گلگت بلتستان ، شاہراہ قراقرم، اورکانوائے ۔۔۔۔۔۔۔اور کتنے امتحان مقصود ہیں؟
محمد الكوهستاني
اس میں شک نہیں کہ برفیلے کہساروں ، بہتے جھرنوں ، رواں دریاوں ، خوبصورت جھیلوں ، چٹکتے غنچوں ، مہکتی کلیوں ، چہکتی بلبلوں ، خوش ذائقہ اور رسیلے پھلوں ، کی سرزمیں ” گلگت بلتستان ” واقعی ” عالم میں انتخاب ” سے کم نہیں ، جہاں کی وادیوں پر کھبی حسن وجمال کاڈیرہ ، اور محبتوں کا بسیرا ہے ، جہاں کی رعنائی کو کوہ قاف کی پریاں بھی رشک بھری نگاہوں سے تکا کرتی ھیں، اور شعراء اپنی شاعری کیلئے یہاں سے استعارے تلاش کرتے ہیں، ارباب محبت ،عشق کی گہرائی کیلئے یہاں کے پانیوں سے تعبیر ، اور اپنی جان جانا ں کے خدوخال کے حسن وجمال کی منظر کشی کیلئے یہاں کے گلستانوں کا استعارہ لیتے ہیں ، اور اگر وفا اوراخلاص کی بے مثالی ، عزائم کی بلند ی بتلانا مقصود ہو تو اس کی بے مثال تشبیہ ہمالیہ ، ہندوکش ، ننگاپربت ، راکاپوشی سے بہتر اور کیا ہوسکتی ہے ؟ وہ خطہ جہاں جب پو پھوٹتی ہے تو چیریوں کے درخت پہ بیٹھیں قمریاں ، انگور کی بیل پہ فروکش کوئلیں اپنی خوش الحانیوں سے آغاز سحر کرتی ہیں ، شبنم کے قطرے پھول کی ایک ایک پنکھڑی کا چہرہ دھوتے ہیں ، تو شام ہوتے ہی چلنے والی سرد مگر مشکبو ہوائیں اپنی خنکی کا احساس دلاتی ہیں ، جہاں کا ہر ہر منظر شاعرانہ ، اور رومانوی ، ہر ہر موڑ افسانوی اور تخیلاتی سا لگتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ دست قدرت کی فیاضی نے دونوں ہاتھ بھر بھر کے نوازا ہے ، گہرے مگر صاف پانی کے ذخیرے ، گلیشیئر ، سفید ردا اوڑھے پہاڑ ، معدنیات ۔۔۔۔۔غرض کیا کچھ نہیں اس کے دامن میں ۔ لیکن افسوس کہ اب یہاں پہ بے روزگاری ، غربت اور بد امنی جیسی بلاوں کا سایہ ہے ، آئینی مسائل اور مشکلات اس پر مستزاد ، اور تو اور اب اس کی طرف پابہ رکاب ہونے والا ہر مسافر اپنے متعلقین ، دوست احباب سے کہا سنا معاف کرواکے ہی چل پڑتا ہے ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شاہراہ قراقرم کے اس طویل سفر میں اگر کسی ” مقدس خونریزی ” کا نشانہ بن کر ” جام شہادت ” نو ش کر نے سے بچ بھی گیا تو انتہائی خستہ حال سڑک ، خوفناک موڑ ، گہری کھائیوں ، گرتے پتھر وں اور پھسلتی گاڑیوں سے کسی بھی وقت پالا پڑ سکتا ہے۔
بلند بانگ کہساروں کے سینے چیر کر بنائے جانے والی یہ سڑک ، جو کسی وقت دنیا کے آٹھویں عجوبہ کہلانے کے قابل تھی ، اب”موت کا کنواں ”، بن چکی ہے ، اس کی گنگ اور بے رحم چٹانوں کے منہ کو انسانی خون کا ایسا چسکا لگ گیا ہے کہ گاڑیوں کا الٹنا، سہاگوں کا اجڑنا، بچوں کا یتیم اور بوڑھوں کا سہارا چھین جانا ، یہاں روز کا معمول بن چکا ہے ، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ماں کے زیور اور غریب باپ کی زمین بیچ کر تعلیم مکمل کرکے ، نہ جانے کتنے سپنے آنکھوں میں سجائے آنے والا نوجوان ، یہاں سے گذرتے ہوئے اپنے ارمان ہی نہیں زند گی بھی ہار جاتا ہے ، مختلف محاذوں پر داد شجاعت دے کر ، دشمن سے بچ نکلنے والا فوجی جوان ، یہاں سے بخیر وعافیت گذرنہیں پاتا ، کسی اونچائی سے لڑھکنے والا پتھر، یاڈرائیور کی ذرا سی غفلت اس کو گھر کی بجائے آخرت کا سفر کرنے پر مجبور کردیتی ہے، پھر نہ معلوم اس کے معصوم بچے ، بوڑھے والدین ، اور اکلوتی دلہن کی نگاہوں کو اس کی لاش دیکھنا بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں ؟ بالخصوص سڑک کا وہ حصہ جو اپر کوہستان میں آتا ہے انہتائی انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، اور چیخ چیخ کے دہائی دیتا ہے انہی پتھروں پہ چل کے آسکو تو آو۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ معلوم نئے پاکستان کے علمبردار "کے پی کے گورنمنٹ” اس کو اپنا حصہ سمجھتی ہے یا نہیں ، حالانکہ اسی سڑک سے روزانہ کئی آفیسرز ، وی آئی پیز ، ارباب قلم گذرتے ہوں گے ، لیکن کسی کو یہ سانحات دکھتے ہیں ، نہ خراب سڑک !
اوپر سے کانوائے نامی مصیبت کی وجہ وہ سفر جو 14 – 15 گھنٹوں میں طے ہو سکتا تھا ، اب 26- 27 گھنٹے پر محیط ہوچکا ہے ، اور یہ درد اس وقت اور بھی سوا ہوجاتا ہے جب کسی بے آب وگیاہ لق دق صحرا میں گاڑیاں روک لی جاتی جاتی ہیں ، اور آنکھیں معصوم بچوں کو کلبلاتے ، خواتین کو بے بسی سے آنسو بہاتے دیکھتی ہیں ،پھر موقعہ اور مجبوری سے فائدہ اٹھا نے والے ” مفاد پرستوں کی چاند رات ہوتی ہے ، یہاں آکے ،اخلاق ، اسلام ، انسانیت کے سارے دعوے ہوا ہوجاتے ہیں ، اور ہر چیز کے دام دوگنے نہیں تین گنا بڑھ جاتے ہیں ، اور جن ہوٹلوں پہ گاڑیاں ٹھہرتی ہیں ، وہاں صفائی کا معیار انتہائی ناگفتہ بہ ، کھانے کا معیار انتہائی ناقص ، اور پرانا ، (اتناکہ طول عمر کی وجہ سے مکھیاں اس کھانے پر بھنبھناتے ہوئے بھی اپنی ہتک محسوس کریں )، لیکن قیمت کے لحاظ سے بہت زیادہ مہنگا ہوتا ہے ، چونکہ عموما وہاں قرب وجوار میں کوئی اچھا اور مناسب ہوٹل بھی نہیں ہوتا ، اور مسافروں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ، اس لیئے عوام مجبورا ایسے مضر صحت بلکہ قابل استعمال کھانے کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، آخر مریں کیا نہ کریں ؟ بھوک کی شدت ، موسم کی سختی ، اگر سردیاں ہوں تو ہڈیوں میں گو دہ تک جمادینے والی سردی ، یختہ بستہ ہوائوں کے جھکڑ، اور گرمی ہو تو پھر جھلسا دینے والی والی گرمی ۔۔۔نیز اکثر ہوٹلوں میں پردہ کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا ، اکثر ہوٹلوں میں خواتین اور مردوں کے بیچ ایک واجبی سا پردہ لٹکا ہوا ہوتا ہے ، جس سے "پردہ داری ” کے علاوہ ” تولیہ ” کا کام بھی لیا جاتا ہے ، اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے ہی اعمال کا شاخسانہ ہے ، جب تک گلگت بلتستان میں مذہب کے نام پر گلے کٹتے رہیں گے ، مقدس خونریزیوں کا سلسلہ جاری رہے گا، اسی طرح ہمارے بچے صحراوں میں تڑپتے ، مریض راستے میں ہی راہی بہ آخرت ہوتے اور خواتین چیختی رہیں گی ، اور آئے روز ہمارے پیارے گہری کھائی میں بہنے والے دریا گلگت ، کی طلاطم خیز موجوں کی نذر بنتے رہیں گے! اس لیئے پہلی ضرورت تو ہمیں خود سدھرنے کی ، اور دوسری گذارش ہمارے اپنے حکمرانوں سے ہے کہ خدارا وہ اس قوم پہ رحم کریں ، پتہ نہیں کیوں جب تک لوگ ہمیں خوب گالیوں سے نہ نوازیں ، مردہ باد ، کے نعرے لگا کر ہمارے پتلے نذر آتش نہ کریں ، ہماری تصویریں پاوں تلے روند ھ کر ہم سے نفرت کا اظہار نہ کریں ، اس وقت تک ہم کوئی بھی کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ؟ نہ اور کتنے امتحاں مقصود ہیں ؟؟ !
Very nicely written, on one way it is a masterpiece of urdu litreture, good vocabulary, well choose words,logical sentences, flow of thought and no doubt very powerfully articulated the plights of commuters. In short I fully endorse the pathetic condition of road and filthy position of hotels and the unhygienic food services provided by these owners. let us hope the position will change when the mega project of CPEC is in place.