کالمز

میرے پاس ماں کی تصویر ہے


ماں عظیم ماں اس عالم انسا نیت پر تیرے کتنے احسا نات ہیں میں کیسا تیرا کوئی دن منائوں ۔ یہ سارے دن ، یہ موسموں کی بو قلمونیاں ، یہ رنگینیاں یہ ہلچل سب تیری وجہ سے ہیں۔ ماں اگر تو نہیں تو کوئی دن دن نہیں ۔کوئی لمحہ لمحہ نہیں ۔ کار خانہ قدرت چوپٹ ہے۔ بز م کون ومکان میں تیری خوبصوریتاں ہیں ۔کوئی ہو جو کوئی دن تیرے نام کر ے۔ میں پوری زندگی تیرے نام کرتا ہوں تم میرے لئے کھلی کائنات ہو۔


محمد جاوید حیات
محمد جاوید حیات

میں عرصے سے سوچتا ہوں کہ ’’مادر ڈے‘‘ منانے والے لفظ ’’ماں ‘‘ کے ساتھ ہتک کررہے ہیں۔ میری ماں میرے لئے کھلی کائنات تھی ۔سورج، چاند، تارے، ٹھنڈی ہوا، ابشار، پہاڑ، دریا، سمندر، چرند، پرند، درند، کائنات کا تنوع، پھول، خوشبو، کوکو، پی پی، رنگ، نکھار اور پیار اورمحبت عظمت ،احترام یہ سب کچھ بس میری ماں تھی۔

میں’’مادرڈے‘‘ کیسے مناتا، میری زندگی کا لمحہ لمحہ بس میری ماں تھی ،میری زندگی کا لمحہ لمحہ میری ماں کی سانسوں کی ڈوری سے بندھی ہوئی تھی۔ میری زندگی میری ماں تھی ۔ میں کیسے زندگی کا کوئی دن ، کوئی پہر، کوئی لمحہ ماں کے نام کرتا۔ میرے عظیم وسعت اللہ خان نے میرے دل کی ساری باتیں بتادی ۔ ہم نقل کرنے والے ہم فیشن کرنے والے ہم لفظ’’ ماں‘‘ کو بطور فیشن شو کرنے لگے ہیں۔ یہ ان کا کام ہے جن کی زندگی میں ماں الگ کوئی چیز ہے۔ ہم ماں کو کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ ہم اس کا جسم ہیں۔ اس کی رگوں میں دوڑنے والا گرم خون ہیں۔ اس کی سانسوں میں آجانے والے تسلسل ہیں ۔ ہم ماں کے نام سے جیتے ہیں۔ اور ماں کے نام پہ مرتے ہیں ۔ ہمارے پیارے آقاؐ نے فرمایا ۔ ’’کاش میری ماں زندہ ہوتی ،میں اُمت کو نماز پڑھا رہا ہوتا ۔ میری ماں مجھے آواز دیتی ’’محمد ؐ‘‘میں دوڑتا ، میں نماز توڑ کے نماز چھوڑکے دوڑ تا، ماں کے پاس پہنچتا اور کہتا ماں محمدؐ حاضر ہے‘‘ کتنے شرین الفاظ ہیں اور کتنا پیارا جملہ ہے فخر موجوداتؐ کا ۔۔۔۔اور ماں کے علاوہ کس کے لئے ایسا جملہ بن سکتا ہے۔

ہم سال میں ایک دن ’’مادرڈے‘‘کیوں مناتے ہیں۔ ہم 365 دنوں میں سے ایک دن ماں کے لئے مختص کیوں کرتے ہیں؟اس دن ماں کا تعارف ہوتا ہے، الفا ظ کے گور کھ دھندے ہوتے ہیں، مضمون کی ہوائیں باندھی جاتی ہیں۔ جملوں کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ چند ماوں کی تصویر یں اخباروں میں چھپتی ہیں ۔ کوئی ماں بیٹے کی پیشانی چوم رہی ہوتی ہے اور اس کی آنکھوں سے احترام اورامومت ٹپک رہی ہوتی ہے ۔پھر منظر غائب ہوتا ہے ۔ پردے کے پیچھے اس محترم ترین ہستی کا کیا مقام ہے کسی کو پتہ نہیں ۔ اس افراتفری کے دور کے لوگ اس کی آواز پہ کان دھرتے بھی ہیں کہ نہیں ۔ کوئی پتلون والا۔۔۔وہ تو موبائل سیٹ سے کھیل رہا ہوگا ۔ اس کی آواز پہ کیا کان دھرے گا ۔ کوئی ٹی وی دیکھنے والی سکرین میں محو ہوگی اس کے چہرہ انور کی طرف کیا دیکھے گی ۔ ان شہانہ مزاجوں کے معیار پر ماں کی آواز کیونکر اترے ۔۔۔میں سوچتا ہوں ۔ یہ فاصلے کیوں ہیں وہ ماں کدھر گئی کہیں نہیں ہے شاید ۔۔۔اگر کہیں ہے تو ہم اس کے لئے دن مختص کیوں کرتے ہیں ۔

محترم وسعت اللہ خان نے عنوان ڈالا کہ’’ میرے پاس ماں کی تصویر نہیں ‘‘ لیکن میرے پاس ماں کی تصور ہے، سب کو دیکھا نے کے لئے ہے ۔ بلکہ ماں زندہ سلامت میری رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے ۔ میری آنکھوں میں بس رہی ہے ۔ میری سانسوں میں آجا رہی ہے ۔ میرے منہ میں بولتی ہے۔ میرے چہرے سے عیان ہے۔ میرے کردار میں آویزان ہے ۔ میرا حرف حرف میری ماں کی گواہی ہے، میرا چال ڈھا ل میری ماں ہے۔ میں اس کے جسم اطہر کا ٹکڑا ہوں۔ وسعت اللہ خان کے پاس بھی ماں کی تصویر ہے۔ وہ عظیم ماں کا عظیم بیٹا ہے ۔ دنیا کو دیکھانے کے لئے یہ تصویر کافی ہے ۔ بلکہ تصور نہیں، مووی ہے ۔ چلتا پھرتا وسعت اللہ خان ۔۔۔ ماں عظیم ماں اس عالم انسا نیت پر تیرے کتنے احسا نات ہیں میں کیسا تیرا کوئی دن منائوں ۔ یہ سارے دن ، یہ موسموں کی بو قلمونیاں ، یہ رنگینیاں یہ ہلچل سب تیری وجہ سے ہیں۔ ماں اگر تو نہیں تو کوئی دن دن نہیں ۔کوئی لمحہ لمحہ نہیں ۔ کار خانہ قدرت چوپٹ ہے۔ بز م کون ومکان میں تیری خوبصوریتاں ہیں ۔کوئی ہو جو کوئی دن تیرے نام کر ے۔ میں پوری زندگی تیرے نام کرتا ہوں تم میرے لئے کھلی کائنات ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button