قصور کے ایک بچے کا قصور
ظہیر ضلع و تحصیل قصور کے علاقے حسین خان والا کا رہائشی ہے وہ اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہے اور عمر سولہ سال ہے۔ یہ سال 2010 کا واقعہ ہے، جب ظہیر اپنے کچھ اور دوستوں کے ساتھ محلے کے گراؤنڈ میں کھیلنے جاتے ہیں کھیل کے دوران کچھ بڑی عمر کے لڑکے وہاں آجاتے ہیں، ظہیر کو ان کے دوستوں سے کچھ دیر الگ پا کر انھیں کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چلیں وہ اسے کھانے کے لئے مزے مزے کی چیزیں ساتھ دکان سے لے کر دینگے ،ظہیر جب انکی فرمائش نہیں مانتا ہے تو وہ اسے وہاں سے زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، وہ اسے ساتھ محلے کی ایک حویلی میں لے جاتے ہیں،وہاں اسے شربت پینے کو پیش کرتے ہیں، اس مشروب میں انھوں نے پہلے سے ہی بیہوشی کی دوا ملا کر رکھا ہوتا ہے، ظہیر جیسے ہی یہ شربت کا گلاس پیتا ہے وہ غنودگی میں چلا جاتا ہے جب وہ ہوش میں آجاتا ہے تو وہ لڑکے اسے گھر جانے اور مکمل خاموش رہنے کا کہتے ہیں۔
ظہیر وہاں سے سیدھا گھر آجاتا ہے، اس واقعے کے بارے میں گھر میں کسی سے ذکر نہیں کرتا۔رات کو کھانا کھانے کے بعد جلدی سو جاتا ہے اس کے امی ابّو بھی اسے معمول کا حصہ سمجھتے ہیں،ظہیر اگلے دن اسکول جاتا ہے اور اسکول سے واپسی پر گھر کی طرف آتے وقت وہی لڑکے اسے ایک بار پھر روکتے ہیں موبائل فون پر اس کے ساتھ ایک دن پہلے ہونے والی جنسی زیادتی کی ویڈیو دکھاتے ہیں، اور اسے کہتے ہیں کہ آئندہ ہماری ہر بات ماننا ہوگا ورنہ وہ یہ ویڈیو اسکے دوستوں اور والدین کو بھی دکھا دینگے، اور اس واقعے کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرنا۔
دو دن بعد ظہیر جب اسکول سے واپس آجاتا ہے، تو وہ لڑکے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ گھر میں کوئی بھی قیمتی سامان ہے لے کے ہمارے حوالے کر دیں اور اپنے والد سے کسی بھی بہانے پیسے لیں اور ہمیں دے دیں ورنہ یہ ویڈیو جلد آپ کے دوستوں اور گھر والوں تک پہنچ جائے گی وہ ڈر کے مارے اس واقعے اور ان لڑکوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرتا اور آہستہ آہستہ گھر میں جو بھی کوئی قیمتی چیز ہوتی ہے وہ چھپا کے لے جاتا اور ان کے حوالے کر دیتا،والد کو ایک بار ظہیر پر شک ہوا تو اس کی خوب پیٹائی بھی کی۔
ظہیر ان دھمکیوں اور لڑکوں کی روز روز کے فرمائشوں سے تنگ آ کر اس واقعے کے ٹھیک چھے مہینے بعد اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں، اسکے والدین اور اساتذہ نے بہت سمجھایا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھیں لیکن انھوں نے اسکول جانے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دی۔
ظہیر نے اسکول چھوڑنے کے بعد گھر سے باہر نکلنا بھی کم کر دیا، اسے رات کو دیر تک نیند نہیں آتی، دن کو گھر والوں سے بھی باتیں کرنا کم کر دیا اور اپنا زیادہ تر وقت تنہائی میں گزارنے لگا۔دوستوں کی ضدکے باوجود وہ کبھی کھیلنے نہیں جاتے اس دوران اس کا وزن بھی کافیکم ہونے لگا، وقت پہ کھانا کھاتے اور نہ ہی پہلے کی طرح جی بھر کے کھاتے. سارے گھر والے ظہیر کی وجہ سے پریشان تھے مگر کوئی اصل وجہ تک نہیں پہنچ سکے۔
جب ظہیر نے گھر سے باہر نکلنا اور اسکول جانا چھوڑ دیا تو محلے کے ان لڑکوں نے وہی ویڈیو ظہیر کے والد کو دکھا دی اور کہا کہ اگر آپ نے ہر مہینے ہمیں ایک مخصوص رقم کی بندوبست نہیں کی، تو ویڈیو پورے علاقے میں پھیلا دینگے۔ ظہیر کے والد سخت پریشان ہوئے، اس نے واپس آ کر ظہیر سے اس حوالے سے دریافت کیا تو اس نے سب کچھ والد کو بتا دیا،ظہیر کے والد روزانہ اجرت پر کام کرتا تھا، یوں وہ مجبورامہینے کے آخر میں ان لڑکوں کے لئے کچھ خاص رقم بندوبست کرتے رہے.
ظہیر کچھ دن بعد ان حالات سے تنگ آ کر لاہور چلے گئے. وہاں انھوں نے ایک کمپنی میں روزانہ چودہ گھنٹے کام کرنے کے عوض 300 روپوں کے لئے کام کرنے لگے. جلد ہی گاؤں کے ان لڑکوں نے ظہیر کے لاہور میں کام کرنے کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کر لی، اور انھیں پیغام بیج دیا کہ وہ ساری کی ساری کمائی ہر ماہ ان کے حوالے کریں ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا. پھر وہ ہر ماہ کے آخر میں ملنے والی تمام تنخواہ ان کے حوالے کرتا گیا. تقریبا ایک سال کے عرصے کے بعد ظہیر لاہور سے وہ نوکری چھوڑ کر دوبارہ گھر آیا، اور پہلے کی طرح سارا وقت گھر کے اندر ہی تنہائی میں گزارنے لگا.
ظہیر اور اس کے والد نے گھر کے سخت مالی حالات سے تنگ آکر فیصلہ کر لیا کہ وہ چاہے جو بھی ہو آئندہ ان لڑکوں کی کوئی فرمائش پوری نہیں کرینگے. اور ان لڑکوں کو صاف صاف کہہ دیا. اس فیصلے کے بعد نہ ہی ان لڑکوں نے اس ویڈیو کو پھیلانے کی کوشش کی نہ ہی مزید مطالبات کئے۔
ظہیر اور اس کے والد کسی حد تک مطمئن رہے کہ اب وہ اس ویڈیو کو اوپن نہیں کریں گے مگر ایک وقت ایسا آیا جب انھیں پتہ چلا کہ ظہیر سمیت بہت سارے بچوں کی ویڈیوز گاؤں میں پھیل چکی ہیں، وہ بے بس تھے۔گاؤں کے ان بدمعاش لڑکوں کو مقامی پولیس کی سرپرستی بھی حاصل تھی، اور مالی اور سیاسی طور پردیگر گاؤں والوں سے کافی مستحکم تھے۔لوگ ان کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تھے گاؤں کے بہت سارے لڑکوں کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ظہیر اور اس کے والد نے گاؤں کے چند سماجی اور پڑھے لکھے لوگوں سے صلح مشورے کئے اور لوگوں کو اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے تیار کرنے لگے، اس دوران ظہیر اور اس کے والد پولیس میں ایف آئی آر درج کروانے گئے مگر انھیں ٹرخا کر واپس بھیج دیا گیایوں پورے علاقے والوں نے احتجاج کیا اور یہ حقائق میڈیا میں آئے اور اس مسئلے نے پورے ملک کا توجہ حاصل کر لیا۔
ظہیر اب بھی اپنی قسمت کو کوس رہا ہے، وہ اب بھی اس بات سے لا علم ہے کہ اس پورے واقعے میں اس کی کوئی غلطی ہے یا نہیں، مگر ظہیر اور قصور کے اس جیسے سینکڑوں معصوم بچے ہمارے نظام سے، سماج سے، قانون کے رکھوالوں اور انصاف دینے والوں سے اور ہمارے معاشرے کے ایک ایک ذمہ دار فرد سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا انھیں انصاف ملے گا، کیا ہماری آئندہ نسلیں ایسے واقعات سے محفوظ ہونگی، کیا دولت اور طاقت کے سامنے سچ اور انصاف کا بول بالا ہوگا، کیا ایک غریب کے بچے اور امیر کے بچے کے لئے انصاف برابر ہوگا، کیا حکمران اور قانون سازی کرنے والے کوئی نیا قانون یا حکم نامہ جاری کرتے وقت ایسے بچوں کا بھی خیال رکھیں گے۔ ظہیر ہم سب سے ایسے ہی کئی سوالات کے جوابات مانگ رہا ہے،قصور کے اس معصوم ظہیر کا قصور یہی ہے کہ وہ ایک بچہ ہے، اور سماج کے ان درندوں نے اس معصوم سے اس کی بچپن چھینے کی کوشش کی، کاش کوئی تو بتائے کہ قصور کے اس معصوم کا آخر قصور کیا تھا؟
(نوٹ: یہ قصور کے حالیہ سامنے آنے والے واقعے کی ایک سچی کہانی ہے، راز داری کے لیے فرضی ناموں کو استعمال کیا گیا ہے)