کالمز

گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں گندم کے بحران اور قحط کا خطرہ

Nasir

گلگت بلتستان میں مسلم لیگ(ن) کی صوبائی حکومت کے قیام کے 100دن ہونے کو ہیں، اگرچہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اپنی حکومت کے 100 دن کے اہداف کا آغاز 14اگست سے کیاہے، لیکن جمہوری نظام میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی اس دن سے شمار ہوتی ہے جب سے عہدے کا چارج ملا ہے۔ صوبائی حکومت کی 100 دن کی کارکردگی کا مختصر جائزہ لیں تو کوئی نمایاںاور بڑی کامیابی تونظر نہیں آتی ہے تاہم بعض شعبوں میں ماضی کے مقابلے میں بہتری کے اثار ضرور دیکھائی دے رہے ہیں،جن میں محکمہ صحت ، محکمہ تعلیم،محکمہ سیاحت ،محکمہ موصلات اور محکمہ برقیات شامل ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت ابتدائی 100 دن میں انتخابی عمل کوہی مکمل نہ کرسکی ہے ۔گلگت بلتستان گورننس آڈر2009 ء کے مطابق ۔گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے فوری بعد گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب ہونا چائے جو ایک قانونی فورم ہے۔ جس کے 6ارکان کا انتخاب گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے کرنا ہے۔ لیکن اب تک ان6 ارکان کا انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کونسل نہیں بن سکی ۔مسلم لیگ(ن) کی الیکشن کمیشن آف گلگت بلستان صوبائی حکومت تاخیر کی بنیادی وجہ قوانین کی عدم موجودگی اور طریقہ انتخاب کی وضاحت نہ ہونا بتارہے ہیں۔گورنر گلگت بلتستان اور وفاقی وزیر برجیس طاہر کے ایک حالیہ بیان کے مطابق کونسل کے انتخاب میں اب تاخیر نہیں ہوگی ،وزیر اعظم (جو کونسل کے چیئرمین بھی ہیں)کوقوانین میں ترامیم کی سمری ارسال کردی گئی ہے،ان کی منظوری کے فوری بعد انتخاب ہوگا۔ اسی طرح کا اعلان پونے دو ماہ قبل وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان بھی کرچکے تھے اور انہوںنے اگست کے اختتام کی تاریخ بھی دی مگر لیکن عملًا ایسا نہیں ہوا ۔ گورنر گلگت بلتستان اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو چاہیے کہ وہ وزیر اعظم سے ملاقات کرکے کونسل کے انتخاب کا عمل جلد سے جلد مکمل کریں تاکہ دونوں ایوانوں کا انتخابی عمل مکمل ہوسکے اور دونوں ایواں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

 دراصل اس وقت مسلم لیگ(ن) کیلئے سب سے بڑا امتحان کونسل کے امیدواروں کا انتخاب ہے کیونکہ جس طرح ہر حکومت اور ہر جماعت میںذاتی تعلقات ،مال وزر اور دیگراسباب کی بنا پر فصلی بٹیر کود آتے ہیں اور پھر نظریاتی لوگ نظر انداز کردیئے جاتے ہیں، اسی طرح کی صورتحال کا سامنا اس وقت گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کو بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق بعض افراد جو گزشتہ 10سال میں چھ چھ پارٹیاں تبدیل کرچکے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو کونسل کا اصل حقدارقرار دے رہے ہیں اورروز اول سے پارٹی سے منسلک اورقربانی دینے والوں کو حق دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔اسی طرح بعض افراذاتی د دوستی ،رشتہ داری اورتعلقات کی بنیاد پر ٹکٹ اپناحق سمجھتے ہیں، ایسے میں نظریاتی کارکنوں میں مایوسی فطری بات ہے ۔امیدواروں کے انتخاب کا اصل امتحان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کا ہے جو تمام لوگوں کی انفرادی کارکردگی سے بخوبی واقف ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف اور دیگر پارٹی رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ سفارش،مال و ذر اور ذاتی تعلق کے بجائے میرٹ اور قربانی کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کریںاور فصلی بٹیروں کے انتخاب سے گریز کریں ، بصورت دیگر انجام پیپلزپارٹی سے برا ہوگا۔

 دوسری جانب اس وقت مسلم لیگ(ن) کیلئے سب سے بڑا مسئلہ خطے کے دور دراز علاقوں تک گندم کی فراہمی ہے کیونکہ بالائی علاقوں میں موسم خراب ہونے کی وجہ سے برف بھاری کا سلسلہ شروع ہوچکاہے ۔اطلاعات کے مطابق اب تک استور ، سکردو ، گانچے اور دیامر اور دیگر اضلاع کے دوردرازاور بلائی علاقوں تک گندم کی فراہمی ممکن نہیں بنائی گئی ہے۔ حکومت کے پاس اس عمل کے لئے اب صرف 15 سے 20دن ہیں۔ اس لیے ہنگامی بنیادوں پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضلع استور کے دوردراز اور کنٹرول لائن پر واقع وادی گریز( قمری منی مرگ )کے سماجی رہنماء قاری عزیز الرحمن ناصر کے مطابق 10ہزار آبادی پر مشتمل اس وادی میں گندم کا شدید بحران ہے، برف بھاری کا سلسلہ بھی شروع ہوچکاہے اور کسی بھی وقت راستے بند ہوسکتے ہیں،جبکہ شدید سردی کی وجہ سے پنچکیاں بھی بند ہورہی ہیں ۔ یہ علاقہ صوبائی وزیر بلدیات رانا فرمان علی کے حلقے میں شامل ہے اور رانا فرمان علی کا شمار اہم متحرک صوبائی وزراء میں ہوتاہے، وزیر موصوف کو بھی اس پر فوری توجہ دیناہوگی ۔ضلع سکردو کے وردراز اور کنٹرول لائن پر واقع وادی گلتری کے حاجی حسن کے مطابق  اسی طرح کی صورتحال وہاں پربھی ہے،غالباً یہ علاقہ اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی حاجی فدا محمد ناشاد کے انتخابی حلقے کا حصہ ہے ۔ دیامر کے مختلف علاقوں سے بھی گندم کے بحران کے حوالے سے  اسی طرح کی شکایات مل رہی ہیں اور ایسے بلائی علاقے بھی شامل ہیں جو صوبائی وزیر خوراک حاجی جانباز خان کے انتخابی حلقے کا حصہ ۔اگرچہ گلگت بلتستان میں گندم کا بحران تقریبا تین ماہ سے جاری ہے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور اب یہ بحران شدید تر ہوتاجارہاہے ۔ صوبائی وزیر خوراک حاجی جانباز خان کو ہنگامی بنیادوں پر گندم کی فراہمی کیلئے اقدام کرنے ہوں گے اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بھی اس کا نوٹس لیں بصورت دیگر خطہ شدید قحط کا شکار ہوسکتاہے۔دور دراز اور بالائی علاقوں میں اکتوبر کے وسط تک گندم فراہم نہیں کی گئی تو آیندہ5 سے 6 ماہ کیلئے یہ علاقے برف باری کے باعث مکمل طور پر بند ہوجائیں گے ایسی صورت میں ہزاروں افراد کی جانوں کو شدید خطرہ ہوسکتاہے۔

اگرچہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اس وقت شدید صدمے میں ہیں کیونکہ چند روز قبل ہی ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا ہے یقیناً اس دنیا میں ماں کی جدائی سے بڑا کوئی صدمہ نہیں مگرہم سب کا ایمان ہے کہ موت بھی برحق ہے ،ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان گندم کے بحران پر ہنگامی حالت کا نفاذ کریں اور اپنی توجہ اس پر مرکوز کریں تاکہ خطے کو کسی بڑے سانحے سے بچایا جاسکے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button