کالمز

ووٹ مَنگے

محمد جاوید حیات
محمد جاوید حیات

گندم کی فصل کو پانی دے کر تھک ہار کے دالان میں بچھے لکڑی کی تخت پر ڈھیر ہو گیا تھا ۔اتنے میں بیگم صاحبہ مضطرب سی دوڑ دوڑ ی آئی اورکہا۔۔۔ اٹھو اٹھو میرے رشتے کا بھائی آیا ہے ۔۔۔۔ ووٹ مانگنے ۔۔۔مجھے عجیب لگا۔۔۔ ’’کیا ووٹ بھی مانگاجاتا ہے‘‘ کیا کسی کے ضمیر کی بھیک مانگی جاتی ہے ‘‘کیا صلاحیتوں اور خدمت کو بنیاد بنا کر اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے اور بیگم کی اس بات نے مذید مجھے تڑپا دیا ۔۔۔’’یہ کبھی ہمارے گھر نہیں آیا ‘‘ میں نے سوچا کہ رشتے کا بھائی ساری زندگی ایک دفعہ بھی اپنی بہن کی خیرت دریافت کرنے اس کے گھر نہیں آیا ۔ اور اب مجھ سے میرا ضمیر مانگنے آیا ہے ۔

میں ابھی سنبھل کر تخت سے اُتر ہی رہا تھا کہ آدھمکا۔۔۔۔ اس کے ساتھ اس کے دو نوجوان نواسے بھی تھے ۔ نوجوان پینٹ شارٹ میں تھے ۔ ہاتھوں میں بڑی بڑی موبیل سٹیں تھیں ۔ بھائی نے نہایت رغونت سے ہاتھ ملایا ۔ میر ے پرانے کپڑوں سے اس کو گُن آتی تھی ۔کہا کہ بیٹھ جاؤ ۔ ہم سب بیٹھ گئے ۔ اس نے کہا کہ بھائی ضلع کونسل سے الیکشن لڑرہا ہوں ۔ میرے لئے ادھر ادھر کوشش کریں ۔الیکشن کو تم لوگ اہمیت نہیں دیتے ۔دیکھو یہ ہمارا علاقہ سیاسی لحاظ سے پسماندہ ہے یتیم ہے لوگوں کو حقوق نہیں مل رہے ہیں ۔ حکومت کی تو جہہ نہیں ہوتی ۔ دیکھو یہ تاجکستان روڈ ۔۔۔یہ بجلی کا مسئلہ ، یہ لواری ٹنل ، یہ ٹیلی فون کا مسئلہ پھر اداروں میں کام نہیں ہو رہا ۔ قوم تعلیمی لحاظ سے پچھے جارہی ہے ۔ بیگم صاحبہ سر ہلا ہلا کر اس کی باتوں کی تائید کر رہی تھی ۔ یہ دونوجوان اپنے موبیل سیٹوں سے کھیل رہے تھے ۔میں پرائمری سکول کا بچہ بن کے سن رہا تھا ۔ ہنسی بہت آئی کہ تاجکستان روڈ کا ضلع کونسل سے کیا کام ۔۔۔ اس نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔دیکھو ہم تمہارے گھر آگئے ہیں ۔ میں نے زندگی میں یہ گھر نہیں دیکھا۔ میں اب کی بار ہنسی برداشت نہ کر سکا ۔ میں نے کہا ہاں یہ جو آپ کی بہن کا گھر ہے ۔۔۔۔ میری ہنسی اس کو بہت ناگوار گذری ۔اُس نے جلال میں آکر کہا کہ میری بہن ساری عمر تمہاری اور تمہارے بچوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہے ۔میں نے کہا حضور! سر آنکھوں پر تمہیں حق پہنچتا ہے کہ کوئی بھی چیز اپنی بہن کے گھر سے پسند کر کے لے سکتے ہیں ۔ مگر دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا ۔کہ ایک انسان دوسرے انسان سے خود اسی کوما نگ لے ۔ اُس کے ضمیر کا اتنا اسان اور اتنی ارزان سودا کرے ۔ اتنا نا سمجھی کر ے ۔ کہ کوئی خود اس کو اس کی صلاحیتوں کو اس کے کردار کو اور اپنی صلاحیت کو اپنی اہلیت کو اور قوم وملک کے ساتھ اپنے خلوص کو نہ سمجھ سکے ۔ یہ غلط فہمیاں ہیں حضور یہ انسان کی سوچوں کو محدود کر دیتی ہے ۔

یہ جو وطن کی مٹی ہے حضور یہ ہماری امانت ہے میں اگر اس خاک پا ک کے بارے میں آپ سے سوال پوچھوں تو شاید آپ جواب نہ دے سکیں ۔ شاید اس کے صوبوں کی تعداد بھی آپ کو پتہ نہ ہو ۔ مگر اس سرزمین کے احسانات کو یاد کر و ۔ محسوس کرو ۔ کہ یہ امانت ہمین حفاظت سے رکھنے کے لئے دیا گیا ہے ۔ اگر یہ مٹی نہ ہوتی تو آج تو نمائندگی کا جنون لے کے نہ آتے ۔ لیکن اس مٹی کا ہم پر بہت سارے قرض ہیں یہ ہم سب سے تقاضا کر تی ہے ۔ اس کی گلی کو چے ہمیں پکار رہی ہیں ۔ اس کے سمندر دریا ہم سے شکوہ کر رہے ہیں ۔ اس کے جنگلات فریاد کناں ہیں ۔ اس کی سڑکیں دھائی دے رہی ہیں اس کے وسائل انگشت بدنداں ہیں کوئی کہہ رہا ہے۔ ہماری حفاظت نہیں ہورہی ۔ کوئی کہہ رہا ہے ہماری بے قدری ہورہی ہے ۔ کوئی کہہ رہا ہے ہمیں بے ردیع تباہ کیا جارہا ہے ۔ گو یا کہ ہم پرائے مال ہیں ۔ کسی کی دھائی ہے کہ خدا نخواستہ یہ نعمتیں تم سے چھین نہ لی جائیں ۔ خدا کا قانون ہے ناشکری برداشت نہیں ہوتی ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ شاہد ہے ۔ قوم سبا کے سرسبز باغات کدھر گئے ۔ رومت الکبری تہس نہس ہوا۔ فارس جل گیا ۔منگول مٹی کے نیچے چلے گئے ۔ خودامت مسلمہ مدد جزر کا شکار رہی ۔ جرمن مٹے ، انگریزی اپنی شان وشوکت کھوبیٹھے۔ روسی بکھر گئے۔ توکبھی یہ سبق پڑھا ہے ۔ حضور تو نمائندہ بن کر کیا اس مٹی سے وفا کر سکے گا ۔ اس کی پائی پائی کی حفاظت کر سکے گا ۔ اس کے گلی کوچوں کی حفاظت کر سکے گا۔ اس کے عوام کے حقوق کو اپنی زندگی سے قیمتی سمجھ سکے گا ۔ کیا کہہ سکے گا کہ’’ دریا ئے فرا ء ت کے کنارے اگر ایک کتا بھو کا مرجائے تو اس کا زمہ دار بھی میں ہونگا ‘‘ کیا اس مٹی کے لئے خون کا نذرانہ پیش کر سکے گا ۔ کیا اس کی ترقی اور خوشحالی میں دن رات محنت کر سکے گا ۔ کیا اپنی نیند یں عوام کی راحت پر قربان کر سکے گا ۔ کیا لوگوں کے مسائل حل کر نے کے لئے اپنی زندگی تُج دے سکے گا۔ کیا تمہیں لمحہ لمحہ اخرت کا ڈر ستا ئے گا ۔ کیاتم اپنے آپ کو گلہ بان تصور کر سکے گا ۔ اور اللہ کے حضور پائی پائی کا حساب دینے کے لئے تیا ر کر سکے گا ۔ آپ شاید یہ سب کچھ نہیں کر سکتے ۔آپ میں شاید وہ اہلیت وہ جرا ء ت وہ شعور نہ ہو اگر ہوتا تو تو کسی سے اس کا ضمیر مانگنے نہ آتا ۔ حضور یہ مشکل ترین کام ہے ۔ اس مٹی کا ہم سب پر بہت سارے قرض ہیں ۔ تیرے کندھے نازک ہیں اب اور بوجھ نہ اٹھا ؤ حضور میں ان پڑھ دیہاتی ہوں میں نے اس کو یوں ہی سمجھا ہے تم اس کو شعور سمجھیں ، بیداری سمجھیں یا سیاست سمجھیں ۔ میں اس مٹی پہ عاشق ہوں مجھے جس سے عشق ہے اس کا نام پاکستان ہے ۔ جو اس کی خدمت کر ے گا میں اس کی ’’خاک پا‘‘ ہوں خواہ وہ گلی کو چوں میں ہو۔ کارخانوں میں ہو، سرحدوں پہ ہو یا کہ پارلیمنٹ میں ۔ تمہیں تیری بہن کے صدقے مجھ سے سب کچھ مانگو مگر میرا ضمیر نہ مانگو۔ میں دل کا چھوٹا ہوں ۔ دل نہیں بھیج سکتا ۔ میرے پاس صرف یہی ایک دل ہے ۔ تم میرے کپڑوں اور شکل و شباہت سے اندازہ کر سکتے ہو کہ میرے پاس کچھہ نہیں ۔ووٹ ’’مَنگا‘‘ تخت سے اُتر کر اتنی جلدی میں چلا کہ وہ کسی بڑے خطرے سے اپنے آپ کو بچا رہا ہو۔ بیگم صاحبہ کو اس بات پہ افسوس تھا کہ اس کے رشتے کا بھائی چائے پینا بھول کے گیا ۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button