چترال: رمضان المبارک میں گرانفروشی عروج پر
چترال ( بشیر حسین آزاد) چترال میں ماہ رمضان کے دوران بھی گلے سڑے سبزیوں اور پھلوں کی فروخت منہ مانگی قیمتوں پر جاری ہیں ۔ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر ،جو بازار میں سبزیوں، گوشت اور دیگر اشیاء خوردونوش پر نگاہ رکھنے کی ذمہ دار ہے، نے کسی بھی مرغی فروش ،سبزی فروش اور نان بائی کو ناراض نہ کرنے کی قسم کھائی ہے ۔ اس لئے مذکورہ اشیاء مرضی سے فروخت کئے جا رہے ہیں جن کا کوئی پُرسان حال نہیں ۔
پرائس ریویو کمیٹی نے ہزار گرام تازہ مرغی کی قیمت دو سو روپے لگایا ہے لیکن وہی مرغی تین سو اور پندرہ سو گرام چار سو پر فروخت کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح پنیر کی قیمت پانچ سو روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ پھلوں کی خریداری تو متمول لوگوں کا کام ہے ۔ غریب روزہ دار اور کم امدنی والے افراد کیلئے پھل کی خریداری شجر ممنوعہ کے مترادف بن گئی ہے ۔ آم ،کیلا ، تر بوز ،گرما اول تو تازہ دستیاب نہیں ۔ اور اگر کہیں دستیاب ہیں تو قیمت سن کر ہوش اُڑ جاتے ہیں ۔ بڑے گوشت کی سرکاری قیمت دو سو ساٹھ متعین کرنے کے باوجود سادہ لوح لوگوں سے دو سو اّسی اور تین سو روپے وصول کیا جا رہاہے ۔ ان اشیاء کے فروخت کرنے والے اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ مجسٹریٹ چھاپہ سے بھی نہیں ڈرتے ۔
ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی مجسٹریٹ کی طرف سے چترال بازار ، دروش بازار اور بونی بازار میں چھاپے پڑے اور کئی افراد کو گران فروشی کے جرم میں گرفتار کیا گیا لیکن رہائی کے بعد بھی گرانفروش اپنے عمل سے باز نہیں آئے اور وہ بدستور اپنی مرضی کے مطابق قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔
عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کس طرح کی سزا ہے جو مجرم کو اپنے عمل سے باز آنے پر مجبور نہیں کرتا ۔ عوام اس کو نوراکُشتی اور مک مکا کے ذریعے ٹرخانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں ۔ دوسری طرف بازاروں میں ناقص اشیاء خوردونوش کی بھر مار ہے جس کی وجہ سے چترال امراض قلب اور دیگر بیماریوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ گھی ، چائے ، مصالحہ جات سمیت ان گنت غیر معیاری اشیاء خوردونوش کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں اُن کو کوئی روکنے والا نہیں ۔
عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گرانفروشوں اور ناقص اشیاء فروخت کرنے والے تاجروں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اُن کو کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ اُن کو اپنے جرم کا احساس ہو سکیں ۔