کالمز

دہشت گردی اور حکومتی اقدامات

تحریر: جمدار خان داریلی

انسانوں میں جرائم کی کہانی آج کی بات نہیں اس کے تانے بانے تو ہابیل اور قابیل سے جا ملتے ہیں ۔ اور یہ جرائم خلقت کی بد اعمالی کے ساتھ بھی وابستہ ہے ۔ جرائم و بد اعمالی اور بد امنی سے صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہے۔ان جرائم کی روک تھام نہایت ضروری اور نا گزیر ہے۔بد قسمتی سے ان کا سد باب کرنے والے حقائق سے آنکھیں چُرا رہے ہیں ۔ جس کے باعث جرائم رکنے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جرائم کے بڑھنے اور پھیلنے میں چند عوامل کار فرما ہیں ۔ان عوامل میں سب سے پہلے انصاف کا نمبر آتا ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہے ان کا ترازو سیدھا نہ رکھنا بھی جرائم کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اخلاقیات کی پستی اور اخلاقی اقدار کا خیال نہ رکھنا اور دوسروں کی عزت و آبرو سے کھیلنا اور پامال کرنا۔ اسلامی تعلیمات سے نا وقفیت ، دھونس دھاندلی سے کسی کی ملکیت پر جبری قبضہ اور مذہبی لحاظ سے دوسروں کے مذہبی عقائد کے خلاف بے جا تنقید اور خلاف بولنا بھی جرائم کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں ۔

دیکھا جائے تو دہشت گرد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم دہشت گرد وں کی وہ ہے جو حکومت کے ساتھ بر سر پیکار ہیں ۔ان دہشت گردوں کے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ ان کے مسکن اور ٹھکانوں کے بارے میں حکومت کی اعلیٰ قیادت سے لیکر نچلی سطح کے اہل کاروں تک بخوبی علم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی حکومت ان پہ ہاتھ نہیں ڈالتی اس کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں ان وجوہات کا ذکر یہاں بے محل ہوگا۔

دیامر داریل کے حوالے سے بات کی جائے تو پچھلے دنوں دو انجینئرز کے اغوا کاروں کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے امن پسند شہریوں کو ہراساں کیا گیا اور جب تک اغوا کاروں نے اغوا کندگان کو واپس نہیں کیا عورتیں اور بچے خوف و ہراس میں مبتلا رہے جو سراسر حکومتی زیادتی ہے جس سے لوگوں کی ہمدردیاں حکومت کے بجائے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ زیادہ ہوگئی ۔ دہشت گرددوں کی دوسری قسم میں وہ افراد شامل ہیں جو بے چینی اور بد امنی پھیلانے میں دوسروں کے آلہ کار بنتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر علاقے میں ہر قوم کے اندر موجود ہوتے ہیں جو اندر سے جڑیں کاٹ رہے ہوتے ہیں حتیٰٰ کہ ان کی کار ستانیوں سے کمزور لوگ اپنے پنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو علاقے کے لئے ایک لعنت سے کم نہیں ایسے ہی لوگ قابل نفرت اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں ۔ایسے مجرموں کو بے نقاب اور ان کی پشت پناہی کرنے والے لوگوں کی سرزنش کرنے کے بجائے حکومت چشم پوشی سے کام لیتی ہے۔اور حکومت کا اندھے بہرے بننے کا صاف مطلب یہی ہے کہ ان کی دال روٹی کا بندوبست ان ہی کے کرم سے چلتا رہتا ہے ۔ اور اسی بلی اور چوہے کے کھیل میں ہر دوسرے دن علاقے میں حالات خراب ہو جاتے ہیں ۔ حکومتی عدم دلچسپی اور چھوٹ ہی جرائم کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔حکومت کے اس دوغلے پن کو دیکھتے ہوئے جب امن پسند لوگوں کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے تو وہ خود سے کاروائی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور جب کبھی ایسا ہو جاتا ہے تو حکومتی کارندے اصل حقائق جا ننے کی کوشش کے بجائے ان امن پسند اور مظلوم لوگوں کو ہی مجرم ثابت کرنے پر تل جاتی ہے۔ ۔عوام حکومت سے کیا چاہتی ہے ان عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت سب سے پہلے ایسے تمام مجرموں کی نشاندہی کرے اور ان شرپسندوں کو بے نقاب کرے جو حکومت کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر بغیر امتیاز کے امن پسند شہریوں کو دھمکائے بغیر اصل مجرموں کو قانون کے شکنجے میں لائے ۔تاکہ جرائم کے جراثیم معاشرے میں نہ پھیلیں ۔انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ قیادت کرسیوں سے چمٹے رہنے کے بجائے اپنے آپ کو متعلقہ علاقے کے حالات اور واقعات کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی روایات سے باخبر رکھے اور مظلوموں اور امن پسند شہریوں کی حالت زار دیکھ کر عدل و انصاف سے کام لے ۔اے کاش ہمار ارباب اقتدار سرکار دو عالم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ عدل و انصاف کیا ہوتا ہے جس کو آج سے چودہ سو سال پہلے آقائے دو جہاں نے دنیا کو دکھا دیا تھا۔

ایک دفعہ شہر مدنیہ کے کسی باغ میں ایک شخص مردہ پایا گیا جس کی خبر سرکار مدنیہ ﷺ کو ہوئی۔ اس قتل کی تحقیقات کے دوران رسول اکرم ﷺ نے باغ کے قریب رہنے والے قبیلے کے لوگوں سے کہا کے مردہ پائے گئے شخص کو اسی گاؤں کے کسی فرد نے قتل کیا ہوگا ۔سرکار دو عالم نے گاؤں کے لوگوں کو موقعہ فراہم کیا کہ آپس میں صلح مشورے سے مجرم کو بے نقاب کریں لیکن لوگ ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول نے گاؤں کے سب مرد حضرات پر اس بات پر قسم اٹھا نے کی شرط رکھی کہ یہ قتل آپ لوگوں سے سرزد نہیں ہوا ۔ سب نے قسم بھی اٹھایا پھر قاضی عالم ﷺ نے آخری فیصلہ سنایا۔کہ آپ سب کو مل کر مقتول کا دیت ادا کرنا ہوگا ۔رسول کریم ﷺ نے دیت وصول فرما کر مقتول کے ورثا کو ادا فرمایا۔ اگر حکومت علاقے میں امن و امان کی خواہاں ہے تو اسے امن کا طریقہ کار رسول خدا کی تعلیمات میں تلاش کرنا ہوگا جس نے ابو بکر، عمر عثمان و علی جیسے شخصیات کو ایک ہی دھاگے میں پرو دیا تھا۔ مگر افسوس صد افسوس آج کے حکمران طریقہ سلطنت کو ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے مصداق ہانک رہے ہیں ۔جس معاشرے میں قانون کی گرفت نہ ہو اور انصاف سے ماورا اقدامات اٹھائے جائیں اور جہاں کے حکمران عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی جیب بھرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہوں تو ایسے میں کسی کی داد رسی ہونے کا کیسے سوچا جا سکتا ہے

سہارا جو کسی کا ڈھونڈتے ہیں بحر ہستی میں
سفینہ ایسے لوگوں کا ہمیشہ ڈوب جاتا ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button