کالمز

شعر میں کیسے بیاں ہو داستانِ کربلا

 شجا ع بلتستانی

محرم الحرام کا میہنہ پورے عقیدت و احترام سے دُنیا بھر کے حق پرست اور حق کے مُتلاشی منا رہے ہیں کوئی مجلس عزاء کے زریعے تو کوئی تبرکات کا اہتمام کرکے کوئی سینہ کوبی کرکے تو کوئی عزاداروں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے سکیورٹی خدمات سر انجام دے کر ۔کہیں شعر کہ کر تو کہیں نثری تحریروں کے زریعے انسانیت کے مُحسن حضرت امام حُسین ؑ اُن کے باوفا آل و اصحاب کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں۔کیوں نہ کیا جائے اور کیوں نہ منا یا جائیے خود محرم الحرام کا معنی و مفہوم اس بات کا متقاضی ہے کہ اس مقدس و متبرک مہینے کا احترام رکھا جائیے۔محرم الحرام کے مقدس مہینے کے یوں تو بہت سارے فضائل ومراتب ہیں لیکن سب سے اہم اور تاریخی مرتبہ اس مہینے کو اس لئے حا صل ہے کہ حُضور پُر نور کے نور عین نواسے حضرت امام حُسین ؑ نے سنہ 61ھ میں اپنی اور اپنے باوفا آل و اصحاب کی قربانی انسانیت کی بقاء کے لئے اُس وقت پیش کی جب یزید فاسق و فاجر حلال مُحمد کو حرام اور آپ ﷺ کے حرام قرار دیے ہوئے کو حلال میں بدلتے ہوئے انسانیت پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کرنا چاہتا تھا اس سلسلے میں وہ آپ سے تحریری بیعت لے کر اپنی خباثت بھری خواہشات کی تکمیل بھی چاہتا تھالیکن آپ ؑ نے حبیب خدا،نورِ مجسم اور مدینتہ العلم اور اُن کے جانشنین و بابُ العلم سے تربیت حاصل کی تھی آپ نے اُس وقت ایک تاریخی جواب یزید کو بیعت لینے کے جواب میں دیتے ہوئے کہا کہ مجھ جیسا تم جیسے کی بیعت کیسے کرسکتا ہے۔ امام عالی مقام اگر چاہتے توآغاز بیعت طلبی میں ہی جنگ و جدل کے زریعے یزید کے تخت و تاج کو تاراج کرسکتے تھے اور یزیدیت کو ملیامیٹ کر کے رکھ سکتے تھے لیکن امام معصوم کو خالق کائنات کی طرف سے حُلم کچھ اور تھا اور اپنے نانا کی اُمت کے لئے صبرو ستقامت،قربانی اور اتحاد کا درس دینا تھا اسی لئے تو اُنہوں نے مدینہ چھوڑتے وقت ہی کہاتھا کہ میں اپنے نانا رسول خداﷺ کی اُمت کی اصلاح کے لئے کربلا کی طرف رواں دواں ہوں میں انسانیت کی بقاء چاہتاہوں جبکہ یزید اپنی دنیوی خواہشات کی تکمیل کے لئے انسانیت کاخاتمہ ۔ 

بقاء نسل بشریت کی بات تھی ورنہ
حُسین ؑ عرشِ ہلاتے شہنشاہی کیا تھی

معرکہ کربلا در حقیقت حق وباطل کے درمیان فرق کو واضح کرنے کا نام ہے چونکہ امام حُسین ؑ کے پاس ظاہری طور پر جنگ و جدل کا ساز و سامان اور افرادی قوت نہیں تھا لیکن حق کے راہیوں کے لئے افرادی قوت اور جنگ وجدل کے ساز وسامان کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ امام حُسین ؑ اور اُ ن کے باوفا آل و اصحاب نے اکسٹھ ہجری کے معرکہ حق و باطل میں تلوار پر خون کو فتح دے کر واضح کردیا کہ مجھ جیسے میں اور یزید جیسے میں کتنا فرق ہے اور کیا فرق ہے۔اج دُنیا کا ہر حق پرست اورمظلوم و مستضعف امام عالی مقام کو اپنا نجات دہندہ مانتا ہے اور یزید کا کوئی نام لیوا نہیں حضرت جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ

انسا ن کو تو بیدار ہو لینے دو
ہر قوم پُکارے گی ہمارے ہیں حُسین 

صدیاں گُزر یں ہیں کربلا پر تحقیق و تحریر جاری ہے نثر ،نظم ، مجالس،جلوس اور عقیدتوں کے سینکڑوں طریقے جاری ہیں دُنیا کا کوئی ایسا مقام نہیں جہاں اما م حُسین ؑ کو سلام عقدت پیش نہ کیا جارہاہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ معرکہ کربلا کل ہی رونما ہو ا تھا اور اُس پر ابھی بہت کچھ تحقیق و تحریر باقی ہے یعنی محبت امام حُسین و آل واصحاب حُسین کی تشنگی ابھی باقی ہے بقول ڈاکٹر انور مسعود 

دل میں رہ جائیں لاکھوں حسرتیں اظہار کی
خامشی ہونٹوں پہ انکھوں میں نمی رہ جائے گی

شعر میں کیسے بیاں ہو داستانِ کربلا
لاکھ مضموں باندھ لیجئے تشنگی رہ جائے گی 

امام حُسین ؑ سے محبت عقیدت اور چاہت کا تقا ضا ہے کہ مقصد قربانی امام عالی مقام کو پیشِ نظر رکھا جائے اورامر بالمعروف اور نہی عنِ مُنکر کو اپنی زندگی کا نقطہ نظر قرار دیا جائے۔امام حُسین ؑ کا کوئی عقیدت مند تعصبات،تفرقات اور دیگر بُرائیوں کا شکار نہی ہو سکتا کیوں کہ یہ صفات تو یزید کی ہیں جس پر کوئی یزید کا چاہنے والا ہی عمل پیرا ہوسکتا ہے۔حُسین ؑ ابن علیؑ تو حق و صداقت،عدل و انصاف،صبر و استقامت اور پیار و محبت کا عملی نمونہ تھے اور اُسی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا وگرنہ کُرسی اور اقتدار امام عالی مقام کی جوتی کی نوک پر تھیں ۔ اگر یزید کی بیعت ہی کر لیتے تو سب کچھ حاصل کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا کیوں کی دُنیاوی خواہشات کو تو اُن کے بابا امیر المومنین حضرت امام علیؑ نے ٹُھکراتےہوئے فرمایا تھا کہ میں نے دُنیا کو کئی بار طلاق دیا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button