پی پی پی کی کہانی اور سیاسی جماعتوں کی اہمیت
علم عمرانیات ایک معاشرے کو چھ اداروں میں تقسیم کرتا ہے ۔ ان میں سے سیاست ایک اہم ادارہ ہے ۔ سیاست میں بنیادی اکائی سیاسی جماعت ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعت ذاتی دکان یا جاگیر سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوری رویوں کو فروغ نہیں ملتا ہے اور سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہی سیاسی جماعتیں جب اقتدرا میں آتی ہیں تو ان کے پاس حکومت چلانے کے لئے ایک مضبوط ٹیم بھی نہیں ہوتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی اولین بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے ساتھ اس جماعت کی وابسطگی تاریخ میں نمایاں ہے۔ اس جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ماضی میں جتنے سیاسی اصلاحات گلگت بلتستان میں ہوئے وہ اس جماعت کے دور اقتدار میں ہوئے ہیں۔ ایف سی آر کے خاتمے سے لیکرپہلی دفعہ994 میں گلگت بلتستان میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد اور 2009 میں گورننس آڈر کے اجراء تک تمام اصلاحات کو پی پی پی گلگت بلتستان کی تاریخ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اس جماعت کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سال مر کز اور گلگت بلتستان میں اقتدار میں گزرانے کے باوجود اس دفعہ گلگت بلتستان اسمبلی کی صرف ایک ہی سیٹ میں اس کو کامیابی ملی ہے ۔ اس سیٹ نے انتخابات میں اس جماعت کا مکمل صفایا ہونے سے بچالیا ہے۔ یہ اس جماعت کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ جو کہ اس جماعت کی مرکزی قیادت کے علاوہ جمہوریت پسند قوتوں نے بھی محسوس کیا ۔ اس ناکامی کی وجوہات بہت ساری تھیں مگر سب سے بڑی وجہ پارٹی کی گذشتہ قیادت اور اس کا پانچ سالہ دور اقتدار تھا۔
مشرف دور میں اس جماعت کی جی بی اسمبلی میں چار سیٹیں تھیں اس وقت اس جماعت کی قیادت اور کارکن مایوس ہوئے اور کئی اہم لوگ اس پارٹی سے الگ ہوئے۔ چنانچہ پارٹی قیادت ان لوگوں کے پاس چلی گئی جن کے پاس حکومت چلانے کے لئے مطلوبہ تجربہ اور علم نہیں تھا۔
2009 میں اچانک نئے اصلاحات متعارف ہوئے اور ان لوگوں کو اقتدار ملا جن کو خود یہ اندازا نہیں تھا کہ یہ سارا خواب ہے یا حقیقت ۔ وہ لوگ خوشی سے پھولے نہیں سمائے اور اقتدار کے ہاتھ میں آتے ہی ذمہ داریوں کو فراموش کیا گیا اور موج مستیوں کامیلہ لگ گیا۔ پی پی پی کی اس حکومت کی بڑی خرابی یہ تھی کہ انہوں نے اتنے بڑے اصلاحاتی پیکیج کو سنجیدہ نہیں لیا۔ غیر سنجیدگی کے اس عالم میں ان تما م مراعات کی پر چار نہیں کی جا سکی جو اس پیکیج کی صورت میں جی بی کے عوام کو ملے تھے۔ حقیقت یہ تھی کی پی پی پی کی صوبائی قیادت نے خود ا س اصلاحاتی پیکیج کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ہر معاملے میں سطحی سوچ رکھتے تھے اور ہر سنجیدہ معاملہ مذاق میں ٹالنے اور خود کو وقت کا بادشاہ سمجھنے کا وطیرہ اپنا یا ہوا تھا۔ وگرنہ معاشرہ میں ایسے افراد موجود تھے جن کے نیک مشوروں سے بہتر طور پرحکومتی امور چلائے جا سکتے تھے۔ مگر خود کو عقل کل سمھنے والے وزیر اعلیٰ مہدی شاہ اور ان کی ٹیم اقتدار کے نشے میں مست تھی۔ بیرون ملک دوروں اور اسلام آباد میں شادیوں میں شرکت ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔
ادھر اس وقت کی اپوزیشن نے اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے بے باک بیانات اور تبصروں سے مقامی میڈیا میں اپنے لئے جگہ بنا لیا۔ مقامی میڈیا نے اس وقت کی اپوزیشن کی باتھوں کو بڑا وزن دیا کیوںکہ حکومت نے خود اس کا مو قع فراہم کیا تھا۔ حکومت کے پاس میڈیا کو سنبھالنے کی اہلیت والے لوگ نہیں تھے۔ حکومت کے تمام اچھے اقدامات منظر عام پہ نہیں آسکے ان کے مقابلے میں کرپشن اور نو کریاں بیچنے کی کہانیوں سے اخبارات بھرے ہوئے تھے۔ مگر صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ نہ تو کابینہ میں تبدیلی کی گئی اور نہ ہی کسی سے باز پرس کی گئی۔ عوامی شکایا ت کو مذاق میں ٹالا گیا۔ ان کے اپنے کارکن آئے روز نارض گروپ تشکیل دیتے تھے اور وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج ٹی اے، ڈی اے بنانے کے علاوہ کسی کام میں سنجیدہ نہیں تھے۔ کیونکہ جب ٹیم لیڈر خود غیر سنجیدہ تھے تو باقی افراد سے گلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حکومت مضبوط کرنے کے لئے زرداری فارمولا اپنایا گیا جس کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کر لیا گیا اور ان کو مراعات سے نوازا گیا۔ حالانکہ مر کز میں مجبوری کی وجہ سے دیگر جماعتوں کو اتحا د میں شامل کیا گیا تھا ۔ یہاں اس کے نقل اتارنے کے چکر میں مار کھا ئی گئی۔پانچ سالوں میں کار کر دگی دیکھانے کی بجائے دیگر جماعتوں کی ناز نخرے اٹھانے میں گزار دئیے گئے۔ پی پی پی کی مرکز میں قائم حکومت کی کار کر دگی بھی مایوس کن رہی جس کا پرچار نیشنل میڈیا میں ہوتا رہا ۔ لہذاگذشتہ پانچ سالوں میں پی پی پی کی صوبائی حکومت کی جو فائل عوام کے سامنے پیش ہوئی وہ انتہائی ناقص کا ر کردگی اور غیر سنجیدگی پر مبنی تھی۔ اور پھروہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ وگرنہ عوام میں اپنی مضبوط جڑیں رکھنے کی وجہ سے ضیاء اور مشرف کے دور میں زندہ رہنے والی یہ جماعت جس نے گلگت بلتستان کو ہمیشہ اولیت دی اور ہر دفعہ اقتدار میں آکر یہاں سیاسی نظام کو پہلے سے بہتر کرنے میں کر دار ادا کیا اس جماعت کو اتنی بری شکست نصیب نہ ہوتی۔
مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنھبالتے ہی اعلان کیا کہ انہوں نے پی پی پی کی بدترین شکست سے سبق سیکھا ہے لہذا وہ اب اس غیر سنجیدگی کا مظا ہرہ نہیں کر یں گے جو پی پی پی گذشتہ پانچ سالوں میں کرتی رہی ہے۔ یقینا مسلم لیگ نے پی پی پی کی ہر غلطی سے سبق سیکھا ہے اس لئے وہ پی پی پی کی گذشتہ حکومت کی نسبت زیادہ سنجیدہ نظر آتی ہے۔
مذکورہ صوتحال کے بعد پی پی پی کے سامنے دو راستے تھے ۔ یا تو پارٹی کو دفن ہونے دیا جاتا یا اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ہاتھ پیر مارے جاتے۔ لہذا بعد والا راستہ اپنایا گیا اور قیادت ایک متحرک نوجوان کارکن امجد حسین ایڈوکیٹ کو سونپ دی گئی۔ جنہوں نے اپنا عہدہ سنھبالتے ہی پارٹی کی تنظیم نو کے لئے کام شروع کر دیا ہے۔ پی پی پی کے کارکن پر امید ہیں کہ وہ نئی قیادت کی سربراہی میں پا رٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ زندہ کریں گے۔
جمہویت پسند لوگوں کو پی پی پی کی اس کسمپرسی پر اس لئے تشویش رہی ہے کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی نا کامی دراصل جمہوریت کی ناکامی ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی اپنی اہمیت ہے، چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا اقتدار میں۔ سیا سی جماعتیں مضبوط ہونگی اور ان میں جمہوری اصول رائج ہونگے تو معاشرہ میں جمہوری اقدار پنپ سکیں گے وگرنہ جمہوری نظام میں بہتری نہیں آسکتی ۔ حکومت بھی اس وقت تک اچھی حکومت نہیں کر سکتی جب تک اس کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کھڑی نہ ہو۔ کوئی سیاسی جماعت اگر یہ سوچ رکھتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ختم ہو جائیں اور ہم ہی زندہ رہیں تو ان کو سیاسی انتہا پسند کہا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو زندہ اور فعال رکھنا اس لئے اہم ہے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کے ایک اہم ادارے کی اکائیا ں ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ہی جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ سیاسی جماعتیں زندہ اس وقت رہ سکتی ہیں جب وہ جمہوریت کے اصولوں پر کاربند رہیں اور عوام کی خدمت کو اپنا اولیں فرض بنا لیں۔ سیاسی جماعتوں کو چائیے کہ وہ اپنے اندر میرٹ اور شفافیت کو بھی یقینی بنائیں کیونکہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہوتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں اپوزیشن اپنی ایک Shadow حکومت بنا کر بر سر اقتدرا جماعت کی کار کر دگی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آنے والے وقت میں حکومتی امور چلانے کی بھر پور تیاری کرتی ہے۔ اور یہی شیڈو حکومتیں ہی کل کی اصل حکومتیں ہوتی ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر کی جانے والی تیاری کل اقتدار میں کام آجاتی ہے۔ وقت کی برسر اقتدرا جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پی پی پی اپنی نئی قیادت کی سر براہی میں ایک مضبوط، فعال اور سنجیدہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔