خیبر پختونخوا کے عوام اور سیاسی لیڈروں کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پن بجلی ہم پیدا کر رہے ہیں اور ہم مزید بجلی پیدا کرسکتے ہیں جو اعد دوشمار اب تک سامنے آئے ہیں ان کی رُو سے ملاکنڈ ڈویژن کے چار بڑے دریا وں کے پانی سے 40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر نے کی گنجائش ہے 2002 ء میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اس پر باقاعدہ کام شروع کیا وفاق کے ساتھ بجلی کے خالص منافع میں صوبے کی رائیلٹی ادا کر نے کا مسئلہ اُٹھا یا ثالثی کمیشن مقر ر ہوا اے این پی اور پی پی پی کی مخلوط حکومت نے اس کام کو آگے بڑھا یا اور بجلی کی رائیلٹی سے آنے والی آمدنی کو انرجی فنڈ کے نام سے پن بجلی کے نئے منصوبوں کے لئے مختص کر دیا 2005 ء سے 2013 ء تک 7 سالوں میں ملاکنڈ ڈویژن کے چار دریاؤں پر 13 بڑے منصوبوں کی فیز یبلیٹی رپورٹیں بن گئیں 4 منصوبوں کے لئے زمین حاصل کی گئیں 7 منصوبوں کے ٹینڈر ڈاکو منٹ بن گئے اور 4 منصوبوں کے ٹینڈر کھول دئیے گئے 2013 ء کے بعد 4 منصوبوں پر کام شروع ہونا تھا 600 میگا واٹ بجلی حاصل ہونے والی تھی سابق وزیراعلیٰ امیر حید ر خان ہوتی نے چترال میں لاوی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا یہ 69 میگا واٹ کا پراجیکٹ تھا اس پر 20 ارب روپے کی لاگت آنے والی تھی اور 5 روپے یونٹ کے حساب سے اس کی یومیہ آمدنی 40 لاکھ روپے ، سالانہ آمدنی ڈیڑھ ارب روپے تھی انتظامی اخراجات اور دیکھ بھال مینٹینس کے اخراجات مہیا کر کے سالانہ سوا ارب روپے خالص آمدنی متوقع تھی اور یہ بجلی گھر ایک ارب 25 کروڑ سالانہ کے حساب سے 16 سالوں میں اپنی لاگت کو پورا کر سکتا تھا اسی طرح ہر بجلی گھر کا تخمینہ تھا۔ 2013 ء میں صوبائی حکومت نے پالیسی تبدیل کر کے بڑے بجلی گھروں کی جگہ 100 کلوواٹ سے 500 کلوواٹ تک چھوٹے بجلی گھر تعمیر کر نے کا پروگرام بنا یا 6 کمپنیوں کو ٹھیکہ دیا اُ ن میں بعض این جی اوز بھی شامل تھے ڈیڑھ سال بعد جی ایس ٹی کے نام سے ہربجلی گھر کی اصل لاگت میں کٹوٹی کی گئی اور 20 فیصد کمیونیٹی شیئرڈال دی گئی اگر ایک کمپنی کو ڈیڑھ ارب روپے کا ٹھیکہ ملا تھا تو اُس کو گھٹا کر ایک ارب سے بھی کم کر دیا گیا گذشتہ 6 مہینوں سے پھڈا چل رہا ہے تمام کمپنیوں کے کام بند ہیں گویا پن بجلی کے بڑے منصوبے بھی ٹھپ ہوچکے ہیں چھوٹے منصوبے بھی بند کر دئیے گئے ہیں ترقی کا پہیہ اُلٹا دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی پنجاب کے لیڈر چوہدری محمد سرور کے جواب میں کالاباغ ڈیم کی سرتوڑ مخالفت کر کے جرء ت مندانہ قدم اُٹھا یا ہے اگر صوبائی سطح پر چھوٹے اور بڑے منصوبوں کے ذریعے بجلی پیدا کر نے کے منصوبوں پرکام کی ر فتار کی حوالے سے ایک میٹنگ بلائیں اور میٹنگ میں گذشتہ دوسالوں کی کارگردگی کا جائز ہ لیں تو صوبے کے عوام اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے حق میں بہتر ہوگی صرف درال خوڑ اور لاوی پر اجیکٹس پر کام کی رفتار کا جائز ہ لے لیں تو اندازہ ہوگا کہ متعلقہ محکمہ کیا کر رہا ہے؟ لاوی پراجیکٹ کا ٹنل 11 کلومیٹر ہے دوسالوں میں ٹنل بننا چاہیے تھا سول ورک مکمل ہونا چاہے تھا مشینری کی خریداری اور تنصیب شروع ہونی چاہے تھی دیگر منصوبوں پر بھی 50 فیصد کام ہونا چاہے تھا مزید منصوبوں کے ٹینڈر ہونے چاہیے تھے نیز حکومت کی ترجیحات میں پہلے سے طے شدہ مقامات پر نئے منصوبوں کی فیز یبلیٹی کا کام شروع ہونا چاہیے تھا 4 منصوبوں کی تکمیل کے بعد 7 منصوبوں پر نصف کام ہوجاتا 8 منصوبے ٹینڈر کے مراحل میں ہوتے اور مزید 12 منصوبوں کی فیز یبلیٹی سٹڈ یز پر کام چل رہا ہوتا ترقی کا پہیہ مسلسل چلتا رہے تو اس کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں ملاکنڈ تھری اور پیہوری ہائی لیول کینال کے بجلی گھر پر کام ہوا اے این پی کے دور میں دونوں بجلی گھرو ں نے پیداوار دینا شروع کیا اگر اے این پی کے دور میں جاری کئے گئے منصوبے بند نہ ہوتے تو 2016 ء تک بڑا کا م ہوچکا ہوتا ہماری سیاسی قیادت کو اس پر غور کر نا چاہئے کہ صوے کا مفاد کیا ہے یہ مفاد نعروں سے حاصل ہوتا ہے یا سائنسی خطوط پر اتفاق واتحاد کے جذبے کے ساتھ کام کرنے سے حاصل ہوتا ہے 2008 ء میں ضلع دیر اپر کے اندر ایسا واقعہ پیش آیا صاحبزادہ طارق اللہ ضلع ناظم تھے اور نجم الدین خان وفاقی وزیر تھے پارٹی کا رکنوں نے ضلع ناظم سے شکایت کی کہ واٹر سپلائی سکیم آپ نے منظور کرایا تھا وفاقی وزیر اس کا افتتاح کر رہا ہے صاحبزادہ طار ق اللہ نے کہا یہ میرا نہیں دیر کے عوام کا منصوبہ ہے اگرو ہ افتتاح کر رہا ہے تو ہم اُس کے ساتھ تعاؤن کر ینگے تاکہ دونوں کی مشترکہ کوشش سے دیر کے عوام کو پینے کا صاف پانی ملے ترقی کا یہ جذبہ پنجاب میں بھی ہے شہباز شریف نے اقتدار میںآکر چوہدری پرویز الہیٰ کے تمام منصوبوں کو آگے بڑھا یا اور ان میں اضافہ بھی کیا کیونکہ یہ منصوبے پنجاب کے مفاد میں تھے پنجابی عوام کے مفادمیں تھے نیز پنجاب میں 11 ارب روپے کا منصوبہ 9 مہینے میں اور 40 ارب روپے کا منصوبہ ڈیڑھ سال میں مکمل ہوتاہے ان منصوبوں کے ٹینڈر کیسے ہوتے ہیں کب کا م ہوتا ہے اور کون کام کرتا ہے؟ اس پر غور کر کے خیبر پختونخوا کی ترقی کا لائحہ عمل مرتب کر نا چاہئے خیبر پختونخوا میں پن بجلی کا بڑا پوٹینشل ہے امکانات بھی بہت ہیں خیبر پختونخوا میں صرف ایک ڈویژن ملاکنڈ کے 4 دریاؤں پر 40 ہزار میگا واٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اپنی ترجیحات کا درست تعین کرے اور صوبے کے مفاد میں جاری کئے گئے منصوبوں ک بروقت تکمیل پر توجہ دے ۔موجودہ حالات میں صوبے کو بجلی کی ضرورت ہے اس لئے پن بجلی کے چھوٹے او ربڑے منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کر نا بہت ضروری ہے تاکہ اگلے 3 سالوں میں موجودہ حکومت کے ترقیاتی کام عوام کو نظر آسکیں یہ صرف صوبے کا مفاد نہیں پی ٹی آئی حکومت کا مفاد بھی ہے