سفر سے متعلق بہت سارے محاورے ہیں، ایک محاورہ جو زبان زد عام ہے وہ یہ کہ سفر وسیلہ ظفر۔ محاورے کی مناسبت سے قارئین یہ نہ سمجھیں کہ میں کسی سفر کی روئیداد بیان کرنے جا رہا ہوں۔
پچھلے ہفتے کسی عزیز کی تعزیت کے سلسے میں داریل تک کا سفر در پیش ہوا تو مجھے اس محاورے کی حٰقیقت کا پتہ چلا۔ سفر ایک ایسا ذریعہ ہے کہ انسان بہت ساری حقیقتوں سے آشنا ہو تا ہے۔ گھر بیٹھے یا میڈیا سے جو خبریں لوگوں تک پہنچتی ہیں اس سے زیادہ انسان خود اپنے سفر میں صحیح معلومات حاصل کرتا ہے۔ میرے ان باتوں سے آپ لوگ یہ بھی نہ سمجھیں کہ داریل کا میرا یہ پہلا سفر تھا۔ ضلع دیا مر میں مدت ملازمت کے چار سال گذارنے کے علاوہ بھی کئی دفعہ داریل تانگیرجانے کا اتفاق ہوا ہے۔ داریل و تانگیر کے تذکرے سے یقیناًقارئین کے ذہنوں میں ماضی میں رونما ہونے والے سانحات اور ماضٰی قریب میں اغوا ہونے والے ایس سی او کے انجینئرز کا واقعہ بھی ابھرا ہوگا جو کہ ایک فطری بات ہے اور پھر ان اغوا شدہ افراد کی بازیابی کس اندا ز میں ہوئی اس سے بھی آپ لوگ بخوبی اگاہ ہیں۔ ان واقعات میں کون لوگ ملوث ہیں یا ان کے پیچھے کون سے سیاسی عزائم کار فرما تھے اس سے حکومت سے زیادہ اور کون باخبر ہو سکتی ہے ۔ اس لیئے ان پہ بحث مطلوب نہیں لیکن ایک بات ضروری یہ کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو شاید منفی پروپیگنڈہ اور سنسنی پھیلانے کی عادت سی ہوگئی ہے ان کے مطابق تو داریل تانگیر میں سارے ہی دہشت گرد اور تخریب کار ہیں اور کہیں بھی کوئی اچھائی نہیں ہے۔ مجھے یہ بات لکھتے ہوئے بھی کوئی جھجک نہیں کہ داریل تانگیر کے حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے پاکستان بننے کے بعد سے ہی ان قبائلی علاقوں کو ایسے انداز میں پیش کیا ہے کہ شاید دیامر کے لوگ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں۔ سوشل میڈیا اس سے بھی دو قدم آگے نکل چکا ہے۔
پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے ہٹ کر ان واقعات کو مذہبی لحاظ سے بھی زیادہ اجاگر کیا جانا بھی دیامر کے عوام کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہی کہا جاسکتا ہے ۔ گلگت بلتستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں کے باسی اپنی تاریخ سے دلچسپی نہیں رکھتے ہیں اور چپ چاپ بغیر سوچے سمجھے آنکھیں بند کر کے ایسے بیانات اور خبریں پھیلاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ دیامر گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے جس کا ہیڈ کوارٹر چلاس میں ہے جو گلگت سے نوے میل دور مشرق کی طرف دریاے سندھ کے داہنے پر واقع ہے ۔ یہاں سے آگے بطرف راولپنڈی تین گھنٹے کی مسافت پر شمالاً جنوباً داریل تانگیر کی وادیاں واقع ہیں ۔ داریل تانگیر کو یہ بھی اعزازحاصل ہے کہ یہ گلگت بلتستان کا پرانا سب ڈویژن ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سب سے پہلے داریل تانگیر کو ضلع بنایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا اس کے مقابلے میں کھرمنگ اور شگر تحصیلیں ضلع بننے میں داریل تانگیر سے بازی لے گئیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ داریل تانگیر کی ہلکی سی تاریخ بیان ہو۔ تاکہ ان وادیوں کی روایات سے آگاہی ہو سکے۔
قدیم زمانے سے داریل تانگیر گلگت کا حصہ رہا ہے اور یہ علاقے شرو ع دن سے ہی اندرونی طور پر آزاد تھے۔ تاریخی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ داریل کا قدیمی نام تو لیلو تھا۔ بدھ مت کا مرکز بھی تصور کیا جاتا ہے۔ داریل فوگیچ میں بدھ کا ایک طویل ترین مجسمہ جس کی لمبائی چورانوے فٹ تھی موجود تھا اور بدھ مت کے ماننے والے دور دور سے مجسمے کی زیارت کیلئے آیا کرتے تھے اور یہاں بدھ مت مذہب کی ایک بڑی یونیورسٹی بھی تھی۔ ان تمام کا اب اس وادی میں نام و نشان نہیں لیکن یہاں مختلف جگہوں سے نوادرات کے ذخائر کی دریافت سے ان باتوں کی تصدیق اور توثیق ہو جاتی ہے۔ داریل تانگیر مختلف ادوار میں اونچ نیچ کا شکار رہا لیکن یہاں کے لوگ اپنی آزادنہ حیثیت کو ہمیشہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ڈوگروں کے زیر تسلط آنے سے پہلے اور بعد میں بھی کسی کے زیر تسلط رہتے ہوئے بھی زندگی ہمیشہ اپنی روایات اور آزادانہ حیثیت میں گذاری ۔ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ داریل تانگیر کے لوگوں نے ہمیشہ حکومت کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈوگروں کی یلغار 1866 کے علاوہ پاکستان بننے تک داریل تانگیر کے ساتھ کسی بڑی جنگ یا لڑائی کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ داریل کے لوگوں کا خوش وقت اور بروشے خاندان کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ داریل تانگیر کے لوگ ان خاندانوں کیلئے اپنی جان فدا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
جی بی میں ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ داریل تانگیر مفروروں کی آماجگاہ ہے اور ہر مفرور یہاں آکر پناہ لیتا ہے، آئیے اس کا بھی تھوڑا تاریخی جائزہ لیں کہ لوگ اس غلط فہمی کا شکا ر کیوں ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جی بی میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں اور یہاں کے راجے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے تھے۔ تاریخی جانچ پڑتال سے اس بات کے شواہد مل جاتے ہیں کہ خوش وقت اور بروشے خاندان کے جس راجے کو شکست ہوتی تھی وہ بھاگ کر داریل پہنچ جاتا تھا اور داریل والے ان سے مراسم کی بنا ء پر پناہ دیتے تھے اور جو افراد یہاں پناہ گزین ہوتے تھے ان کے اخراجات اور گذارے کے لیئے ایک ٹیکس وصول کیا جاتا تھا جس کومقامی زبان میں سوس کہا جاتا ہے۔ شکست خوردہ راجہ داریل سے امداد لیکر واپس اپنے دشمنوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ یاد رہے یہ صرف جنگ اور لڑائی کے دوران ہوتا تھا نہ کہ یہ کوئی معمول تھا۔ اس کا تذکرہ اس لیئے بھی ضروری تھا کہ لوگوں کے ذہنوں میں جو غلط فہمی بسی ہوئی ہے وہ دور ہوجائے کہ داریل تانگیر مفروروں کی جائے پناہ ہے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں اور خرافات بھی آجاتی ہیں۔ داریل تانگیر کی وہ روایت جو صرف خوش وقت اور بروشے خاندان کے پناہ گزینوں کیلئے (جنگ کے دوران ) مختص تھی اس نے قومیت کا روپ دھارا اور پھر قومیت سے انفرادی شکل اختیار کی۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ان وجوہات میں سے ایک وجہ مذہبی جنونیت اور گلگت شہر کی بد امنی سے بھی ہے۔ اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کیوں کہ اس سے جی بی کا ہر باشندہ آگاہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ داریل تانگیر میں بسنے والے اقوام کی تعلق داری اور رشتہ داریاں جی بی کے ہر علاقے سے ہیں۔ اب اگر ایک شخص ذاتی بناء پر کسی قتل یا اور وجہ سے مفرور ہو کر داریل تانگیر میں اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے پاس پناہ لیتا ہے یا چھپ جاتا ہے تو اس وجہ سے پوری وادی کو بد نام نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسا تو جی بی کے ہر ضلع میں ہوتا ہے خاص کر گلگت شہر میں 1988 سے لیکر حال تک مذہبی دہشتگردی میں ملوث افراد جی بی کے مختلف علاقوں میں پناہ گزین ہوتے رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں میں سے بہت سارے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جا بسے ہیں ۔ میری معلومات کے مطابق داریل تانگیر میں ذاتی دشمنی کے علاوہ ایسے مفرور موجود ہی نہیں۔
یہاں اس کا تذکرہ اس لیئے کہ حقیقت کو بیان کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ داریل تانگیر والے کسی مفرور کی بے جا حمایت نہیں کرتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر آئے ہوئے مہمان کی قدرو منزلت بھی ان کی عظیم روایات میں شامل ہے۔ داریل تانگیر کی تاریخ بڑی ہی سنہری اور درخشندہ روایات کی مظہر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ حاکم وقت سے اپنی آزادی برقرار رکھتے ہوئے تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ ملکہ جوار خاتون گلگت کی حکمران تو داریل والوں کی ہر دلعزیزہ حکمران تھی وہ اکثر اپنا مسکن داریل میں رکھتی تھی۔ انہی کے دور میں داریل کے لوگوں نے گلگت کی دو قدیم نہریں کوہل بالا اور کوہل پائین کی کھدائی مکمل کر لی اور انعام کے طور پر ملکہ جوار خاتون نے کھنبری جو گلگت کی حدود میں شامل تھا داریل والوں کو عطا کیا ۔ اس سے بڑا تعاون کیا ہو سکتاہے اور ماضی کے حکمران بھی ایسا ہی صلہ دیا کرتے تھے جیسا دادی جواری نے دیا ۔
اب آئیں پاکستان بننے کے بعد کا بھی تھوڑا جائزہ لیں جب پاکستان وجود میں آیا اور گلگت ڈوگروں سے خالی ہوا تو داریل تانگیر کے عوام اپنی آزاد حیثیت میں 1952 تک قائم رہے اور جب شامل ہوئے تو حکومت پاکستان کے ساتھ حاجی عمر خان جو اس وقت کے نامور شخصیت تھے اور چونو خان کے نام سے مشہور تھے باقاعدہ ایک معاہد ہ حکومت کے ساتھ طے کیا جس کے تحت جنگلات کی ملکیت اور مفروروں کی واپسی کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل کی سزا نہ ہونے کی شرائط پر تعاون کے تحت اب تک کار فرما ہیں ۔ دیامر خوبصورت قبائلی روایات اور اعلیٰ اقدار کی وجہ سے جی بی میں ایک منفرد حیثیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں کا ہر قبیلہ اور ہر فرد قبائلی نظام اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جرگہ نظام کا پابند رہتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے انہوں نے ہمیشہ مفرور افراد کو قانون کی گرفت میں لانے کیلئے جرگہ سسٹم کے تحت حکومت وقت سے بھر پور تعاون کیا ہے۔ تاریخی حوالہ جات کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں دیامر سے متعلق ہرزہ سرائی سے پہلے یہاں رائج مضبوط اور سخت قبائلی روایات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک ہم نے اس بارے نہ سوچا ہے اور نہ ہی کوئی اقدام کیا ہے بس رٹے رٹائے جملے دہراتے ہیں کہ دیامر کے لوگ تعلیم کے مخالف ہیں ، یہاں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے ، خاندانی دشمنیاں سالوں سال چلتی ہیں۔
ان پہ بحث سے پہلے ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا ایسا سارے ملک میں یا جی بی میں نہیں ہو رہا ہے ؟کیا قتل صرف داریل میں ہوتے ہیں اور جی بی کے کسی علاقے میں نہیں ہوتے ؟ کیا دشمنی کا رواج صرف داریل میں رائج ہے جی بی کے دوسرے علاقوں میں دشمنیاں نہیں ؟ تعلیمی لحاظ سے داریل تانگیر کے لوگوں کو جتنی دلچسپی ہے شاید کسی کو ہو یہاں کے لوگوں نے اس وقت بھی تعلیم حاصل کی جب یہاں تک پہنچنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم (ڈین ریٹائرڈ) قراقرم انٹر نیشل یونیورسٹی ، ڈاکٹر فضل الرحمان ڈائریکٹر ایگریکلچر، جناب عبد الحمید (ریٹائر)ڈ ڈپٹی کمشنر ، جناب خان بہادر صاحب مرحوم ، جناب فیروز صاحب چیف پلاننگ آفس اور ملک محمد مسکین صاحب سابق سپیکر کے نام قابل ذکر ہیں جن کا تعلق داریل تانگیر سے ہے۔ ان کے علاوہ ضلع دیامر کے دیگر افراد بھی اچھے عہدوں سے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ہیں جنہوں نے نامساعد حالات میں تعلیم حاصل کر کے نمایاں نام کمایا اور جبی بی کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس وقت داریل تانگیر کے لوگ تعلیمی میدان میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے علاوہ پرائیویٹ سکول بھی بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ جرگہ سسٹم ہی ان علاقوں میں ایک مضبوط نظام کی حثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں بڑے اور پیچیدہ مسائل کو اس نظام کے تحت حل کیا گیا لیکن ہوتا کیا ہے میڈیا تو بات کا بتنگر بنانے میں مشہور ہے، خاص کر عورتوں کے معاملے میڈیا مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلو کو زیادہ اجاگر کرنے میں لگ جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں غیرت کے نام پر آئے روز قتل ہوجاتے ہیں یا یہاں کے لوگ چپ چاپ اندھا دھند قتل و غارت گری میں لگے ہوئے ہیں۔یا عورتیں تعلیم سے یکسر خالی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ لوگ اپنی رویات پر سختی سے کاربند ہیں اور وہ ایسی تعلیم کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے جس میں اپنی عزت گنوانی پڑے۔ میری معلومات کے مطابق داریل میں یچھوٹ ، شاہین محلہ اور گیال کے علاوہ تانگیر میں بھی لڑکیوں کے سکول موجود ہیں جہاں چادر اور چار دیواری کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے مقامی اور جی بی کے مختلف علاقوں سے بیاہی ہوئی خاتون اساتذہ بڑے اچھے اور احسن طریقے سے لڑکیوں کے سکولوں میں پڑھا رہی ہیں۔ جدید تعلیم اور اسے بڑھاوا دینے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کی روایات کے تحت اس قسم کے مزید لڑکیوں کے سکولز کا بندوبست کیا جائے ۔
داریل تانگیر میں جرگہ سسٹم جس میں علماء و عمائدین شامل ہوتے ہیں ان کو علاقے کے بارے میں بخوبی علم ہوتا ہے ۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں کی نفسیات کیا ہیں کون سا عمل علاقے کے لیئے مفید اور کونسا مضر ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماضی کی روایات کو پاس کرتے ہوئے جرگہ سسٹم کی خدمات کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا لیکن ماضی قریب میں میڈیا کے ساتھ ساتھ حکومتی اہلکاروں نے بھی دیامر میں خاص کر داریل تانگیر کے حوالے سے چند ایسے اقدامات اور باتیں کیں جن سے حالات سدھرنے کی بجائے بگڑ گئے تھے لیکن بھلا ہو ملک محمد مسکین سابق سپیکر کا جن کے بر وقت اقدام سے حالات دگر گوں ہونے سے بچ گئے۔ مغویوں کی بازیابی سے بھی حکومت کی آنکھیں کھلنی چاہیں کہ داریل تانگیر کے لوگ بڑے امن پسند ہیں اور وہ کسی صورت حکومت سے تصادم نہیں چاہتے لیکن اس حقیت سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں کہ جہاں غربت اور افلاس ڈیرے جمائے ہوئے ہو اور بے روزگاری عام ہوجائے وہاں جرائم ضرور جنم لیتے ہیں اور داریل تانگیر میں مفروروں اور دہشتگردی کے حوالے سے جو واویلا مچایا جا رہا ہے وہ بددیانتی کے سوا کچھ نہیں وہ اس قسم کے مجرم یا دہشتگر دنہیں جن پر قابو نہ پایا جاسکتا ہو۔
داریل تانگیر میں اس وقت بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ عرصہ پندرہ سال سے داریل تانگیر کو شاہراہ قراقرم سے ملانے والی سڑک ابھی تک مکمل نہیں۔ وزیر اعلی ٰ اورٹین کور کمانڈر کا دورہ داریل تانگیر مختلف ترقیاتی سکیموں کے اعلانات داریل تانگیر میں آرمی پبلک سکول کا سنگ بنیاد کے علاوہ سب سے اہم اور بہت ہی خوش آئیند بات یہ ہے کہ ترقیاتی سکیمیں فوج کی نگرانی میں مکمل ہونگی ۔پاک فوج جہاں پہنچ جاتی ہے وہاں کے حالات بہت جلد سدھر جاتے ہیں اور عوام کو بھی پاک فوج پر بڑا اعتماد ہے۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ آرمی پبلک سکول کے قیام اور دیگر ترقیاتی کاموں کی بدولت پاک فوج کی نگرانی میں داریل تانگیر ایک نئی سمت رخ اختیار کرے گااور یہاں مستقبل میں ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ مزید براں داریل تانگیر کو ضلع کا درجہ دیکر جرگہ سسٹم اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے داریل تانگیر کو دور جدید کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔