورائے نہیں کہ انتشار و افتراق کے بے شمار علل و اسباب ہیں۔ ہم ان میں سختی پیدا کرنے کے بجائے ان اسباب کو ختم کرنا چاہیے تو یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اسلام نے انسانیت کا درس سب سے زیادہ دیا۔کیا ہم انسانیت کے نام پر بھی سکون سے نہیں رہ سکتے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ یا ایھا الانسان ماغرک بربک الکریم‘‘ ۔ اے انسان تجھے کس نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔تجھے کس نے تیرے پرودگار سے دور کیا ہے۔ہمارے معاشرے میں جو انٹیلیکچول ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ان تمام اسباب و علل کا کلیۃً خاتمہ کریں جو انتشار و افتراق اور لڑائی جھگڑے کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ان کو ملیامیٹ کیا جانا ممکن نہیں تو پھر ایسا ماحول ضرور پیدا کیا جانا چاہیے کہ ان اسباب و علل کی پرچار اور تبلیغ پر پابندی ہو۔ اور یہ پابند ی لوگ حکومت کی بجائے لوگ اخلاقی طور پر قبول کریں۔ اس کے لیے اسکالرز اور تعلیم یافتہ احباب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔موجود دور میں میڈیا ایک باوقار ذریعہ ہے۔ اگر میڈیا کے کارپرداز چاہیے تو وسیع پیمانے پر یہ خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔ شاید میڈیا مالکان کی ترجیحات میں یہ بات نہ ہو۔سانحہ لال مسجد ہو ، سانحہ پشاور ہو یا پھر سانحہ کراچی یا دیگر سانحات۔یہ کسی گروپ یا کمیونٹی کے سانحے نہیں یہ تمام سانحات پاکستان کے ہیں۔ ایسے سانحات سے ہمیشہ ملک و ملت بدنام ہوجاتے ہیں۔اب وقت آیا ہے کہ پاکستانیوں کو گروپ بندیوں کی بجائے پاکستانی ہوکر سوچنا ہوگا۔آج بھی اگر ’’تیرا میرا‘‘ کا چکر رہا تو پھر مشکل ہے زندگی کو معاشرتی رواداری سے گزارنا۔ خدا کے لیے انسانیت اور پاکستانیت کے نام پر تو متحد ہوجائیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔