آئینی حقوق کے لئے مشاورت سے قابل حل تجاویز کی ضرورت
عبدالجبارناصر
گلگت بلتستان کابینہ کا دوسرا اور اہم اجلاس 31اگست کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں سرکاری ملازمتوں کی بھرتیوںپر پابندی کے خاتمے اورتین روز کے اندر تمام محکموں کو خالی اسامیوں کی فہرست وزیر اعلیٰ ہائوس کو فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ،جبکہ این جی اوز کی از سر نو رجسٹریشن کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کیلئے وزراء اور ارکان اسمبلی کو ذمہ داری دیتے ہوئے مانیٹرنگ کیلئے چیف سیکرٹری کو ذمہ داری دی گئی ہے ۔ فیصلے کے مطابق تعمیراتی منصوبوں کی ہفتہ وار اور ماہانہ رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائے گی، داخلی سیکورٹی کیلئے کرایے کی گئی گاڑیوںکودو ماہ میں ختم کرکے سرکاری اخراجات میں کمی اور سرکاری گاڑیاں کرایہ کی مد کی رقم سے حاصل کرنے ،گلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام کے قیام ، گلگت بلتستان میں اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ،سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ سے مراعات واپس لینے اورسابق ارکان اسمبلی کی منظور شدہ اسکیموں کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کیاگیا ہے ۔
مجموعی طور پر کابینہ کے فیصلے اہم اور مثبت ہیں،تاہم سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کے مراعات اور سابق ارکان اسمبلی کی اسکیموں کے خاتمے کا فیصلے مناسب نہیں ہے ۔اس وقت ملک کے سابق صدور اور وزرائے اعظم کی مراعات کے حوالے سے قانون موجود ہے ،جبکہ صوبوں میں بھی سابق گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کومناسب مراعات حاصل ہیں، سندھ میں اس حوالے چند سال قبل باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے،اگرچہ اس میں بھی امتیاز سے کام لیاگیا ۔مراعات کے حوالے سے سابق وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ رد عمل جائز ہے ۔سابق ارکان کی اسکیموں کا جائزہ لیکرجو اسکیمیں عوامی مفاد کی ہیں ان کو جاری رکھنا چائے ۔آج اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بیک جنبش قلم سابق ارکان کے اسکیموں کو ختم کردیا تو ایک غلط روایت قائم ہوجائے گی جو کسی بھی صورت خطے میں جمہوری نظام اور اخلاقی قدروں میں منفی اثرات مرتب کرے گی ، اس لئے اس پر جوش کی بجائے ہوش سے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
کابینہ کے اجلاس میںسب سے اہم فیصلہ این جی اوز کی از سرنو رجسٹریشن کا فیصلہ مناسب اور بروقت ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات حاجی ابراھیم ثنائی کے مطابق گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 1264این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 1216قومی ومقامی جبکہ 48این جی اوز کا مختلف ممالک سے تعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان جیسے علاقے میں 48انٹر نیشنل این جی اوز کن مقاصد کیلئے سرگرم ہیں؟ صوبائی وزیر اطلاعات کی یہ بات درست ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے این جی اوز پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ بہت ساری این جی اوز کے خفیہ ایجنڈے بھی ہوسکتے ہیں جو قومی مفاد کے ”پاک چین راہداری منصوبے ”کو نقصان پہچا سکتی ہیں۔ این جی اوز کا کردار پورے پاکستان میں مشکوک رہاہے،اور گلگت بلتستان جیسے حساس علاقے میںصورتحال کافی سنجیدہ رہی ہے۔ بعض این جی اوز خطے میں مذہبی منافرت،جبکہ بعض لسانی تعصب کو ہوا دینے کیلئے سرگرم ہیں ، کچھ این جی اوز کی گاڑیاں اور چند افراد گلگت بلتستان میں سرگرم نظر تو آتے ہیں لیکن ان کا کام کہیں دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ بعض این جی اوز خطے میں آزادی اظہار یا انسانی حقوق کے نام پر نوجوان نسل میں باغیانہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے سرگرم ہیں ۔اس وقت ملکی وغیر ملکی تمام این جی اوز کی کڑی نگرانی ضروری ہے، مسلم لیگ(ن) کی صوبائی حکومت نے اولین ترجیحات میں این جی اوز کی ازسرنو رجسٹریشن کے عمل کو شریک کرکے یقینا ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔
دوسر ی جانب گلگت بلتستان کے وکلاء نے خطے کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے کئے گئے وعدوں کو پورا اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے پر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ 28اگست کو گلگت بلتستان بار کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کلب میں پر گلگت بلتستان بار کونسل کے مرکزی رہنماء شہبازخان ایڈوکیٹ نے ہجوم پریس کانفرنس کی ،جس میں خطے کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ یا دستوری تحفظ کے ساتھ آزاد کشمیر طرز کا نظام دیا جائے۔ 29اگست کو مختلف اخبارات میں وکلاء کے نمائندوں کے شائع ہونے والی پریس کانفرنس کا تفصیلی مطالعہ کیاجائے تو اس میں جہاں تنازعہ کشمیر کے حل تک آئینی حقوق کی بات کی گئی ہے ،وہیں 68سال قبل پاکستان سے الحاق کی بھی بات کی گئی ہے ،حالانکہ تاریخی طو ر پر ایسا ہوا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ریکارڈ موجود ہے ۔ اگرچہ جاری طویل بیان میں اور بھی کئی تضادات ہیں،تاہم وکلاء کا مطالبہ اپنی جگہ حق بجانب ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف آئینی حقوق دینے کا اعلان کر چکے ہیں ،جو صرف انتخابی نعرہ تھا،مگراب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی ۔یہ بات درست ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے میں کئی قانونی، عالمی اور مقامی رکاوٹیں ہیں ،تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کوئی ایسا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جس سے پاکستان کے کشمیر کاز اور کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان پہچائے بغیر گلگت بلتستان کے عوام کے جائز مطالبات کو پورے کیے جائیں۔ اس ضمن میں وکلا نمائندوں کو چاہیے کہ وہ کسی احتجاجی تحریک سے قبل اقوام متحدہ کی قراردادوں ، اکتوبر 1947تک قائم ریاست جموں وکشمیر ، پاکستان کے آئین اور عالمی حالات اور خطے کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا ڈرافٹ یا تجاویز مرتب کریں جس میں خطے کے تمام شعبہ ہائے زندگی اور تمام مذہبی وجغرافیائی اکائیوں کی رائے کا خیال رکھا جائے ۔ جذباتی فیصلے خطے کے کو مزید مسائل سے دوچار کرسکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے مرکزی رہنماء جسٹس (ر) سید جعفر شاہ نے وکلاء کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے اس حمایت میں حکومت مخالف جذبات کا عنصر زیادہ نظر آتاہے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت نو نیچا دیکھانے کیلئے جذباتی فیصلے کرنے کے بجائے خطے کے مستقل مسائل کے حل کیلئے مثبت کردار ادا کرے ۔ اگر گلگت بلتستان کوپاکستان کا آئینی صوبہ بنانا آسان تھا تو پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے اپنے ادوارمیں ایسا کیوں نہیں کیا؟گلگت بلتستان بار کونسل نے 31اکتوبر کو چیف جج سپریم اپیلٹ کورٹ کے جسٹس رانا محمد شمیم کے حلف اٹھانے کی تقریب کا بائیکاٹ بھی کیا،جس کی بنیادی وجہ غیر مقامی جج کا تقرر ہے۔اس ضمن میں (ن) لیگ کی حکومت کو چاہیے کہ وہ خطے میں مقامی افراد کو اختیارات سونپ نے میں کنجوسی سے کام نہ لے کیونکہ لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ باہر سے آنے والے حکام خطے میں وائسرائے بننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مقامی لوگوں میں اہلیت نہیں ہے اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے ۔
وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے جمعرات کو (آج ) گلگت بلتستان کے ایک روزہ دورے پر پہنچنے کا امکان ہے جہاں وہ عطاء آباد ٹنل اور ہائی وے کا افتتاح کریںگے ۔4جنوری 2010ء کو لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے عطاء آباد میں 15کلو میٹر طویل جھیل بنی اور شاہراہ قراقرم کا ایک بڑا حصہ ڈوب گیا ، اس جھیل سے جہاں بالائی ہنزہ نگر کے 25ہزار سے زائد افراد کا زمینی رابطہ کٹ گیا، وہیں پاک چین تجارت بھی شدید متاثر ہو ئی ۔چین کے تعاون سے 27ارب روپے کی لاگت سے24کلومیٹر ہائی وئے بنائی گئی جس میں 7کلومیٹر طویل تین ٹنلز بھی ہیں ۔ہائی وئے اور ٹنل کی تعمیر 2سال کے مختصر عرصے میں ممکن ہوئی امید ہے کہ اس ٹنل کے افتتاح کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر پاک چین تجارت زور پکڑے گی ۔ وزیر اعظم کے دورے میں اہم اعلان بھی متوقع ہے ۔