برچہؔ نامہ۔ گنیش سے گنش تک
تحریر ۔ انور حسین برچہؔ
گنش سابق ریاست ہنزہ کی پہلی قدیم ترین بستی ہے۔گنش نام سے ہی اس کی قدامت،استقامت اورعظمت کا پتہ چلتا ہے۔اس بستی کا محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل ہے یہ وادی ہنزہ کا نقطہء اتصال یعنی نکیل ہے۔ یہاں سے ہنزہ اور نگر کے دیگر علاقوں کے لئے ذرائع آمد ورفت کے راستے ہیں ۔آپ اس بستی کوضلع ہنزہ نگرکا قلب بھی کہ سکتے ہیں بلا شبہ گنش ایک نہایت خوبصورت ، پر کشش اور شاداب بستی ہے ۔موسم گرما میں حد نظر ہر طرف ہرے بھرے لہلہاتے کھیت پھیلے ہوئے ہیں۔شمالی پاکستان کے مصنف رشید اخترندوی گنش کو گنیش کہتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اس بستی کا ماحول تو اتنا حسین ہے کہ آپ کسی بھی چھبوترے پر کھڑے ہوجائیں تو اس کی خوب صورت ماحول کو دیکھ کردنگ رہ جائیں گے ‘‘ا ور یہاں کا میوہ کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’میں وہاں کئی گھنٹے باغوں میں پھراوہاں کے لوگوں نے مجھے تازہ آڑو۔سیب اور ناشپاتی کھانے کو دئیے،میں ان پھلوں کی لذت کو بیاں نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اس بستی کے لوگ پیدائشی مہمان نواز ہیں‘‘۔
یہاں کے محنت کش لوگوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اس قدیم گاؤں میں ضروریات زندگی کی تمام سہولیا ت موجود ہیں اس بستی کے پہلو میں ہنزہ اور نگر کے دریاوں کا سنگم ہے ۔یہ دریا ایک دوسرے میں سما کر خاموشی سے بہتا ہواجانب منزل رواں دواں ہے۔ گنش بیشکرالمعروُف زیرو پوائنٹ سے نیچے خوب صورت گنش بستی ،یہ دونوں دریا اور سامنے بلند برف پوش راکا پوشی ،دیران پیک ۔وادی ہنزہ آنے والے اندرون وبیرونی سیاحوں کے لئے دلکش مناظر پیش کرتا ہے۔
یہاں پر موجود قلعہ گنش قدیم تہذیبوں کا آئینہ دار ہے۔اس قلعہ بند بستی کا ایک مرتبہ دورہ کرنے سے سیاحوں کو بقیہ تمام سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں جو اس قدیم بستی اور یہاں کے مکینوں کے متعلق آپ جانا چاہتے ہیں۔
گنش کے قدیم قبائل میں ہماچاٹنگ،برچہ تنگ ،شکنوٹنگ ا ورششکناٹنگ کے علاوہ دیگر خاندان بھی شامل ہیں۔
تاریخی حوالے سے یہ علاقہ شین بر،چپروُٹ ،چھلت ،خضرآبادتا شمشال،چپورسن، مسگرتاشغرغن(سفید پتھروں کا میدان) ،دفدار ،وچے ا وریارقند تک سابقہ عظیم ریاست ہنزہ دنیا کے نقشے پرہنزہ کی تہذیب و تمدن ۔ثقافت اورریاستی قوانین قابل فخرقبیلہ گنش کی بدولت مشہور و معروف ہوئے ہیں۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ریاستی ادوار کے مختلف معرکوں میں جرات وشجاعت کی تاریخ رقم کرنے والے قبیلہ گنش کے مارشل قبائل مشہور ہیں۔اس لئے والیان ہنزہ ودیگرقبیلوں کی نسبت گنش قبیلے کا زیادہ قدر کیا کرتے تھے۔اور ریاستی اداروں میں پڑوسی ریاستوں کے ساتھ سفارت کاری کے خدمات ،غلاموں کی فروخت اور مجرموں کی سرزنش جیسی کٹھن امور کو قبیلہ گنش والے سر انجام دیتے تھے۔ان حقائق کا ذکر مشہور کتاب ’’تاریخ عہد عتیق ہنزہ‘‘او’’ر قراقرم کے قبائل‘‘ میں بھی مذکور ہے۔
جیسا کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان او ر مملکت پاکستان کے لئے بھی ا س قبیلے کی خدمات دوسروں سے زیادہ اور بے شمار ہیں۔دور حاضر کا موجودہ نسل بھی وہی اوصاف کے حامل ہیں۔اور ملکی تعمیر وترقی ،دفاع، خاص کر علمی میدان میں کامیابیاں اورعسکری خدمات بھی سر فہرست ہیں۔ مثال کے طور پر فوجی ہیروز جن میں صوبدار میجر فداء علی،میجر غلام مرتضیٰ(ستارہ جُرات)اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے پہلے شہید حوالدارامیر حیات جیسے بے شمار قربانیاں تاریخ میں رقم ہیں۔ اُن قبایل کی سر شست میں عدل وانصاف،سنجیدہ مذاجی،امن پسندی،دلیری،وطن دوستی،حق گوئی،اور خلوص وفاء کے حامل لوگوں کی اس قدیم بستی کو گنش کہتے ہیں۔اس قبیلے کے آباد کارگوجال،گنش کلاں،گرم گنش،چھیل گنش،گریلت،ڈورکھن،علی آباد،حسن آباد،خضرآباد،مرتضٰے آباد،چھلت،خانہ آباد،میون، وادی غذر،اورگلگت کے مضافات کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں صوبوں اور بیرون ممالک میں بھی کثیر تعداد میں مقیم ہیں۔
گنش کے قدیم ہونے کے شواہدقدیم اوقات میں قبائلی لوگ بالکل ناخواندہ ہوتے تھے۔علم کا تصور تک نہیں تھا۔زیادہ تر تاریخ سینہ بہ سینہ چلا ہے چُوب کاری وکندہ کاری لکڑی و پتھرپر کیے گئے قدیم نقش کاریوں سے ثابت ہے جیسا کہ گنش بستی سے متصل ڈونداس(ہلدئیکژ) کے چٹانوں پرکندہ وہ قدیم اشکال جن کو مقامی لوگ راجہ شری بد د(شین)والی گلگت کے مارخور(گری)انجانے میں کہتے ہیں۔ حقیقت میں سُو میری ،سفید ہن،آرین،قبیلہ کورو،اشُری،پنڈ ت، کو شلیا،چندرگپت،مہاجاجہ اشوک(انڈریُنانی تاجدار)،تُورانی ہن،ساکیاورگفشک(خُتن آبادی)کشان بادشاہ کے ادوار کاعمل دخل کے تاریخی آثارملتے ہیں قصہ مختصران تاریخی اورزبانی روایتوں سے تقریباًدو ہزار سے تین ہزارسال قبل گنیش یا گنش آباد تھا۔
گنیش سے گنش کی وجہ تسمیہ پہلی روایت رشید اختر ندوی اپنی کتاب شمالی پاکستان صفحہ نمبر ۱۰۳پر لکھتے ہیں کہ’’گنیش ایک قدیم دیوتا تھے داسودیو کے دور میں جو دوسری صدی عیسوی کے آخری حصے اورتیسری صدی عیسوی کے آغاز کا دور ہے۔ہنزہ وادی میں گنیش دیوتا کے نام کے سکے اس لئے ڈالے گئے تھے کہ یہاں باقی دیوتاؤں کی نسبت زیادہ محبوب اوربڑے دیوتاتھے۔ونسٹنٹ سمتھ نے بھی اپنے گیٹلاک میں کشان بادشاہ اسو دیو کے گنیش دیوتا نام کے سکوں کی اور گنیش دیوتاکا مندروادی ہنزہ میں ہونے کی تصدیق اور کیفیت بیاں کی ہے۔بس ان ادوار کے دوران جن دیوتاؤں اورمورتیوں کی مندروں میں پوجاء پاٹ کے لئے رکھے تھے ان میں برہما،وشنو،شیو،سرسوتی،لکشمی،پاروتی،درگااورگنیش دیوتا شامل تھے۔جن میں طاقتور گنیش دیوتاکا پوجاپاٹ اورچرچاسب سے زیادہ ہوا۔بہت سے مورخین کے مطابق ۷۸ء یعنی پہلی صدی عیسوی کنشک پہلا کشان بادشاہ کے عہد امارت کا واقعہ ہے ۔اس دوران گنیش دیوتا کے سکے یہاں جاری ہوئے۔گنش میں گنیش دیوتا کا مندر ہونے کا یہ عملی ثبوت بتایاجاتاہے۔ان ایام میں سفری قافلے گنش کی اس مندر میں گنیش دیوتا کی خوُب پوُجاپاٹ کرتے اور بخریت گھر پہنچا نے کا مدداس دیوتا سے مانگتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گنیش دیوتا کا یہ ندرملیامیٹ ہوا۔ البتہ گنش کے اس قلعے کی جنگی مکین گاہوں یعنی تہہ خانوں سے کافی عرصے تک گنیش دیوتا کے نام کے سکے ملتے تھے تر نگفہہ کوُیو برچہ کے جنگی تہہ خانے میں بھی یہ سکے ترنگفہہ عنایت برچہ’’۱۹۵۵ء‘‘کے درر تک موجود ہونے کے شوائد ہیں۔لہٰذاگنیش دیوتا کی نسبت تھوڈی سی زبانی تبدیلی کے ساتھ مختصر الفاظ میں گنش نام معروف ہوا۔اور صرف یہ نہیں۔
بلکہ گیاروی صدی عیسوی بھی گنیش دیوتا کی جو اہمیت تھی۔اُس کے بارے میں رامانی پنڈت نے گیارویں صدی میں سُناپُڑان لکھی جس کے چند سطورآپ کی خدمت میں تحریر ہیں۔
خدائے بولیاایک نام برہماہوئیلامحمدﷺ بشونوہویلاپیغمبر
آدم ہوئیلاشول پانی گنیش ہوئیلاغازی کار تک ہوئیلاجوتومونی
گنش کی وجہ تسمیہ دوسری روایت : سینہ بہ سینہ زبانی تاریخ کے مطابق اس بستی کو گنے دش کہتے تھے۔ بزبان برُوششکی میں معنی کی رُو سے راستے والی جگہ یاراستوں کی سنگم والی گزرگاہ کو گن دش کہتے تھے۔اس حوالے سے گنے دش یاگنے دش کے الفاظ کے باہم مدغم ہونے سے گنش کہا جانے لگا۔
گنش کی وجہ تسمیہ تیسری روایت :اس گاوءں قدیم بزرگوں کے حوالے سے بتاتے ہیں ۔یہ جگہ ’’گنے نش‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔برُوششکی زبان میں معنی کے لحاظ سے راستوں کی تکمیل والی مقام کو کہتے ہیں ۔پرانے وقتوں میں کوگ ہر نام کو توڑ مروڑ کر بالتے تھے مثال کے طور پرعلی بیگ کو علیکو،بیگ کو بیکو،اوررضاء بیگ کو رضیوکہتے تھے ۔اسی طرح گنے دش کو گنش کہنے لگے۔
گنش کی وجہ تسمیہ چوتھی روایت :چھوتھی اور آخری دلیل میں یہ روایت کرتے ہیں مذکورہ گا ؤں گنش کا قدیم نام غنیش دش بھی کہتے تھے۔جیسا کہ برُوششکی زبان میں سونے کوغنیش کہتے ہیں۔کیوں کہ یہاں ہنزہ ونگر دریاؤں کے سنگم اورآس پاس کے مقامات پرکثرت سے سونا نکالا جاتا تھا۔اور یہیں کہیں کسی مقام پرسونے کی کان تھی۔
کتاب ’’ریاست ہنزہ تاریخ وثقافت کے آئینے میں‘‘کے مصنف فداء علی ایثار صفحہ ۳۴ پرلکھتے ہیں کہ’’جب سے ہنزہ کا سفارتی تعلق شہنشاہ چین سے ہوا تھااور سالانہ زر سوغات ہنزہ سے دربار چین میں بھیجا جارہا تھا تب سے چین میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ ہنزہ میں سونے کے بڑے بڑے کان ہیں‘‘۔اس لئے اہل چین ہنزہ کو کنجوت کے نام سے یاد کرتے تھے۔ترکی زبان میں کنجوت کے معنی سونے کے کان کے ہو تیں ہیں۔ماضی قریب تک کنجوت کا نام زبان زد وخاص عام تھا اہل ترکستان میں میر آف ہنزہ کوخان کنجوت کے نام سے یاد کرتے تھے۔غور طلب بات یہ ہے کہ ر یاست ہنزہ میں غالباً سونا زیادہ تھااس لئے سونے کا زر سوغات ہنزہ سے دربار چین بیھجاجاتا تھا۔والیان ہنزہ ونگر کے رانیوں کو بھی’’ غنش ‘‘ کے لقب سے پکاراجاتاہے۔
جیسا کہ سونے کے کان کے متعلق وسط ایشیاء کو کھوجنے والے انگریزسراغ رساں کے مشپہور زمانہ زبان ور عبداللہ بیگ آف گنش جو کہ کرنل ایف۔ار ۔شمبر کے ترجمان تھے یوں بتایا کرتے تھے کہ’’گورا‘‘ شمبر نے ریاست نگر،ہسپرمیں ایک سونے کے کان کو دریافت کیا تھااور مجھے دکھا کر سونے کی اس کان کادہانہ بند کیا تھا۔ہم سونا نکالنے کی خاطردوبارہ ہسپر جانے والے تھے۔شایدقدرت کو منظور نہ تھی شمبر صاحب واپس چلے گئے دوبارہ جانے کا اتفاق نہیں ہو ا اورمجھے ضعیف العمری نے دبوچ لیا۔‘‘
ایک اور تاریخی بات یہ بھی ہے کہ شمبر نے میر سکندر علی خان اور میر نظیم خان والیان ہنزہ نگر کو بھی کنجوت میں سونے کی کانوں کے متعلق بتایا تھا۔ان سارے تاریخی حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ غینیش دش کو اب گنش پکاراجاتا ہے۔
پٹولا شاہی :پٹولا شا ہی گلگت،ہنزہ،نگر کے حکمراں خاندان تھے ۔ڈاکٹر احمد حسن دانی اپنی مشہور کتاب ’’ دی ہسٹری آف ناردرن ایریازآف پاکستان ‘‘میں شمالی علاقہ جات یعنی ہنزہ، نگر،دیامراور غذر کے قدیم تاریخ کے متعلق حوالہ جات سے حیرت انگیز حقائق کومنظرعام پرلا چکے ہیں۔کتاب ہٰذامیں شمالی علاقہ جات کے مختلف چٹانوں پرمتروک قدیم زبانوں میں کندہ بے حداہم تحاریراورناموں کی مدد سے متعدد نامعلوم اور ناپید تاریخی حقائق کو از سر نوبیان کیا ہے۔جیسا کہ قدیم گلگت ، ہنزہ اورنگر کی ناپیدحکمران خاندانوں میں سے ایک :پٹولہ شاہی: کا تذکرہ کیا ہے۔اس کتاب کے صفحہ نمبر۱۵۴پر پٹولہ شاہی خاندان کے آخری حکمراں کا نام دیواسری چندراؤکرمادیتابھی وادی ہنزہ کے تاریخی گاؤں گنش سے در یا پارآثار قدیمہ کی اہم مقام ’’ سیکرٹ روکس آف ہنزہ ‘‘المعروف ہلدیکش(دونڈاس )کے ایک چٹان پرکندہ دریافت ہوا ہے۔یہ عیسوی سال کے مطابق ۴۹ء میں ان وادیوں کے آخری پٹولہ شاہی حکمران کو تبت والوں کے ہاتھون شکست فاش ہوکر اختتام پذیر ہواتھا۔اس حوالے سے بھی گنش مین گنیش دیوتا کی مندر ہونے کی یا پوجا پاٹ کرنے کی تاریخی ثبوت کو فوقیت ملتی ہے ۔
درجہ بالا دلائل میں سے ہر روایت اپنی جگہ وزن دار اور معتبر معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پہلی اور چوتھی ان دو روایتوں میں زیادہ وزن ہے ۔پہلی روایت اس لئے زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے کہ گنش بمقام ڈونداس بر لب شاہ راہ ریشم چٹانوں پر ’’سیکر ٹ روکس آف ہنزہ‘‘ تحریری رسم الخط تک موجود ہیں۔یہ رسم الخط بقول ایک بڑے مورخ جناب ’’کاتو‘‘کا کہنا ہے کہ کنشک(ختن آبادی)پہلی کشان بادشاہ کے دور امارت میں گنیش دیوتا کے نام کے سکے جاری کرائے گئے تھے۔
گورنمنٹ پبلک لائبریری لاہور میں آج تک یہ سکے موجود ہیں۔مختلف مورخین کے کتب میں اُن سکوُں کے تصویری اشکال محفوظ ہیں۔کشان بادشاہ کے دور بادشاہت میں گنش مندر میں رکھا ہوا گنیش دیوتا کا پوجا پاٹ عروج پر تھا۔سفری قافلے اس مندر میں اپنی اپنی منتیں مانتیں تھے۔اور اسی طرح چوتھی روایت بھی زیادہ حقائق ہونے کی بنیاد پرغینش دش سے نام گنش کا معروف ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ سر میر محمد نظیم خان اور سر میر محمد سکندر خان والیان ہنزہ ونگر کے پاس سونے کی تجارت کے انگریزوں کی دی ہوئی باقاعدہ لائسنس تھے۔اور سنے میں آیا ہے کہ شوکت علی خان (مرحوم)آخری تاجدار سابق ریاست نگر بھی کراچی کے مشہور گو گل سیٹھ سے مل کرسونے کی تجارت کرتے تھے۔تو ان قدیم وجدید شوئد کو دیکھا جائے تو یہ گنش بستی ریاست بروشال کی سب سے قدیم اورعظیم لوگوں کا وطن شمار ہوتاہے۔ بس جو لوگ تاریخ کو پڑھتے ہیں وہ آدھا تباہ ہوتے ہیں جو نہیں پڑھتے ہیں وہ پورا تباہ ہوتے ہیں۔بس اس لمبی تمہید کے بعد یہ کہنا مقصود ہے اور جو قومیں عدم دلچسپی کے باعث اپنی تاریخ کو گم کرتی ہے وہ قومیں تاریخ میں گم یعنی مر جاتی ہیں لہٰذا نئی نسل کو چائیے کہ اپنی دھرتی ماں کی عظیم تاریخ سے ضرور آگاہی رکھیں تاکہ دنیا کی تاریخ میں آنے والے اپنی نسلوں کے لئے زندہ رہ سکھیں۔والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔