کالمز

زلزلہ متاثرین کی امداد اور سابق صوبائی حکومت

اسلام آباد سے ایک دوست کی کال تھی، رسمی علیک سلیک سے فراغت کے فوری بعد وہ اچانک کلمہ گو ہوئے اور کال کٹ گئی۔اتنے میں سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا کولیک بھی دفتر سے بھاگ اٹھا اور مجھے بھی آوازیں دینے لگا کہ زلزلہ آیا ہے جلد بھاگ جا۔ظاہری بات ہے ہنگامی صورتحال میں ہرایک کو اولین فرصت میں اپنی ہی جان کی فکررہتی ہے‘لہذا میں بھی فوراً دفتر سے نکل کر باہر صحن میں آیا تو سارا سٹاف یک زبان ہوکر کلمہ ورد کررہا تھا جبکہ آس پاس کی دیواریں اور پہاڑوں سے پتھرگرنے کا عمل جاری تھا اور یہ عمل کافی دیرتک جاری وساری رہا۔ زلزلہ کی شدت اور خوف کے باعث رات تک پریشانی اور اضطراب کی کیفیت میں سرچکرا رہاتھا لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم کہ8.1میگنی ٹیوٹ شدت کے اس خوفناک زلزلے سے انسانی جان ومال کو نقصان نہ ہونے کے برابر رہا۔اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ زلزلہ زمین سے196کلومیٹر گہرائی میں برپا ہوا جس سے نقصانات بہت کم ہوئے۔ 

بچپن میں بڑوں سے سناکرتے تھے کہ زمین کے نیچے ایک بہت بڑا بیل رہتا ہے جس نے پوری زمین کو اپنے سرپر اٹھا رکھا ہے‘ جب وہ بیل کروٹ بدلنے کے لئے ادھر ادھر حرکت کررہا ہوتا ہے تو اس سے پوری زمین ہل جاتی ہے ‘جسے زلزلہ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کی یہ تھیوری ایک وقت تک زہن میں نقش رہی پھر سکول میں اساتذہ نے زلزلہ کے سائنسی وجوہات سے متعلق شعور دیا تو گھریلوے تھیوری زہن سے اترگئی۔خیر تھیوری جوبھی ہو‘ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی ومنشاء کے بغیر کرہ ارض پر کیا کوئی شے حرکت کرسکتی ہے؟ بس یہی تھیوریز ہیں جن پر یقین رکھتے ہوئے انسان بسا اوقات قدرت کے کرشموں سے بھی غافل ہوجاتا ہے اور معمول کی زندگی میں رونما ہونے والی ہر تبدیلی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرنے میں سرگرداں رہ جاتا ہے۔

اسی حوالے سے ایک شعر

زلزلہ کے چند گھنٹے بعد موبائل فون پرایس ایم ایس کے زریعے درجنوں بار موصول ہوا جو کچھ اس طرح تھا:

مصروف تھے سب اپنی زندگی کی الجھنوں میں

زرا سی زمین کیا ہلی ،سبھی کو خدا یاد آگیا

زلزلہ کے روز رات گئے تک بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث ہرطرح کی اطلاعات سے بے خبررہنا پڑا۔ صبح اخبارات کی وساطت سے معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان میں بھی زلزلہ سے کافی نقصانات ہوئے‘ جس میں ایک درجن سے زائد انسانی جانوں کا ضیاع اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات شامل تھیں۔شکر ہے کہ اس مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا حکومتی ادارہ گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی(جی بی ڈی ایم اے) اور انتظامیہ پہلے کی نسبت زلزلے سے ہونے والے نقصانات کی تفصیلات اکٹھا کرنے اور میڈیاکو بروقت انفارمیشن کی فراہمی میں خاصا متحرک نظر آیا۔

حکومتی سطح پر بھی زلزلہ متاثرین کی امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کے حوالے احکامات جاری کرنے میں بھی کوئی دیر نہیں لگی۔صرف یہی نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر گورنر گلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر بھی اگلے ہی روز گلگت پہنچتے ہی وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے ہمراہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کے دورے پر روانہ ہوئے۔ اس دوران دونوں حکومتی ذمہ داران نے گلگت،دیامر اور غذر

میں زلزلے کے باعث ہونے والے نقصانات کا بغور جائزہ لیا اور ہسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت بھی کیں۔

رات کو ٹیلی ویژن پر وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن زلزلہ متاثرین کے لئے حکومتی پیکج کا اعلان کرکے وفاقی حکومت پر بھی بازی لے گئے‘ جس میں انہوں نے زلزلہ کے دوران جان بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے لئے پانچ پانچ لاکھ،زیادہ زخمی ہونے والوں کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ جبکہ معمولی زخمیوں کو ایک ایک لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا۔جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کے لئے اسی طرح کے امدادی پیکج کا اعلان دو دن بعد وزیراعظم نواز شریف نے خیبرپختونخوا کے دورے کے موقع پر پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں کیا۔ اطلاعات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے)،ہلال احمر پاکستان سمیت دیگر امدادی اداروں کی ٹیمیں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں ریلف کے کاموں میں سرگرم عمل ہیں‘ جس میں زخمیوں کی طبی مراکز تک منتقلی، متاثرین کے لئے خیمہ بستیوں کا اہتمام،خوراک اور دیگر بنیادی اشیاء کی فراہمی اور مختلف مقامات پر زلزلہ کے باعث منقطع سڑکوں کی بحالی کاکام سرفہرست ہے۔

گزشتہ کئی عشروں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ جس میں حکومتی سطح پر قدرتی آفت کے متاثرین کی مدد کے سلسلے میں کسی قسم کی بھی بیرونی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ورنہ سابقہ ادوار میں تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے قدرتی آفات کے متاثرین کے نام پر آنے والی بیرونی امداد پر بھی ہاتھ صاف کرلیا تھا۔ جس کی مثالیں گلگت بلتستان میں سال2010کے سیلاب اور سانحہ عطاآباد کے تاثرین نام پر عالمی بینک،یو ایس ایڈ اور دیگر اداروں کی جانب سے آنے والی خطیر رقم میں پیپلزپارٹی کی سابق صوبائی حکومت کی جانب سے مبینہ گھپلوں سے مل جاتی ہیں۔

اس وقت کی صورتحال بھی گزشتہ دنوں کے زلزلے سے مختلف نہیں تھی مگر بیش بہا امداد ملنے کے باوجود سابق صوبائی حکومت اصل متاثرین تک ان کا حق پہنچانے میں یکسر ناکام رہی۔ صرف نام ہی نہیں بلکہ’’ الٹا چور کتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق سابق صوبائی حکومت کی ایماء پر سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ اور ان کی کچن کابینہ کے ارکان کے دورہ ہنزہ کے موقع پر اپنے حق کے لئے آواز بلندکرنے والے غریب متاثرین پر گولیاں برساکر جمہوریت کے نام پر کاری ضرب لگادی گئی اور حق مانگنے کی پاداش میں گلگت بلتستان کے معروف حق پرست رہنما کامریڈ بابا جان وساتھیوں پر انسداد دہشت گردی کے نام نہاد مقدمے درج کرکے انہیں آج تک پابند سلاسل رکھا‘ جسے تاریخ پیپلزپارٹی کے ان نام نہاد حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کریگی۔

شائد پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے سابق حکمرانوں کی انہی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہو تب ہی تو انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد علاقائی سطح پر مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاری کے دوران بھی خاصی پھرتی دکھائی اور اپنے اعلان کے تحت متاثرین تک ان کا حق پہنچانے میں کسی قسم کی بھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔اسی جذبے کے تحت انہوں نے زلزلہ زدگان کی امدادوبحالی کا بھی بیڑا اٹھایا ہے جوکہ امید کی جاتی ہے کہ احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا۔کیونکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومتی بھاگ دوڑ سنبھالنا محض عیش وعشرت کانام نہیں بلکہ اصل معنوں میں تو یہ عوامی خدمت کانام ہے اور اس خدمت میں اگر تھوڑی سی بھی غفلت اور لاپرواہی سے کام لے تو اگلے پانچ سال بعد ان کا حشر بھی پیپلز پارٹی جیسا ہی ہوسکتاہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button