کوہستان: دیامر بھاشا ڈیم حدود تنازعہ،حتجاج چھٹے روز میں داخل، مظاہرین گلگت بلتستان سے راولپنڈی جانے والی مسافر بسوں کی کنوائے روزانہ ایک گھنٹے تک روک کر احتجاج ریکارڈ کروارہے
چلاس(بیوروچیف) کوہستان ، دیامر بھاشا ڈیم حدود تنازعہ پر بننے والے ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانے کے خلاف متاثرین ڈیم کا احتجاج چھٹے روز میں داخل ہوگیا۔ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ناکام، دیامر بھاشا ڈیم بائی پاس روڈ پر تعمیراتی کام بند کردیا گیا۔ واپڈا اور کنٹریکٹرز کو روزانہ کروڑوں روپے خسارے کا سامنا۔ مظاہرین روزانہ شاہراہ قراقرم پر آکر احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں جبکہ شاہراہ قراقرم پر احتجاجی کیمپ بھی لگادئے گئے ہیں ۔ گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت متاثرین ڈیم (کوہستان) کو دیوار سے لگانے کی کوشش کررہی ہے ، کمیشن کی رپورٹ کو دبانا متاثرین کی املاک واراضی جات پر قبضے کے مترادف ہے ، ترجمان ایکشن کمیٹی اسداللہ خان قریشی ۔
تفصیلات کے مطابق کوہستان کے صدرمقام داسو سے ستر کلومیٹر دوری پر زیرتعمیر دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین پچھلے چھ روز سے سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متنازعہ حدود پر قائم ایک رکنی کمیشن جو جسٹس تنویرپر مشتمل تھا رپورٹ تیار ہوکر حکام تک پہنچ گئی جسے گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت کی مداخلت سے دبایاجارہاہے جس سے متاثرین کی حق تلفی ہورہی ہے۔ ایکشن کمیٹی دیامر بھاشاڈیم کوہستان کے ترجمان اسداللہ خان قریشی نے ہربن میں احتجاجی کیمپ کے باہر میڈیا کو بتایا کہ دو سال سے مسلسل ہاتھ بندی اور حکومت سے گزارش کرتے آرہے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لایا جائے مگرحکومت وقت اور واپڈا دونوں قبائل کو آپس میں لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتےہے ۔ کمیشن کا جو بھی فیصلہ آئیگا وہ ہمیں منظور ہوگا ۔ انہوں نے میڈیا کے ذریعے حکام کو باور کرایا کہ جب تک کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاتی اُس وقت تک دھرنا جاری رہے گا اوروقت ضائع کرنے کی صورت میں شاہراہ قراقرم کو بلاک کرنے کا آپشن بھی موجود ہے ۔ جس کی تمام تر ذمہ داری وفاقی ، گلگت بلتستان حکومت اور واپڈا پر ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ رپورٹ رکوانے میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کوہستان اپر راجہ فضل خالق نے عملے کے ہمراہ مظاہرین سے ہربن کے مقام پرتین گھنٹے تک طویل مذاکرات کئے جو ناکام ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر نے مظاہرین کے جایز مطالبات کے حل کا یقین دلاتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا کہا جس پر مظاہرین آمادہ نہیں ہوے ۔ مظاہرین نے شاہراہ قراقرم کے کنارے احتجاجی کیمپ لگارکھا ہے، مظاہرین گلگت بلتستان سے راولپنڈی جانے والی مسافر بسوں کی کنوائے ہر روز ایک گھنٹے تک روک کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔ جس سے شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں بسوں اور دیگر گاڑیوں کی طویل لائن لگی رہتی ہے اور مسافر کوہستان اور گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے دامن میں پھنسے رہتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ متاثرین کو دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے لیکن تاحال کامیابی نہ مل سکی۔
دوسری طرف کے کے ایچ بائی پاس پر مظاہرین نے سڑک کی تعمیر رو ک دی ہے جس سے ٹھیکیدار اور واپڈا کو روزانہ کروڑوں روپے خسارے کا سامنہ ہے۔
واضح رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم حدود تنازعہ اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب2011میں واپڈا نے ڈیم کیلئے زمینوں کو خریدنے کیلئے نوٹس جاری کیا۔ تھور اور ہربن بھاشا کے قبائل کے مابین 2.8کلومیٹر کاعلاقہ جو گدولوں نالے سے بسری بیرئیر تک بنتا تھا متنازعہ قراردیا گیا۔ ڈیم کے دونوں اطراف پر موجود قبائل ہربن بھاشا اور تھور(گلگت بلتستان ) کے مابین بات کشیدگی تک بڑھ گئی اور دونوں اطراف کے قبائل میں 2013میں خونریز تصادم ہوا،جس کے نتیجے میں چارافراد جاں بحق اورسات زخمی ہوگئے تھے۔ بعدازاں تھور کے قبائل نے تنازعے کو مذید بڑھایا اور گلگت بلتستان انتظامیہ کی ٹھوس وکالت کی بناء پر متنازعہ علاقہ 2.8سے بڑھاکر 8کلومیٹر تک کردیا جس میں آر پار کے دونوں اطراف کے طویل پہاڑی سلسلے سمیت شاہراہ قراقرم کا وسیع رقبہ بھی شامل ہے ۔ قبائل کے مابین تصادم اور اموات کے بعد اُس وقت کی حکومت نے متنازعہ علاقے کو رینجرز کے حوالے کرکے ایک رکنی کمیشن مقرر کیا جس کی رپورٹ تیار ہونے کے باوجود تاحال منظر عام پر نہ آسکی ہے ۔ ذرائع کے مطابق اس سال جولائی میں رپورٹ تیار ہوکر حکام تک پہنچی ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومت رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے کترارہی ہے ، جس کی وجہ سے ہربن اور بھاشا کے قبائل ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور احتجاجی کیمپ لگاکرنئی تحریک کا آغاز کرچکے ہیں ۔