کالمز

سب ڈویلپمنٹ فنڈ کا چسکا ہے

sajjad Hussain Kamilوہ کچھ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا مگر آپ اسے ان پڑھوں کی صف میں بھی کھڑا نہیں کر سکتے ۔جائز ناجائز کام اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔بلا کی ذہانت او پر سے چاپلوسی کا تڑکا ،خوشامد کی ہلدی اور بے ایمانی کا رائتہ ۔ الغرض وہ تمام قبیح صفات کا ایک مکمل مرکب تھا۔ دائیں بائیں ہاتھ کی کمائی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگی ۔اسی قماش کے دوستوں اور اشرافیہ کے کاموں کے صلے حصہ بھی ملتا رہا۔کمائی میں تیزی آگئی اور معمولی نوعیت کا منشی اچھا خاصا ایک کاروباری فرد بن چکا تھا۔اس کے نام کی عمارتیں جگہ جگہ زمین سے سر اُٹھانے لگیں۔طرح طرح کی گاڑیاں اِدھر اُدھر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ اب یہ ماضی کا غیر معروف انسا ن تکبر کی علامت بن چکا تھا۔لوگوں کا مال ہڑپ کرنا،کس و ناکس کو دبانا ۔ یوں اعمال کے خالی اور اق جرائم کی سیاہی سے بربریت کی داستانیں رقمطراظ کرنے لگے۔ جوں جوں جرم بڑھتا گیا معاشرے پر گرفت جمنے لگی ۔اب یہ ایک معزز و معتبر شخصیت کے طور پر متعارف ہونے جا رہا تھا۔ جی ہاں! آپ نے صحیح پہچانا۔ اب یہ مشت خاک بانت بانت کے جرائم کرنے کے بعدسیاست کے دہلیز پر قدم رنجا فرمانے والے تھے۔ آپ بھی سوچ میں ضرور پڑگئے ہونگے کہ اس ملک میں سیاست اور عنان حکومت محض جرائم پیشہ افراد ہی کی رکھیل کیوں ہے؟ اس کا بہت سادہ ہی جواب ہے۔ ارے صاحب ! یہ سب ڈویلپمنٹ فنڈ کا چکر ہے۔

انسان کے ارتقاء کا سفرلا تعداد پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ انگنت اور بیشمار میدانوں میں کمال کی معرکہ آرائی کی ہے۔ اگر آپ جدت علم اور تفکر پرمشتمل قانون سازی میں کسی لازوال خزینے کے متلاشی ہیں تو آپکی نگاہ جمہوریت پر آکر ٹھہر جائے گی۔ قدیم سے قدیم اور جدید سے جدید اہل علم کے مشاہدات پر غور کیا جائے تو اُن کی جستجو کا اختتام جمہوریت ہی کی طرح کے کسی نظام پر اتفاق کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ خود میکاولی کو ہی لے لیجئے جسے نظام حکومت و سیاست کا قدیم گرو سمجھاجاتا ہے ۔ اگرچہ وہ برسوں بادشاہوں کے درباروں سے بھی وابستہ رہا مگراس کے علم کا نچور جمہوری روایات پر دلالت کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ جدید قانون و سیاست کے ماہرین تھومس پینی اور جین بوڈن باوجود ناقدانہ انداز میں آبلہ پائی کے بعد بھی اپنے دلیل و منطق کے ہتھیا ر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اب کوئی احمق ہی ہو گا جو جمہوریت اور جمہوری روایات کو مکمل طور پر رددی کی ٹوکری میں ڈال کر کسی آمرانہ نظام کے طوق کو زینت گردن کرنے کی چاہ رکھے۔

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کسی گدھے پر لائنیں لگا کریہ قائل کرنے کی سعی کی جائے کہ یہ زیبرا ہے تو اس سے بڑی جاہلانہ کاوش کوئی نہیں ہو گی۔یہ بات بالکل ہمارے نظام پر صادق آتی ہے جس میں جمہوریت کی زرہ برابر بھی کوئی خصوصیت موجود نہیں۔ دراصل د یکھا جائے تو بدترین آمریت بھی اس قسم کے ظالمانہ نظام سے قدرے بہتر ہے کیونکہ اس منافقانہ، بے ایمانہ نظام کی آڑ لے کر اوپر بیان کردہ خدوخال کے رہزن رہبر بن کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہوتے ہیں۔بیڑ کی خال میں بیڑیا پر خون آشامی نہایت سہل ہوتی ہے۔یہ نظام دھونس دھاندلی اور دکھاوے کے بل بوتے پر جرائم پیشہ افراد کو عنان حکومت کی لگام تھام دیتا ہے۔ جو دراصل ڈویلپمنٹ فنڈ کے بھوکے ہوتے ہیں اور اسی کے سہارے مختصر وقت میں ہی ا ربوں کھربوں کی لوُٹ مار کر گزرتے ہیں۔نظام کی درستگی کا نہایت سادہ کُلیہ بتائے دیتا ہوں۔ سیاست سے ڈویلپمنٹ فنڈ کو منہا کر دیا جائے۔ بڑے وثوق کے سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ دولت ، ہوس اور حرص کے بھوکے عادی مجرم سیاست کے قریب پھٹکنے کی جرات نہیں کر سکیں گے۔ یوں اقتدار اُن مخلص افراد کے ہاتھوں آجائے گا جو یا تو خدمت خلق کا جذبہ رکھتے ہیں یا ناموردی اور نیک نامی کی لگن اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ تبھی یہ ملک اور قوم اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔

 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button