پاک چین دوستی میں برابری
تحریر: قاسم شاہ
کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے، کہنے کو تو یہ جملہ بہت اچھا لگتا ہے مگر حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے یہ نعرہ پا کستان کے ان لیڈروںِ، لوگوں کے لئے ہے جو اسلام آباد سے چین کے سر کاری مہمان بن کر جا تے ہیں اور ان کے ۷ سٹار ہوٹلوں میں بیٹھ کر مختلف پروگراموں میں شر کت کرتے ہیں اور وہاں کے اداروں میں جا کر پا ک چین دوستی اور اکنامک کوریڈور کا لکچرز دیتے ہیں اور بڑی بڑی کمیٹیاں بناتے ہیں۔
کو ئی احسن اقبال کے سربراہی میں ہیں، کوئی مشا ہد حسین کے اورکوئی طلحہ محمود کے جو کہ اپنے ذاتی اور چین کے مفاد کے کام کر تے ہیں۔ اگر یہ حضرات پا کستان کے غریب عوام کے لئے کام کر تے تو اس وقت خنجراب کے راستے چا ئنا سے جو چھو ٹے کا روباری کام کرتے ہیں یا سیر و تفریح کیلئے جاتے ہیں ان کی بھی بارڈر پر چائنیزدوستوں جیسی عزت کرتے اورکسی دشمن ملک کے قید یوں جیسا سلوک نہیں کر تے۔
ان سطور کولکھنے کا مقصد پاک چین اکنامک کوریڈور کے لئے جہاں بڑے بڑے منصو بوں پر بات چیت ہو رہی ہیں وہاں پاکستان کے عام شہری کے عزت نفس کے با رے میں بھی بات ہو جو کہ چا ئینہ میں دوربین سے مشاہدہ کرنے پر بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اگر پا کستان کے کسی بھی شہری کوتجارتی راہداری یعنی خنجراب کے راستے چین جانے کا اتفاق ہوا ہو تو اس کو پتہ ہوگا، اگر نہیں گئے ہیں تو یہ تحریر ضرور پڑھ لیں۔
چین جانے کے لئے سب سے پہلے پاکستانی بارڈر کے قریب سوست میں آپ کو امیگریشن سے ایگزٹ ہو کر پا کستا نی گا ڈیوں میں سوار ہو کر روانہ ہونا پڑتا ہے جو کہ 3گھنٹے سفر کرنے کے بعد آپ خنجراب ٹاپ پر چین کے حدود میں داخل ہو جاتے۔ اس سے قبل آپ آزاد ہو، گاڑی روک کر نماز پڑھ سکتے ہو، وضو کر سکتے ہو، گاڑی سے اتر کر رفع حا جت کر سکتے ہو کیونکہ چین کے حدود میں داخل ہونے کے بعد آپ کے ساتھ الگ سلوک شروع ہوجا تا ہے۔ پاکستانی باڈر کراس کر کے خنجراب ٹاپ پر 16002فیٹ کی بلندی پر چین کا پہلا چیک پوسٹ آئے گا جہاں پہچنے کے بعد آ پ چین کے سیکیورٹی کے قید میں ہونگے اور تمام گاڑیوں کے سواری جب اتر نے کا اشارہ ملے گا تو اترو گے اور سیکیورٹی چیک پوسٹ کے کمرے میں داخل ہو جاوگے اور سب سے پہلے جو تے اتار کر مشین میں ڈالو گے پھر اپنا سامان۔ اس کے باوجود آ پ کا بیگ کھولا جایئگااورآپ کا موبائل فون یا لیپ ٹاپ ساتھ ہیں تو اس کو مکمل سرچ کرینگے۔ اس کے بعد آ پ کو بھی مشین میں ڈالا جا ئیگا۔ اس دوران آپ کی گاڑی کو مشین سے گزارنے کو بھجوادیا جایئگا ۔گاڑی کلیر ہو کر آتے ہی آپ کو گاڑی میں سوار ہو کر ٹاپ کی سخت سردی میں دوسری گاڑیوں کے کلیر ہو نے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں گھنٹے لگتے ہیں۔ اس کے بعد آ پکو سیکیورٹی کے حصارمیں تاشقورغن روانہ کر دیا جا یئگا اور آپ کو راستے میں کیہں بھی ایک پل کیلئے بھی رکنے کی اجازت نہیں ہے ۔
تاشقورغن پہنچتے ہی آپ کو اتا رے بغیر گاڑی کو سپرے کیا جا ئیگا، پھر آپ کو امیگر یشن میں اتارا جا ئیگااور اس کے بعد آپ کے ساتھ وہی عمل دوبارہ شروع ہو گا جو چین کے بارڈرپہ پہچنے پر ہوا تھا اور مکمل تلاشی کے عمل سے اور سوال جواب سے گزرنے کے بعد آپ کو انٹری مل جا ئیگا۔ اگر بدقسمتی سے آپ کے گاڑی کے کسی بھی سواری کے سامان پر شک ہو جائے تو گاڑی میں سوار تمام سواریوں کے پاسپورٹ اٹھالئے جا ئینگے اورآپ کی روزانہ پیشی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگر کسی کے سامان پر شک ہوجائے اور وہ مسافر بھی کہہ رہا ہوکہ یہ سامان میرا ہے پھربھی گاڑی کے تمام سواریوں کو روک لیا جائے گا۔
گزشتہ دنوں6 افراد کو اس طرح15 دنوں تک روکا گیا جن کا روزانہ 4000 پاکستانی روپے کا بلا وجہ خر چہ ہو رہا تھا جب کہ سرکاری سطح پر ان کاکو ئی پرسان حال نہیں تھا۔ان کو سوست میں موجود مقامی امیگر یشن کے آفیسر عباس نے اپنی ذاتی اثر روسوخ سے آزاد کرایااور پاکستان روانہ کیا۔ اس کے بر عکس چین سے پا کستان آنے والے ہر شخص اور گاڑیوں کو پا کستان کے حدود میں داخل ہو نے کے بعد مکمل آزادی ہے وہ کہیں بھی رک سکتے ہیں اور سڑک کنارے بیٹھ کر چولہے اور دیگچے نکال کر کھانا بناکر کھا پی سکتے ہیں اور سوست پہنچتے ہی پاکستان کا امیگر یشن کا عملہ بغیر روک ٹوک ان کو پاکستان میں انٹری دیتا ہے۔اور ان کو واپسی میں بھی عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے جو کہ پاکستانی ہو یا چین کا ہر شہری کا حق بنتا ہے ۔
اگر پاک چین دوستی واقعی برابری کی بنیاد پر قائم ہے تو چینی بارڈر کے عملے کو پاکستانی مسافروں جن میں سیاح اور تاجر شامل ہوتے ہیں کو پاکستانی بارڈر سیکورٹی فورسز کی طرح احترام دینا چاہئیے۔ البتہ کوئی مجرم پاکستان سے چین پہنچے تو اس کے ساتھ بیشک وہی سلوک کرے جو کسی بھی مجرم کے ساتھ چین کے قانون کے مطابق ہونا چاہئیے جس پر کسی بھی پاکستانی شہری کو اعتراز نہیں ہوگا۔ عام شہریوں کے ساتھ قیدیوں والا سلوک نہیں کرنا چا ہیے۔
وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو پا ک چین مذاکرات میں شامل کمیٹیوں کو بھی اس حوالے سے خصو صی ہدایات دینے کی ضرورت ہے تاکہ دوستی برابری کے بنیاد پر چل سکے ۔