کالمز

گندم سبسڈی پر احسان کیوں۔۔؟

Sher Ali Anjum اپریل کے مہینے میں جب وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے گلگت دورے کا عندیہ دیا تو مقامی پرنٹ میڈیا اور پارٹی کے ذمہ داروں نے اُنکی آمد سے پہلے ہی یہ افواہ پھیلانا شروع کیا کہ وزیراعظم اپنے دورے میں گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے اہم اعلان کریں گے لیکن بدقسمتی روائتی اعلانات سے بڑھ کرکوئی نئی چیز سُننے کو نہیں ملا۔ یوں خطے کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ دورہ بے سود ثابت ہوا لیکن ہمارے عوام کیلئے یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ نواز لیگ نے مایوس کیا ہو یہ پارٹی مختلف ادوار میں گزشتہ دہائیوں سے پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے ہیں لیکن اس متازعہ خطے کی فلاح بہبود اور ترقی کیلئے کوئی نمایاں خدمات سرانجام دینے میں ناکام رہے۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو کو بقول راشد سمیع صاحب کے کولمبس سمجھتے ہیں کیونکہ اُنیس اڑتالیس کی ناکام بغاوت یا سازش کا شکار ہونے اور پھر معاہدہ کراچی پر ہمارے عوام کی مرضی کے بغیر دستخط کے بعد وفاق پاکستان نے گلگت بلتستان کو ایسا بھلاُا دیا جیسے یہاں کوئی انسان ہی نہیں بستے۔ لیکن بھٹو شہید کو جب مختصر وقت کیلئے وزیراعظم بننے کا موقع ملا تو انہوں نے واقعی میں گلگت بلتستان کو دریافت کیا مقامی ڈوگروں جنہیں آج ہمارے عوام مختلف ناموں کے ساتھ لیڈر پکارتے ہیں،سے نجات دلاتے ہوئے عوام کو انسان ہونے کا یقین دلایا ورنہ تو ہمارے عوام ریاستی غلامی سے نکل کر علاقائی غلامی کی بھٹی میں جلرہے تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب بھٹو کا نام ہمارے لبوں پر ایک جذبہ اور محبت کے ساتھ آتا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس بار بھی نون لیگ نے سابقہ سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی بجٹ میں گلگت بلتستان کے عوام سے بھٹو کا تخفہ چھینے کی کوشش اور دوسرے دن یوٹرن لیکر  ترد ید کس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے مجھے نہیں معلوم البتہ لگتا کچھ یوں ہے کہ نواز شریف سرکار کے عوام کو یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ ہم چاہیں تو یہ سبسڈی ختم بھی کرسکتے ہیں لہذا یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وفاق گلگت بلتستان کے باشندوں کو گندم پر سبسڈی دیکر کوئی احسان نہیں کر رہے ہیں ۔اگر ہم سبسڈی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے اقوام متحدہ ی13اگست 1948کی قراردادکے مطابق جموں کشمیر اورگلگت بلتستان
کوخوراک کی ترسیل کے سلسلے میں سبسڈی دینے کی منظوری ہوئی جس کے تحت سرحد کے آر پار دشوارگذارعلاقوں میں ترسیل پر آنے والے اخراجات انتظامیہ برداشت کرے گی اس کی ابتداء 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کیا ۔ لیکن بدقسمتی سے 2008 میں مشرف دورحکومت میں وفاق نے مرحلہ واراس رعایت پرسے اپنا ہاتھ کھینچنا شروع کیا اوریوں 100کلوکی گندم کی بوری 850سے بڑھ کر 1650روپے تک پہنچ گئی۔ آٹے کاچالیس کلوکا تھیلاجب 430سے بڑھ کر750تک پہنچا تو اس سبسڈی کے خاتمے کا اثر براہ راست عام آدمی تک بھی دکھائی دیا۔ یوں گندم کی بڑھتی قیمتوں نے اپنا رنگ دکھایا اور احتجاجی مظاہرے ،ریلیاں اوردھرنے شروع ہوئے ، جس پر عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیااس کمیٹی میں تاجر،شہری،طلباء سول سوسائٹی کے لوگ شریک ہوئے عوامی سطح پر احتجاج زورپکڑتاگیا جس کے بعد وفاق اورمقامی حکومت سرجوڑ کربیٹھے ۔ اور 2013کے اختتام پر اس سبسڈی کا کچھ حصہ پھر بحال کرکے100 کلو کی گندم کی بوری کی قیمت 1650سے نیچے لاکر1400پر فکسڈ کردی گئی۔لیکن آج ایک بار پھروزیر خزانہ کا اس اہم مسلے پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی بجٹ میں گندم سبسڈی کو ہٹانے کی بات کرنا اپنے ہی حکومت سے دشمنی کی ایک اور مثال ہے ،یہ تو اچھا ہوا کہ وزیراعظم نے بروقت نوٹس لیکر فیصلہ واپس لیا کیونکہ اس مسلے سے ایک طرف گلگت بلتستان کے عوام الیکشن سے بائیکاٹ کی طرف جاسکتا تھا تو دوسری طرف خطے کو اقتصادی راہداری سے الگ رکھنا اورپھر سبسڈی کو ختم کر نے کی خبروں نیملک دشمن عناصر کو بولنے کا موقعفراہمکرنا تھا۔ ویسے بھی بھارتی سرکار اور میڈیا پہلے ہی الیکشن اور راہداری کے حوالے سے پاکستان کے خلاف پروپگنڈے کر رہے ہیں یوں اس سبسڈی کا خاتمہ جلتی پر تیل کے مانند ہونا تھا کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ وفاق پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کوگندم سبسڈی خدانخواستہ صدقہ جاریہ کے طور پر نہیں بلکہ گلگت  بلتستان کی متازعہ حیثیت کی وجہ سے عالمی قوانین کے مطابق دی
جا رہی ہے۔اگر واقعی میں گندم سبسڈی ختم کرنا ہے تو عوام مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ پہلی فرصت میں اس خطے کو قومی دہارے میں شامل کریں بصورت دیگر گندم سبسڈی کے خاتمے سے پہلیاس خطے کو سوست ڈرائی پورٹ ،کسٹم اور سیاحت کی آمدنی کے ساتھ کے کے ایچ اور دریائے سندھ کارائلٹی دیا جائے کیونکہ عالمی قوانین کے تحت اور آئین پاکستان کے مطابق تمام صوبوں کو یہ حق حاصل ہے ایسا نہ کرنے کی صورت میں گلگت بلتستان کے عوام حق رکھتے ہیں کہ اپنے خطے سے حاصل ہونیوالی آمدنی کا حساب کتاب کرنے کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کریں تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ گلگت بلتستان وفاق کی خیرات و صدقے پرنہیں پل رہے بلکہ وفاق اس خطے کی کھربوں ڈالر کا مقروض ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہمارے مفاد پرست لوٹے سیاست دانوں نے عوام کو ایسا آئینہ دکھایا ہوا ہے جہاں غلامی، کمزوری اور برداشت کے علاوہ قومی شعور، جدوجہد ،قربانی کا کہیں ذکر ہی نہیں یہی تو ایک وجہ ہے کہ آج ہر اُس شخص کو ریاستی جبر کا سامنا ہے جو اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈو پاک کے تحت خطے کو حقوق دینے کی بات کرتے ہیں جس کی تازہ مثال گلگت میں پولیس گردی ہے جہاں قوم پرست رہنماوں کو صرف اس لئے تشدد کرکے گرفتار کیا کیونکہ یہ لوگ اقتصادی راہداری اور الیکشن کے حوالے سے اقوام کے کیمپ آفس میںیاد داشت پیش کرنا چاہتے تھے۔ اللہ ہم سب کومعاشرتی ترقی اور تعمیر کیلئے کوششیں کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

از۔شیرعلی انجم

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button