کچھ ذکر فیض کی بذلہ سنجی کا
اردو کے مقبول شاعر فیض احمد فیض کی 31ویں برسی کے موقعے پر لاہور میں منعقد ہونے والے پہلے فیض فیسٹیول کے دوران ان کے فن اور زندگی کے بارے میں کئی معلوماتی سیشن منعقد کیے گئے۔
ان میں سے ایک سیشن میں معروف شاعرہ زہرہ نگاہ نے حاضرین کو فیض کی زندگی کے کچھ بےحد دلچسپ واقعات سے آگاہ کیا۔ یاد رہے کہ فیض خود ساختہ جلاوطنی کے زمانے میں لندن میں زہرہ نگاہ کے ہاں ٹھہرے تھے۔
ایک بار ایک شخص نے دروازے پر آ کر گھنٹی بجائی۔ میں نے کہا کہ فیض تو گھر میں نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا، ’فیض آپ کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن لگتا ہے کہ آپ ان کا خیال نہیں رکھ رہیں، روز بروز کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‘
میں نے کہا ’نہیں میں تو خیال رکھ رہی ہوں۔‘ انھوں نے ایک لفافے سے بسکٹوں کے دس بارہ ڈبے نکالے اور کہا کہ ’یہ لیجیے، ان میں سے ہر روز انھیں چار پانچ بسکٹ کھلا دیجیے گا۔‘ میں نے ان سے پوچھا، ’آپ شاعر ہیں؟‘ کہنے لگے ’توبہ کریں جی، میرا شاعری سے کیا تعلق؟‘ ’تو پھر آپ کو فیض کی صحت میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟‘
’اصل میں بات یہ ہے جی کہ میں بھی سیالکوٹی ہوں، اس حوالے سے وہ میرے گرائیں ہوئے۔ آخر ہم ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا؟‘
ایک بار مجھے اور میرے شوہر ماجد کو کہیں سے دعوت کا بلاوا آیا۔ شوہر نے کہا کہ ’فیض کو بھی لے چلتے ہیں۔‘ فیض چونکہ مدعو نہیں تھے، اس لیے میں جھجھک رہی تھی کہ وہ اصول کے پکے ہیں، انکار نہ کر دیں۔ آخر ان سے پوچھ لیا۔ کہنے لگے، ’بھئی اصول سیاست میں ہوتے ہیں، مذہب میں ہوتے ہیں، کھانے میں کہاں سے اصول آ گئے، چلو۔‘
فیض جیل کے زمانے کی تکالیف نہیں سنایا کرتے تھے۔ ایک بار پوچھنے پر بتایا کہ ’ایک دن قیدِ تنہائی کے دوران کمرے کے نیچے سے کھانے کے پلیٹ آئی تو اس کے ساتھ سگریٹ کی ڈبیا کا گتہ اور پنسل پڑی تھی۔ میں نے اس پر چند اشعار لکھ کر اسے دروازے کے نیچے سے کھسکا دیا۔ اگلے دن پھر یہی ہوا، اور پھر اکثر ایسا ہونے لگا۔
جب میں رہا ہوا تو جیل کے ایک محافظ نے مجھے ربر بینڈ سے بندھا ہوا گتوں کا ایک پلندا دیا، جس پر میرا خاصا کلام درج تھا۔ تو جب ایسے اچھے واقعات ہوئے ہوں تو پھر بری باتوں کو دوسروں سے بانٹنے کا فائدہ؟
ایک دن فیض سے ملنے کے لیے ایک صاحب آئے۔ فیض حسبِ عادت سگریٹ سے سگریٹ سلگا رہے تھے۔ انھوں نے جیب سے کیلکولیٹر نکال لیا اور فیض سے پوچھا، ’آپ دن میں کتنے سگریٹ پھونک جاتے ہیں؟‘ فیض نے بتایا۔
’کب سے پی رہے ہیں؟‘ پھر حساب لگانے لگے اور بولے ’صاحب آپ اب تک تین لاکھ 57 ہزار پانچ سو روپے کے سگریٹ پھونک چکے ہیں۔ سوچیے کہ اگر آپ کے پاس یہ پیسے ہوتے تو ان سے کتنے کام نمٹ سکتے تھے۔‘
فیض نے کہا، ’بھئی یہ تو اچھا ہے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، ورنہ یہ سوچ سوچ کر کتنی کوفت ہوتی کہ آخر انھیں خرچ کہاں کریں؟‘
ایک بار فیض نے کہا کہ وہ ایک نکاح پڑھانے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا، ’فیض صاحب، آپ اور نکاح؟‘ فیض بولے، ’کیوں بھئی، ہم نکاح کیوں نہیں پڑھا سکتے، آخر ہم نے عربی میں ایم اے کر رکھا ہے۔‘
خیر، ہم لوگ تقریب میں گئے۔ فیض نے کہا، ’دولھن بی بی آپ کو یہ صاحب بطور شوہر قبول ہیں؟‘ انھوں نے کہا ’جی۔‘ پھر فیض دولھے کی طرف مڑے۔ ’آپ کو یہ خاتون بطورِ بیوی قبول ہیں؟‘ انھوں نے بھی کہا ’جی۔‘
فیض نے کہا، ’حاضرین آپ گواہ رہیے۔‘ اور پھر سب کو مبارکباد دینے لگے۔ میں نے کہا، ’فیض صاحب آپ نے تو کچھ پڑھا ہی نہیں؟‘ انھوں نے کہا، ’بس یہی ہوتا ہے نکاح۔ ہمارا نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا تھا، اس میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔‘
میری عادت تھی کہ فیض صاحب کو صبح ناشتہ کروا کر ہائیڈ پارک سیر کو چلی جاتی تھی۔ ایک دن صبح صبح ایک خاتون کا فون آیا کہ فیض سے ملنے کے لیے آ رہی ہیں۔ آواز ایسی کہ شہد سے میٹھی۔ فیض نے کہا، ’آپ بےشک سیر کو چلی جائیں۔‘ میں نے کہا، ’نہیں مہمان کو چائے پانی دے دوں تو چلی جاؤں گی۔‘
اتنے میں وہ خاتون آ گئیں، ان کے بارے میں صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ شکل آواز کے بالکل برعکس تھی۔ میں نے انھیں چائے دی تو دیکھا کہ فیض کے چہرے پر خلافِ عادت کدورت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ اتنے میں فیض یکایک اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، ’آپ دونوں خواتین آپس میں باتیں کریں، میں ذرا پارک میں سیر کر کے آتا ہوں۔‘