کالمز

چار سالہ معصوم بچے کے قتل کا معمہ ۔۔قاتل کون؟ انسان یاجنات! 

گلگت بلتستان میں اس وقت چار سالہ احمد کاپر اسرار قتل حکومت ،سیاست ،انتظامیہ الغرض ہرشعبے میں زیر بحث ہے اور حکومت و انتظامیہ کے لئے بھی امتحان بن چکا ہے ۔اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے ضلع دیامرمیں عیدالاضحی سے دو روز قبل(غالباً22ستمبر کو ) چلاس شہر کے نواحی علاقے بٹو گاہ کے گاؤں ’’سومال‘‘ میں چار سالہ معصوم بچہ احمد ولد محمد جان اپنی ماں کے ہمراہ قریبی چشمے سے پانی لانے کیلئے جاتے ہوئے پر اسرار طور پر لاپتہ ہو گیا ۔جس کے بعد بچے کی تلاش کی گئی مگر کوئی کامیابی نہیں ملی،تاہم ورثاء نے پولیس کو لاعلم رکھا ۔ چار سالہ احمد کے پر اسرار طور پر لاپتہ ہونے پر علاقے میں مشہور ہوگیا کہ بچے کو جنوں نے اغواکیاہے اور مقامی عالموں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جنوں پر سختی نہ کی جائے ورنہ بچے کو جن قتل کریں گے۔

مقامی عاملوں کی ناکامی کے بعد پنجاب سے عامل بلائے گئے ،جنہوں نے عمل شروع کیا اور اس دوران یکم اکتوبر کو قریبی جنگل سے بچے کی تشدد زدہ لاش ملی۔پولیسNasir کے مطابق بچے کے چہرے ، سر اور جسم کے دیگر حصوں پر تشدد کے نشان ہیں ،جبکہ دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گلہ تیز دھار آلے سے کاٹاگیاہے ۔اس واقعے کے بعد علاقے میں جہاں معصوم احمد کے پر اسرار قتل پر لوگوں میں غم و غصہ ہے وہیں ’’جنوں‘‘کا خوف بھی ہے اور مختلف بازگشت بھی سنائی دے رہی ہیں ۔عاملوں کا دعویٰ ہے کہ ’’بچہ بہت خوبصورت تھا ایک خاتون جن اس پر عاشق ہوئی، عاملوں کی سختی پر بچے کو قتل کردیا ‘‘۔

معصوم احمد صوبائی وزیرخوراک حاجی جانبازخان کا قریبی عزیز ہے۔ حاجی جانبازخان کا دعویٰ ہے کہ’’ احمد کوجنات نے ہی قتل کیا ہے پولیس کاررروائی نہیں کرسکتی۔ ماضی میں میرے سامنے کئی لوگوں کوجنات اٹھاکرلے گئے بعد میں جنات نے ان لوگوں کوچھوڑدیا‘‘۔ حاجی جانبازخان جس طرح اپنے دعوے پر قائم ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے مسلمان مخبر جنوں نے کافر جنات کی اس مضموم کارروائی کی پوری کہانی بمع ثبوت کے وزیر موصوف کوبتائی ہے ۔اس لئے وزیر موصوف مزید کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

میڈیا پر خبر آنے کے بعد وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے واقعے کا سختی نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیدیااوروزیر اعلیٰ کی ہدایت پرہی پولیس نے 6اکتوبر کوقبر کشائی کرکے بچے کی لاش کا پوسٹمارٹم کیاہے تادم تحریر رپورٹ آئی ہے اور نہ ہی پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے تاہم دفعہ 174کے تحت کارروائی کر رہی ہے ۔قبرکشائی کے وقت مجسٹریٹ چلاس تنویراحمد،ڈی ایس پی امیراﷲ تفتیشی افسرمجیب الرحمن اورلواحقین ،ڈی ایچ کیوہسپتال چلاس سے نامزدڈاکٹرزڈاکٹرجان عالم،ڈاکٹرصلاح الدین اور ڈاکٹر معراج اپنے عملے کے ہمراہ موجود تھے۔

مقتول احمد کی تصویر
مقتول احمد کی تصویر

ڈی آئی جی دیامرعنایت اﷲ فاروقی کے مطابق پولیس اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھارہی ہے،پوسٹمارٹم ہوگیا ہے رپورٹ آنے پر ہی اصل صورتحال کا علم ہوگا اور ہم اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔پولیس کی لاعلمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ لواحقین نے خود ہی پولیس کو لاعلم رکھااورتھانے میں بچے کی گمشدگی یا قتل کے حوالے سے کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی،تاہم اب پولیس نے ازخودضابطہ کارروائی کرتے ہوئے لواحقین کے بیانات قلمبندکیے ہیں،مگر بچے کے والدین ار قریبی عزیزاب بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ بچے کوجنات نے ہی قتل کیا ہے۔ والدین کاموقف درست یاغلط اس کی تحقیق کی جا رہی ہے ۔ ‘‘

ایک اہم ذمہ دار پولیس افیسر کے مطابق چار سالہ احمد کو دانستہ طور پر قتل کیاگیا ہے اور اب جنات کے نام پر واقعے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔افیسر کے مطابق قتل میں قریبی عزیز یا کوئی جاننے والا ہی ملوث ہوسکتا ہے ۔قتل کی وجہ کے حوالے سے افیسر کا کہنا ہے کہ اکثر ایسا دیکھاگیا ہے کہ دشمنی کی بنیاد یا جنسی تشدد کے بعد اس طرح کے قتل ہوتے ہیں ،جس میں قریبی عزیز ہی ملوث ہوتے ہیں ،یہاں تک کہ باپ،چاچا،ماموں ،بھائی اور دیگر انتہائی قریبی عزیز ملوث پائے جاتے ہیں۔ چار سالہ احمد کے خاندان کی بظاہر کسی سے کوئی دشمنی کی کوئی اطلاع ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور خدشہ یہی ہے کہ کسی جاننے والے نے جنسی تشدد کے بعد شناخت کے خوف سے قتل کردیا ہے ،تاہم اصل صورتحال پوسٹمارٹم رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی واضح ہوگی۔

اس دلخراش واقعہ کے کئی تکلیف دہ پہلو ہیں۔ایک پہلو یہ ہے کہ کہ پولیس نے بچے کو بازیاب کرنے کیلئے کوئی کارروائیاور نہ ہی قتل کا مقدمہ درج کیا ہے اور مفروضوں پر ہی یقین رکھا ۔جس انداز میں چار سالہ احمد کے قتل کی ذمہ داری جنات پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی خوف یا کسی اور وجہ سے معاملے کو دبایا جارہا ہے ۔اس دردناک اور انسانیت سوز واقعے کی بازگشت زبان زد عام پر توہے مگر کوئی جنات کے اغواہ کے سوا کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ،جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

جنات کی موجودگی اور انسانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے انکار ممکن نہیں مگر اس انداز میں قتل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے ۔اگرچہ والدین سمیت ہر عام و خاص میں سے ہر ایک کی زبان پر یہی ہے کہ جنات نے ہی معصوم احمد کو قتل کیا ہے مگرحقائق ایسے نہیں لگتے ہیں ،اس لئے حکومت گلگت بلتستان اس واقعے کی تہہ تک پہنچے اور ملوث عناصر کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے،یہ کیس مسلم لیگ (ن)کی صوبائی حکومت بالخصوص حافظ حفیظ الرحمان کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ تعاون نہ کرنے پر والدین ،عاملین اور عزیزوں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے ۔گلگت بلتستان میں جس طرح اس قتل کو’’ جنات کی دہشت گردی قرار دی جارہی ہے ‘‘اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خطے میں انسانوں کے بعد جنات بھی دہشت گردی پر اتر آئے ہیں ۔اگر اس طرح کے واقعات کا تدارک نہیں کیاگیا تو مستقبل میں جرائم پیشہ عناصر اس طرح کے واقعات کو بطور حربہ استعمال کرسکتے ہیں ۔ اس لئے معصوم احمد کے قتل کو ’’ایک خاتون جن کے عشق‘‘ کا معاملہ قرار دیکر نظرانداز کرنے کی بجائے حقیقت کو تلاش کیا جائے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button