چترال

معروف کیلاش رہنما مقامی مذہبی رسومات کے مطابق رقص اور گیت، ڈھول کی تاپ، ہوائی فائرنگ کی گونج میں سپرد خاک

چترال(گل حماد فاروقی) کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء قاضی مرزا مس کو برون گاؤں میں مذہبی رسومات کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ آنجہانی کی آحری رسومات میں کثیر تعداد میں وادی رمبور، بریر اور بمبوریت کے کیلاش قبیلوں کے مرد و خواتین نے شرکت کی۔ اس موقع پر کیلاش مذہب سے نکل کر اسلام قبول کرنے والے ان کے مسلمان رشتہ دار بھی موجود تھے۔
مرزا مس کے آحری رسومات میں قبیلے کے بڑے لوگوں نے اس کے تعریف کی ۔ جس چارپائی پر اس کی لاش کو رکھا گیا تھا اس کے نچلے طرف کھڑے ہوکر کیلاش لوگوں نے ان کی خاندانی پس منظر، ان کے بہادری کے قصے اور ان کی اعزاز میں ان کی قصیدے بیان کئے۔
اس کے بعد مرد و خواتین نے ڈھولک کی تاپ پر اکھٹا رقص پیچ کیا اور بعد میں بچوں اور بچیوں نے بھی مشترکہ طور پر ر قص پیش کرکے مرنے والے مرزا مس کو اعزاز بحشا۔
کیلاش لوگ اپنے مُردوں کو مذہبی عباد ت گاہ میں رکھتے ہیں جسے جستہ کان کہتے ہیں۔ جب مُردے کو جستہ کان سے باہر نکالتے ہیں اس وقت جستہ کان کے چھت پر کھڑے ہوئے چند جوان بندوق سے ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جو ان کی مذہبی رسومات کا حصہ ہے اور اسے یہ لوگ ہزاروں سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔
لاش کو چارپائی پر ڈال کر قبرستان لے جاتے ہیں جس پر سرح رنگ کا چادر اوڑ ھ لیتے ہیں۔ قبرستان میں لاش کو ایک لکڑی سے بنے ہوئے ایک صندوق میں رکھ لیتے ہیں اور اسی صندوق میں اس کے ساتھ اس کے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزیں بھی رکھ لیتے ہیں۔
کیلاش لوگ اپنے مُردوں کے ساتھ بکری کی کھال(چمڑے) میں کچھ خوراک کی چیزیں ڈال کر قبر میں رکھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ یہ خوراک کی چیزیں مرنے والے کی آحرت کی سفر میں کام آتا ہے۔ ماضی میں یہ لوگ مردے کے ساتھ بندوق، تلوار اور قیمتی چیزیں بھی رکھتے تھے مگر بعد میں اسے دیگر لوگوں نے چرانا شروع کیا اس کے بعد یہ لوگ مردے کے ساتھ قبر میں بندوق وغیرہ نہیں رکھتے۔
مرزا مس کو قبر میں رکھنے کے بعد کچھ خورا ک کی چیزیں باہر رکھی گئی تھی جسے اس چمڑے سے نکالا گیا تھا جو قبر میں رکھا گیا تھا اور اسے دفنانے کے بعد لوگوں نے اس خوراک سے تھوڑا ، تھوڑا ہاتھ میں اٹھاکر اس کے قبر پر رکھا۔
جس چارپائی میں اس کی لاش کے قبرستان لے گئے تھے اسی چارپائی کو کیلاش لوگ دوبارہ گھر نہیں لاتے بلکہ اسے الٹا کرکے قبرستان میں رکھ لیتے ہیں۔
جس راستے سے لاش کو قبرستان لاتے ہیں اسی راستے سے یہ لوگ واپس گھر نہیں لوٹتے بلکہ دوسرے متبادل راستے سے جاتے ہیں۔
کیلاش لوگ مردے کو دفنانے کے بعد اس کے گھر آتے ہیں جہاں چالیس سے زیادہ بکریاں ذبح کئے گئے تھے اور مرد لوگ الگ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں جبکہ خواتین الگ بیٹھ کر ان کو طعام پیش کیا جاتا ہے اس کھانے میں پنیر، دیسی گھی، بکرے کی گوشت، روایتی روٹی وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس گوشت اور کھانے کو اپنے گھر بھی لے جاتے ہیں۔
مرزا مس کے میت کی رسم دیکھنے کیلے کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button