یہ بات شاید سن دو ہزار کی ہے ،مجھ پر اچانک شاعری کے دورے پڑ گئے،،،، دورے اتنے شدید تھے کہ بروقت علاج کا انتطام نہ ہوتا تو مرزا غالب کی شاعری بھی خطرے سے دوچار ہوتی ،ایسے میں معالج کی تلاش میں سرگرداں ہوا ،نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان والی صورتحال پیدا ہو گئی،۔۔۔۔ہر گلی کے نکڑاور ہر چوک پر مجھے نیم شاعر ملے ان کے سامنے اپنی شاعری رکھی تو انہوں نے مجھے مرزا غالب کا استاد قرار دیا ،،میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ مرزا غالب کو تو دنیا سے رخصت ہوئے بھی سینکڑوں سال بیت گئے ۔۔ میں مرزا غالب کا استاد کیسے ہو سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر خیال آیا کہ شاید کسی اور جنم میں مرزا غالب میری شاگرد ی میں رہے ہوں ،،،۔۔۔،،،،اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ کسی مہربان نے مجھے بتایا کہ گلگت میں ایک شاعر ہیں جن کو زمانہ خوشی محمد طارق کے نام سے جانتا ہے ان کے ہاں حاضری دیں تو شاعری کے جھٹکو ں کا علاج ممکن ہے ،،اب ملاقات کی تیاری شروع ہوئی،ایک دن معلوم ہوا کہ حلقہ ارباب زوق نامی تنظیم کے زیر اہتمام مشاعرے کا انعقاد ہو رہا ہے ،،میں اپنا دیوان بغل میں دبائے،شاعرانہ چال چلتے چلتے ۔۔یہ سوچتے ہوئے مشاعرے میں پہنچ گیا کہ مشاعرے کے حاظرین میری آمد پر بھر پور استقبال کریں گے لیکن میری امیدوں پر پانی اس وقت پھر گیا جب کسی نے استقبال کرنا تو دور کی بات ہے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ،غصہ بہت آیا کہ یہ کیسے شاعر ہیں جو ،مرزا غالب کے استاد کی بھی بے توقیری کر رہے ہیں ،،،،،دل کہے کہ ابھی اٹھ کر سر محفل چیخوں کہ مرزا غالب کے گن گانے والے شاعر مرزا غالب کے استاد کے ساتھ اس قدر بے رخی کیوں کر رہے ہیں۔۔ ،۔اچانک میرے کانوں میں ایک آواز آئی کہ نووارد شاعر رشید ارشد آکر اپنا کلام سنائیں ،دل نے کہا اب سناو،،،ان غالب کے استاد کی بے قدری کرنے والے شاعروں کو اپنا کلام ۔۔۔ انہیں معلوم ہوگا کہ شاعری کہتے کسے ہیں ۔۔ابھی کلام سنانے کی ابتدا بھی نہیں کی تھی کہ حاظریں سے ایک آواز آئی واہ واہ ،،کیا شعر کہا ہے ،حالانکہ ابھی میں نے شعر کہا بھی نہیں تھا ،،بعد میں پتا چلا کہ اتنی خوبصورت داد سے نوازنے والے شخص استاد محترم صاحبزادہ نعیم چشتی تھے ،،شعر سنانے سے پہلے ملنے والی داد کلام سناتے ہوئے ملتی تو دل کو ٹھنڈک پہنچتی لیکن ندادر،،،،،خیراپنا کلام سناکر جب واپس اپنی نشست پر آیا تو ساتھ بیٹھے ایک شخص نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کہا ،بیٹا ،،میں متوجہ ہوا تو کہا آپکے کلام میں تخیل اچھا ہے لیکن کسی استاد سے اصلاح بھی لے لیا کرو ۔کلام میں وزن آئے گا ،،،مجھے حیرانگی ہوئی کہ یہ کون ہیں جو غالب کے استاد کو اصلاح لینے کے لئے کسی کی شاگردی میں جانے کا مشورہ دے ر ہے ہیں ،،جس نے اسد اللہ خان کو مرزا غالب بنایا وہ اب کسی کی شاگردی کرے ،،،،،یہ کیسے ہو سکتا ہے ،،،غصہ تو بہت آیا مگر ظبط سے کام لیا ،میں نے جوابا کہا سر آپ کا نام ،،جواب آیا خوشی محمد طارق،،، سر میں تو آپ ہی کی تلاش میں تو آیا ہوں ،مجھے شاعری کے دورے پڑہ رہے ہیں علاج چاہتا ہوں ،،اس پر خوشی محمد طارق صاحب مسکرائے اور کہا بیٹے یہ جھٹکے نہیں آپ کے اندر کا انسان علم کا متلاشی ہے اور یہ اچھی علامت ہے ،،لکھتے رہو آپ اچھا لکھ سکتے ہو ۔۔ان کا انداز گفتگو اتنا شریں اور مشفقانہ تھا کہ غالب کے استاد ہونے کا خیال حرف غلط ہوا اور اس دن سے علم و ادب کے طالب علم کی حیثیت سے کاغذ سیاہ کرتے جا رہا ہوں ،،،،،
خوشی محمد طارق گلگت بلتستان کے آسمان ادب کے وہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں جن کی روشنی سے سینکڑوں طالبان علم وادب مستفید ہو چکے ہیں ،خوشی محمد طارق ایک شخص کا نام نہیں ایک علمی تحریک اور ایک مشن کا نام ہے ۔خوشی محمد کی شاعری محروم او مجبور طبقے کی زندگی کا احاطہ بھی کرتی ہے اور انکے جذبات کی ترجمانی بھی ،۔۔۔خوشی محمد اگر اس ایک غزل کے بعد مزید شاعری نہ بھی کرتے تو ان کی شہرت و عزت کے لئے کافی تھی ،،،،
لہروں نے ہمیں زیست کی جینے سے نکالا پھر بھی نہ تجھے دل کے سفینے سے نکالا میں وقت کا منصور نہ تھا پھر بھی جہاں نے سولی پہ مجھے عشق کے زینے سے نکالا جلتا ہے امیروں کے چراغوں میں ازل سے مزدور نے جو تیل پسینے سے نکالا
گلگت بلتستان کے اس خوبصورت ،منفرد لہجے کے حامل اور محروموں کے جذبات و احسات کو شاعری کی خوبصورت پوشاک پہنانے والے شاعر کی زندگی بھی جہد مسلسل سے عبارت ہے ،،،،عہد شباب میں پولیس کی وردی ملبوس کی ،،،، ایک عرصے تک ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز رہے ،،،شاعری کے پھول برسا کر گلشن کو مہکانے والے شاعر کے بس میں نہ تھا کہ مجرموں پر چمڑے کے ہنٹر برساتے ۔۔۔۔ایک دن پولیس کی ملازمت کو بھی خدا حافظ کہہ دیا ،،،ابھی آرام کے دو پل بھی نصیب نہیں ہوئے تھے کہ علاقے کے عوام نے ان کو سیاست کے گھوڑے پر بٹھا کر دشت سیاست کے سفر پر رواں کر دیا ،ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن منتخب ہوئے ،دن رات عوام کی خدمت میں مگن رہے ۔۔۔۔۔۔۔ اندر سے سچ اور محبت کے جذبات سے مزئین اس شاعرکا دل بہت جلد سیاست کی مکاریایوں اور دغا بازیوں سے اچاٹ ہو گیا یوں سیاست سے بھی کنارہ کش ہو کر صرف شاعری اور صحافت کو پیارے ہو گئے۔۔۔۔۔ وہ دن آج کا دن خوشی محمد طارق قلم قرطاس کے عشق میں ایسے مبتلا ہیں کہ ایک طرف شاعری کے میٹھے چشمے جاری ہیں تو دوسری طرف صحافت کا علّم اٹھائے گلگت بلتستان کے عوام کو علم و آگہی کی منزلوں سے آشنا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
خو شی محمد طارق نے ایک طویل عرصے تک پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے گلگت بلتستان سے بہت ہی جاندار رپوٹنگ کی،گزشتہ کئی برسوں سے ریڈیو پاکستان میں نیوز کے شعبے سے وابستہ ہیں ،گلگت بلتستان میں ایف ایم ۹۹ کے اولین کنٹرولر کی بھی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں ،،گلگت بلتستان اور ملکی اخبارات کے لئے سینکڑوں کالم بھی لکھ چکے ہیں ،،،،ان کی صحافتی تاریخ اور کارنامے اس قدر طویل ہیں کہ اس مختصر تحریر میں احاطہ ممکن نہیں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بظاہر خاموش طبع اور حلیم خوشی محمد طارق کے سینے میں علم و عرفان کے سمندر موجزن ہیں ،ان کے اندر علم و ہنر کی لہریں اٹھتیں ہیں تو کھبی شاعری کی صورت اختیار کرتیں ہیں اور کھبی صحافت کی پوشاک پہنے روشنیاں بکھیرتیں ہیں ،،،ان کی شاعری کی دو کتابیں ۔۔پلکوں کے سائباں ۔۔اور خواب کے زینے ،، منظر عام پر آکر کامیابی و کامرانی کی سندیں حاصل کر چکی ہیں ،،،،عا شقان علم و ادب کے لئے وہ سب کچھ ان کتابوں میں مل سکتا ہے جس سے ان کے جذبات اور احساسات کو تازگی ملتی ہے ،،،،،،،،،،،،خوشی محمد طارق صرف ایک بلند مقام کے شاعر اور صحافی ہی نہیں ایک درد دل رکھنے والے خوبصورت اور حساس دل کے مالک بھی ہیں ،،نشست و برخاست ،انداز گفتگو میں ایک محبت کرنے والے انسان کی جھلک نمایاں ہے ،ایسے علم و ہنر کے علم بردار معاشروں کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ زندہ معاشرے اپنے محسنوں کو عزت و احترام ان کی زندگی میں ہی دیتے ہیں ،ہم اس عظیم شاعر ،صحافی اور کالم نگار کی علمی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔