چترالکالمز

چترال میں مذہبی جماعتوں کا سیاسی دنگل

تحریر: محکم الدین

سابق ایم پی اے و سابق امیر جمیعت العلماء اسلام چترال مولانا عبد الرحمن کی طرف سے ڈسٹرکٹ کونسل چیرمین شپ کیلئے خود کو بطور امیدوار پیش کرنے کے بعد صاف نظر آرہاہے کہ جمیعت العلماء اسلام چترال کے اندر واضح اختلافات موجود ہیں ۔ جس کی بنا پر جمیعت کی ضلعی قیادت کی بات ماننے کے سلسلے میں بعض ارکان کی طرف سے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ جمیعت کے امیر مولانا عبدالرحمن قریشی ،جنرل سیکرٹری مولانا عبدالشکور اور مولانا حسین احمد نے صوبائی اور مرکزی قیادت سے ملاقات کے بعد پریس کو واضح طور پر بیان دیا تھا کہ معاہدے کے تحت حاجی مغفرت شاہ ہی ڈسٹرکٹ چیرمین شپ کیلئے جے یو آئی اور جے آئی کے متفقہ امید وار ہیں ۔اور جمیعت کے تمام نومنتخب ممبران کو جمیعت کی ضلعی ،صوبائی اور مرکزی قیادت کے فیصلے کو ماننا پڑے گا ۔ لیکن قرائن یہ بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے ۔ کیونکہ چیرمین شپ کے دعویدار مولانا موصوف کو آل پاکستان مسلم لیگ ، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے قائدین کی طرف سے ڈسٹرکٹ چیرمین کی نشست کے حصول کیلئے جو مقوی کُشتہ کھلایا گیا ہے اُس میں اتنی توانائی ضرور ہے کہ وہ آخر دم تک اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ضلعی نظامت کی سیٹ پر بیٹھنے کا خواب پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ چاہے اُس میں قیادت کی طرف سے کئے گئے عہدوپیمان بھی متاثر کیوں نہ ہوں ۔

سیاست اور کُرسی بھی کیا عجیب چیز ہے ۔ یہ کسی مولاناکو اپنا وعدہ ایفا کرنے دیتا ہے نہ عوام کی رائے کا احترام اس کے کسی باب میں موجود ہے اور نہ عوام کے مسائل سے ان کا کوئی سروکار ہے ۔ بس اقتدار لینے کا ایک بہانہ ہے جس کیلئے جو جس طریقے سے گُر استعمال کرکے حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کر لیتا ہے چاہے اس کے لئے مذہب کا نام بھی استعمال کرکے مطلب کیوں نہ حاصل کیا جا سکتا ہو ۔ اگر میں غلط ہوں تو آپ بتائیے کہ مذہبی جماعتوں نے اس الیکشن کو دین کا حصہ قرار دے کر الیکشن کمپین نہیں چلائی ؟ اور لوگوں نے رضائے الہی کی خاطر مذہبی جماعتوں کو سب سے زیادہ سپورٹ نہیں کیا ؟ صاف عیاں ہے کہ مذہبی جماعتوں کی اکثریتی نشستوں کا حصول عوام کی مذہب دوستی کا ثبوت ہے ۔ ورنہ بلدیاتی الیکشن میں ان کے مقابلے میں ایسے امیدوار بھی میدان میں موجودتھے جن کی صلاحیتیں بہت بڑھ کر تھیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ خود کو خدا کے سپاہی کے طور پر پیش کرنے والے مذہبی جماعتوں کے یہ امیدوار کامیابی کے بعد اقتدار کیلئے آپس میں ایسے الجھ گئے ہیں کہ پوری چترالی قوم گذشتہ ایک مہینے سے ان کا تماشہ دیکھ رہے ہےاوراقتدار کے پیاسوں کیلئے عوام کی طرف سے جس رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ نا قابل بیان ہے۔

مذہبی جماعتوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عہدوں کی تقسیم کاایک طے شدہ فیصلہ اتنا گھمبیر کیوں کرہواہے اور اس سے کون لوگ زیادہ فوائد حاصل کرسکتے ہیں ۔ بات واضح ہے کہ چترال میں جب بھی مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا اقتدار اُن کے حصے میں آیا ۔ حالانکہ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی ، آل پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف جیسی بڑی پارٹیاں بھی موجود ہیں ۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی مذہبی پارٹیوں کے مقابلے میں دیگر پارٹیوں کے اتحاد بن لیکن وہ مذہبی جماعتوں کا مقابلہ نہ کرسکے ۔ اس لئے جے یو آئی اور جے آئی اتحاد کی مخالف پارٹیاں یہ بات واضح طور پر سمجھتی ہیں کہ جب تک مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم رہے گا چترال میں اُن کی حیثیت ثانوی ہو گی اور اُن کیلئے اقتدار کی کُرسی تک پہنچنا شجر ممنوعہ کی حیثیت اختیار کر جائے گا ۔ اس لئے ہوشیار سیاستدانوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس اتحاد کو ابھی سے پارہ پارہ کیا جائے ۔ یوں غیر مشروط حمایت کا اعلان کرکے پی پی پی ،اے پی ایم ایل اور پی ٹی آئی نے جمیعت العلماء اسلام کے اندر پھوٹ ڈالنے اور جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور اس کیلئے اُن کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے ۔ خصوصا پی پی پی اور پی ٹی آئی کی طرف سے اے پی ایم ایل کے صدر شہزادہ خالد پرویز کو جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ بہت حد تک اُس میں کامیاب رہے ۔ لیکن چترال کے تمام ووٹرز اور سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت ہمارا چترال انتہائی طور پر نظر انداز شدہ ضلع بن گیا ہے ۔ اس میں سب سے بڑی بد قسمتی چترال کے ووٹرز کی ہے جو وقت اور حالات کے مطابق اپنا ووٹ استعمال نہیں کرتے ۔ وہ یہ سوچنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہمارے ووٹ کی اہمیت کیا ہے ۔ اس کے مثبت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق استعمال سے انہیں کون سے فوائد ملیں گے ۔ حالانکہ چترال کا ہر ایک شہری ایک مکمل سیاستدان ہےاس کے باوجود ہم اپنے ووٹ سے گذشتہ کئی سالوں سے فوائد حاصل کرنے سے قاصر ہیں ۔ کیونکہ ہم اپنے ضلع اور علاقے کے مسائل سامنے رکھ کر اپنا ووٹ استعمال نہیں کرتے ۔ہم گذشتہ کئی سالوں سے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مخالف امیدواروں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہمارے مسائل صوبے اور مرکز میں نہ سنی جاتی ہیں اور نہ حل ہوتی ہیں ۔ جس کا ثبوت یہ ہےکہ ہماری سڑکیں کھنڈر بن چکی ہیں ۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے ۔ ہمارے پائپ لائن سوکھ چکے ہیں ۔ نہریں تباہ ہو چکی ہیں ۔ بے روزگاری کا دور دورہ ہے ۔ تعلیم کے باوجود نوجوان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ انتظامیہ عوام اور اُن کے نمایندوں کی بات نہیں سُن رہا ۔ ذمہ دار پوسٹوں پر اُن افسروں کو بیٹھایا گیاہے جو عوام کے مسائل کم اور بالائی حکام کی خدمات زیادہ انجام دینے والے ہیں ۔ ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ہم نے وقت کی ضرورت کے مطابق اپنے لئے نمایندے منتخب نہیں کئے ۔ اور جن کو منتخب کیا اُن کی بات مرکزی ،صوبائی اور ضلعی سطح پر نہیں سنی جارہی ہیں ۔ یوں چترال ایک لاوارث ضلع بن گیا ہے ۔ جسے دیکھ کر رونا آتا ہے ۔ یہ چترال اتنا بھی گیا گرزا ضلع نہیں تھا جو آج نظر آرہا ہے ۔ اس میں قصور کس کا ہے ۔ یقیناًہمارا ہے کہ ہم سیاست تو کرتے ہیں لیکن سمجھ بھوج نہیں رکھتے ۔

چترال کے معروف سیاستدان سابق وفاقی وزیر مملکت،ایم این اے و ضلع ناظم شہزادہ محی الدین ہمیشہ ایک بات کہا کرتے تھے کہ قوم کی خاطر میں نے اس پارٹی میں شمولیت کی یا فلان حکومت کا ساتھ دیا ۔ اُن کی اس بات کو اُن کے مخالفین نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا یا لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو چترال جیسے دور افتادہ ضلع کا نمایندہ قومی اور صوبائی اسمبلی یا ضلع ناظم صوبائی اور مرکزی حکومت کے خلاف اپوزیشن میں رہ کر قوم اور علاقے کیلئے کیا حاصل کر سکتا ہے ۔ اس لئے چترال کے نمایندے کی حیثیت سے حکومت سے ٹکراؤ کی بجائے اُس کی حمایت کرکے فوائد کا حصول عین دانشمندی ہے ۔

موجودہ حالات میں چترال میں ڈسٹرکٹ چیرمین شپ ایک متنازعہ ایشو بن گیا ہے ۔ اور اس میں ایک طرف ساڑھے تین فریقی اور دوسری طرف ڈیڑھ فریقی اتحاد کا باہم زبردست مقابلہ ہے ۔ اور دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑنا چاہتے ۔ اُن کو اس بات کی فکر ہی نہیں ہے ۔ کہ لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کیلئے اُن کا انتخاب کیا ہے ۔ آپس میں دست وگریبان ہونے کیلئے ووٹ نہیں دیا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کامیاب شدہ تمام ممبران عوامی خواہشات و مسائل کے حل کی خاطر اُن پارٹیوں کو آگے لانے میں تعاون کریں جن کا صوبے میں کسی نہ کسی سطح پر بات منوانے کی پوزیشن ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا چاہیے اور الیکشن کی چپقلش ختم کرکے قوم کے مفاد کے لئے مفاہمت کا عمل اپنانا چاہیے ۔ صوبے میں متذکرہ دونوں پارٹیوں کی مشترکہ حکومت ہےاور وہ باہمی اتفاق پیدا کرکے چترالی عوام کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔

اسی طرح اے پی ایم ایل اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ضلعی اسمبلی میں ایک فعال اپو زیشن کا کردار ادا کرکے اپنی نمایندگی کا حق ادا کرنے کے سلسلے میں سوچنا چاہیے ۔ کیونکہ چترال کو اس وقت سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔ خصوصا صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی توجہ کے بغیر علاقے کے مسائل پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا ۔ امید ہے ہمارے منتخب نمایندگان کرسی کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرکے چترال کی ترقی پر توجہ دیں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button