کالمز

دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنسان گلیشر پراللہ اکبر کی سحر انگیز آواز

تحریر: شمس الحق قمرؔ بونی ،حال گلگت

یہ قصہ آج سے بیس سال پہلے کا ہے جب ہم لو گ پامیر پبلک سکول میں ٹیچر ہوا کرتے تھے ۔ ہم نے پروگرام بنایا کہ بر وغل کا دورہ کیا جائے اور وہ بھی پیدل ۔اس ناتجربہ کار قافلے کے تین ناپختہ سیاحوں میں راقم الحروف کے علاوہ مظفر حسین شاہ بونی اور شمس الدین بونی شامل تھے ۔ گھر سے اجازت ملنا مشکل تھا اس لئے نہیں کہ طویل المسافتی دورے کو گھر والے خطرہ سمجھتے تھے بلکہ اس لئے کہ یہ ہمارے گاؤں میں چاول کی بوائی کا موسم تھا جو کہ انتہائی مشقت طلب کام ہے جب تک سب گھر والے ساجھا ملاکے کام نہ کریں اُس وقت تک اس کام کا مکمل ہونا ناممکن ہوتا ہے ۔ اِدھر ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ سکول میں موسم گرما کی تعطیلات شروع ہوتے ہی بروغل کے سفر پر جائیں گے ہم تینوں پر بروغٰل کابھوت سوار ہوا تھا ۔

جولائی 1995 ء کی دس تاریخ تھی۔ میں نے گھر والوں کواعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن گھر والے میرے ایک نازک طبع چچا ابو کا نام لے لیکر مجھے ڈراتے رہے کہ کہ تمہا راچچا ابو گھر میں زمینداری کی مشقت اُٹھاتے رہتے ہیں اور تم مستی کرتے ہو۔ وہ اِ س وقت ہر گز تمہیں جانے نہیں دیں گے ہاں البتہ اگر کسی طرح سے اُن سے اجازت لی جائے تو کام بن جائے گا ۔

میں نے سوچا کہ بروغل ہر صورت میں جانا ہے لہذا چچا کی جیب گرم کروں گا تو شاید رفو چکر ہونے کی کوئی صورت نکل آئے۔  چچا جان کے شکنجے سے رہائی کی یہ چال کار گر تو تھی لیکن مسلہ یہ تھا کہ کتنے پیسوں سے وہ خوش ہو سکتا ہے اور یہ کہ پیسے تھمانے کا مناسب وقت کونسا ہو سکتا ہے ۔ میں مختلف حربے سوچتا رہا۔

آخر ایک ترکیب ذہن میں یہ آئی کہ اگر میں تنہائی میں کچھ رقم چچا ابو کو تھما دوں تو شاید اُ س کا پتھر دل کسی طرح پسیج جائے ۔ پروگرام یہ تھا کہ ہم صبح سویرے پؤ پھٹتے ہی روانہ ہو جائیں گے لہذا الالصبح ہم اپنے اپنے گھروں سے نکلے۔ یہ وہ وقت تھا جب میرا چچا ابو پچھلے شام سے اب تک چاول کی بوائی کے لئے کھیتوں کو پانی دینے میں مصروف تھا۔ اس عمل کو ہم اپنی زبان میں ( شالی نالوتے توق کوریک) کہتے ہیں ۔ میں سیدھا چاول کے کھیت کی طرف گیا مجھے دیکھتے ہی وہ قدرے خوش ہوئے ، سمجھے کہ میں اُس کے ہاتھ بٹانے آیا ہوں ۔ میرے پاس ایک سلپنگ بیگ اور ایک بڑا مو وی کیمرہ تھا جسے میں نے اپنی قلیل تنخواہ سے بنک میں مختلف لوگوں کے نام پر قرض لے کر خریدا تھا۔ خیر اس کیمرے کی کہانی بعد میں آئے گی کہ مجھے کتنا نقصان اُٹھانا پڑا ۔ بہر حال چچا ابو مجھے دیکھتے ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’ شاباش بیٹا والدین کے ہاتھ بٹانے والے اللہ کو بھی پسند ہوتے ہیں ‘‘ چچاابو کا یہ فرمان میرے دل پر کچھ اس ادا سے پیوست ہو گیا کہ بقول غالب ؂ وہ خلش کہاں سے آتی جو جگر کے پار ہوتا ۔

میں نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر جیب میں ہاتھ ڈالا اور جھٹ سے ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور اپنے تین بیٹری والے ٹارچ کی روشی نوٹ کے اوپر لکھے ہوئے ’’ ایک ہزار روپے‘‘ پر مرکوز کیا تاکہ رقم کی وقعت کا پتہ چلے ، پھر میں نے بے ساختہ کہا ’’بابا یہ میری تنخواہ ہے جو کل ملی تھی‘‘ چچا ابو کی آنکھیں چار ہوئیں فرمانے لگے کہ ’’ اس کا کیا کرنا ہے ؟‘‘ میں نے انتہائی عاجزی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا’’ بابا میں دوستوں کے ساتھ بروغل جا رہا ہوں یہ روپے آپ رکھ لیجئے کہیں کوئی کام آئیں گے ‘‘ ۔

میں ویسے بھی گھر ہستی کے بھاری کاموں میں اچھا نہیں تھا کام میں میرا ہونا نہ ہونا کوئی اہمیت کے حامل نہ تھا ۔ ایسے بھاری کاموں میں میرا چھوٹا بھائی احسان الحق بہت اچھا اور کار گر تھا ۔ وہ ٹھیک طرح سے ہل چلا سکتا تھا ، پہاڑوں سے لکڑی اپنی پیٹھ پہ لادکے لاتا تھا جبکہ میں بہت نکما تھا۔ البتہ میری زمہ داریوں میں بازار سے سودا سلف لانا شامل تھا۔ مجھے ’خاص کر چینی لانا بہت پسند تھا کیوں کہ چینی گھر لاتے ہوئے راستے میں ادھا کھا لیا کرتا تھا۔ اِس کے علاوہ گھر میں آنے والے مہمانوں کے لئے بستر درست کرنا اور اُن کے ہاتھ دھلانا، صبح اُٹھ کے مہمانوں کے لئے انگیٹھی میں آگ سلگانا اور ناشتہ کروانا میری زمہ داریوں میں شامل تھے۔ لہذا چچا ابو نے موقعے کو غنیمت جانا ہزارکے نوٹ کو مظبوطی سے پکڑتے ہوئے از راہ تفنن فرمایا کہ ’’ لو بھائی تم دور جارہے ہو یہ پیسے واپس لے لو راستے میں کام آئیں گے ‘‘ میں نے بھانپ لیا کہ تیر بہدف ہوا ہے کیوں کہ پیسے کو انتی مظبوطی سے پکڑنے کا مطلب چچا کی خوشی کا ثبوت تھا ۔ میں نے مارے خوشی کے جیب میں دوبارہ ہاتھ ڈالا ایک سو کا نوٹ اضافی تھما دیا ۔ چچا ابو نے میری دونوں آنکھوں میں بوسۂ شفقت فرمایا اور کہا کہ ’’ بروغل اچھی جگہ ہے مجھے بھی شوق ہے وقت نکال کے جاؤں گا انشأ اللہ ‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ بابا اپنی مرضی کرو میری طرف سے آپ پاکستان کے کسی بھی کونے میں جا سکتے ہو ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں چچا کے ہاں عمری قیدی تھا اور انہوں نے آج مجھے رہا کر دیا تھا ۔ میرے پاؤں ہوا میں فٹ ہو گئے ۔

یوں ہم نے پیدل اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ساتھ ہم پرواک دودوم میں تھے ۔ جذبات کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ گویا ہم حج کی سعادت حاصل کرنے جا رہے ہیں ۔ ہم خراماں خراماں چلتے رہے کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ نہیں تھی ۔ پہلی رات ہم نے دزگ میں گزاری۔ یہاں سے ہم نے صبح سویرے اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ ہمیں پورٹر کی ضرورت تھی ایک ایسا آدمی جو کہمفت میں کام کرے یا ہم سے بہت کم پیسہ لے لے لیکن ایسے پورٹر کا ملنا محال تھا ۔ جوں ہی ہم یار خون پاور پہنچے تو ہماری یہ نیت بھی قبول ہوئی ۔ ہمیں مشہور زمانہ عوامی مقرر محترم بیگ محمد صاحب ملے( بیگ محمد ایک عام شخص ہے لوگوں کو محظوظ کرنے کے لئے اُلٹی سیدھی تقاریر کرتا رہتا ہے اپر چترال میں ہر چھوٹا بڑا بیگ محمد سے واقف ہے اور سب اُس سے محبت کرتے ہیں )۔ اہم بات یہ تھی کہ بیگ محمد کو واخی زبان بھی آتی تھی ۔ بیگ محمد سے ہم سب کی پرانی یاداللہ تو تھی لیکن بیگ محمد کی صورت میں درست معنوں میں ایک پُر خلوص اور با اُصول انسان دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا ۔

قدرے طویل قد کاٹھ بیضوی چہرا ، چوکور مگر کشادہ پیشانی ، گہری آنکھوں کے اوپر سیا ہ اور گھنی بھوئیں ، لمبے لمبے بازو ، ہلکے گول شانے مجموعی خدو خال ایسا کہ تھری پیس میں پینٹ شرٹ پہنائی جائے تو اُن پر پرنس چارلس کا گمان گزرے لیکن غریب خاندان میں پیدا ہونا ان صاحب کا قصور تھا ورنہ پرنس چارلس اور بیگ محمد کے قد کاٹھ میں کوئی فرق نہیں تھا ۔

ہم جس وقت یارخون پاور پہنچے تو بیگ محمد اور اُس کی والدہ ماجدہ پاور گول کی دوسری جانب ایک پن چکی میں اناج پیش رہے تھے ۔ ہم نے بیگ محمد کو اپنے پاس بلایا تو موصوف ہم سے ایسے ملے جیسے ہمارے اور اُس کے برسوں کے مراسم اور تعلق ہو ۔ ہم نے انہیں اپنے ہم سفر بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے ہامی بھر لی کسی قسم کے سفری معاوضہ وغیرہ کا کوئی پیشگی تقاضا نہیں کیا ہاں البتہاس سفر پر جانے کے لئے والدہ سے اجازت لینے کو اولین ترجیح دی اور بولے کہ میرے آپ کے ساتھ آنے میں مئلہ نہیں ہے مشکل صرف یہ ہے کہ والدہ اجازت دے دے ۔ بیگ محمد ہم سے مصافحہ کرنے کے بعد دوبارہ پن چکی کے اندر گئے، تھوڑی دیر بعد اپنی والدہ کے ساتھ باہر آئے ۔ دیر تک اُسکی والدہ اُسے اپنے گلے سے لگائے رکھا دعائیں دیں بلائیں لیں ۔ بیگ محمد نے دو دفعہ والدہ کی دست بوسی کی اور والدہ کی طرف اپنا چہرہ کرکے تقریباً دس قدم اُلٹے پاؤں چلییوں اُسے ماں کی طرف سے ازجازت ملی تھی ۔یہ بعد میں معلوم ہوا کہ بیگ محمد اور اُسکی والدہ نے اتنی دیر تک ایک دوسرے سے کیا کیا باتیں کیں تھیں ؟

بہر حال بیگ محمد ہم سفر ہوئے ۔ موصوف کے پاس والدہ کی دعاؤں کے علاوہ ایک گلو کوز ڈرپ کی استعمال شدہ تھیلی ( جو کہ وہ پانی پینے کے لئے استعمال کرتا تھا اور راستے میں بار بار پانی پیتے تھے ) ایک چھوٹی سی رسی ، لاٹھی اور ایک چاقو تھا ۔ وہ وہی حرکتیں کرتا جو ہم اپنے دل میں سوچتے تھے ناچتا بھی تھا اور گاتا بھی تھا لیکن خصوصی طور پر وہ ایک مقرر تھے ۔ موصوف کی تقاریر اس دنیا کی نہیں ہوتی ہیں بلکہ کسی اور دنیا کی ہوتی ہیں ۔ بیگ محمد AKRSP کی خدمات سے بہت متاثر ہیں لہذا جب بھی تقریر فرماتے ہیں تو دیہی تنظیمات کی میٹنگز کی تمہید کے ساتھ اپنی تقریر کی اِبتدا کرتے ہیں ۔ تقریر کا ایک جملہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں یہ تقریر آپ کی سماعتوں اوراذہان پر بھاری تو معلوم ہوگی لیکن کیا کیا جائے ہمارا جگری دوست ہے ہم آپ کی تقریر کے ہر جملے کوآپ ہی کے انداز اورآپ ہی کے جذبات کی رروشنی میں مکمل طور پر سمجھ لیتے ہیں ۔ لیجئے بے تکی تقریر آپ بھی سنیے ۔

’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحٰم ، جناب صدر تنظیمات صاحب ، مکھی صاحب دیگر نان گینیژر گینی صاحب، معراج صاحب اے کے آر ایس پی ہم کو سلام کرتاہے ۔ اسپہ کندری کی غریب، چھوغو اسوسی صوبہ بروغیل تا صوبہ کرانچی ! اللہ و سار غیر اسپہ کا نیکی ۔ اسپہ نشنل بنک نیکی ۔ بشلی گر نیکی اسپہ گدام مگر کے صوبہ بروغل خالی کرتا ہے ۔ اسپہ حکومت کا روڈ کا جاتا ہے درخواستشیر ۔ حکومت اسپتے کیا کوئی وا حکومتو مشتکیب دی اسپتے کیہ کوریک نو بوئے وا سبق راور ہمارا ایک درخواست کاشت کیبکرتا قدر ہے ‘‘

baig broghil.2

یوں بیگ محمد کی پرکیف رفاقت میں ہم اگے بڑھتے رہے اور دوسری رات دوبارگر میں چترال سکاوٹس کی چھاونی میں گزاری ۔ چھاونی میں رات کیا گزاری بس کٹھملوں سے رات بھر موت و حیات کی جنگ لڑتے رہے ۔ تنگ آکر اور شکست تسلیم کرتے ہوے ہم میدان کھٹملوں کے خالی چھوڑے آخر کار دریا کے کنارے جاکے سونے پر مجبور ہوئے۔

یہاں سے ہم صبح سویرے روانہ ہوئے۔ تیسری رات یارخون لشٹ میں چترال سکاوٹ کی ایک اور پوسٹ میں گزاری رات کو ہماری خوب آؤ بھگت ہوئی ستار سکاوٹ دوستوں کے پاس تھا اور ستار نواز ہمارے ساتھ تھا ۔ شمس الدین بھائی نے سکوتِ پردہ ساز میں چھپی روح کو جنبش انگشت سے جھنجھوڑ کے جگا دیا ۔

شمس الدین بھائی مشہور ستار نواز علی ظہور مرحوم کے طرز پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ علی ظہور کا کمال یہ تھا کہ وہ ستار کے تاروں کو ایک مخصوص انداز میں چھیڑتا تھا جس کی وجہ سے دھن میں ایک ایسا پرکیف تسلسل پیدا ہوتا تھا جو کہ سننے والے کو اپنے سُر کے دام میں گرفتار کرتا تھا یعنی مراقبے کی کیفیت طاری ہوتی تھی ۔

علی ظہور کے فن کی اس خوبی کے حوالے سے تاج لال چپاڑی (مرحوم ) نے ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران مجھے بتایا تھا کہ تاج لال کے پاس علاقہ تریچ سے کوئی مولانا صاحب مہمان ٹھہرے مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ جب قرآن شریف کی تلاوت کرتے تو اللہ کا کلام خوش گلو مولانا صاحب کی شیرین آواز میں دل میں ایسی سرائیت کر جاتی کہ انسان وجد میں آجاتا اور اُس وجد کی کیفیت میں آنسو وں کے سمندر گر جاتے، کیوں کہ مولانا صاحب ترنم سازی میں گویا یکتا تھے ۔ مولانا صاحب نے علاقے کے مشہور ستار نواز علی ظہور کے اعلی فنِ ستار نوازی کے بارے میں سن رکھا تھا ۔ مولانا صاحب نے سرگوشی میں تاج لال سے فرمائش کی کہ علی ظہور کو اگر زحمت دی جائے تو مولانا صاحب ان کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے ۔ تاج لال ( مرحوم ) نے اپنے بھائی صدر رحمت اکبر خان رحمت( مرحوم ) سے مشورہ کیا اور علی ظہور کو بلایا گیا۔ مولانا صاحب کی خواہش پر ڈھول ڈھماکے کے بغیر ستار کی مجلس سجائی گئی۔ تاج لال ( مرحوم ) بتاتے تھے کہ ادھر ستار کے ساز بجتے رہے اور ادھر مولانا صاحب کے پُر نور چہرے پر سے اشک افشانی ہوتی رہی ۔ ساز ختم ہونے کے بعد مولانا صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور فرمانے لگے کہ ’’ علی ظہور نے ستار کے تاروں کو نہیں چھیڑا ہے بلکہ میری روح کی مضراب سے ساز تخلیق کی ہے میں وجد کی کیفیت سے گزرتا رہا مجھ پر وجد و سرور اور مراقبے کی کیفیت طاری تھی”۔

یہ علی ظہور کی خدا داد قابلیت تھی جو کہ ہزار جتن سے بھی کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ فن کی یہ خصوصیت شمس الدین کی ستار نوازی میں بھی بدرجہ آتم موجود ہے ۔ شام کا کھانہ کھانے کے بعد ہم نے ستار کی مجلس سجالی یارخون لشٹ کی سکاوٹ چھاونی شمس الدین کے ستار کے لطیف سازوں کے لپیٹ میں آگئی پہلا ساز ’’ ڈق تتے نشان انزیمان کومورے مہ شانو یار لفافو سوم شوم وطانہ دوست مو گانے بے وافو سوم ‘‘ ستار کی شرینی اور چمڑے کے علاقائی طرز پر بنے دف کی ولولہ انگیز تھاپ پر بیگ محمد نے ا پنے بدن کی معنی خیز حرکات و سکنات کے ساتھ رقص پیش کیا ۔ بیگ محمد کے بعد ہم نے بھی طبع ازمائی کی ۔ شمس الدین کی ستار نوازی کی یہ شہرت اب وائرلیس سیٹ کے ذریعے بروغل پوسٹ تک پہنچ چکی تھی ۔

ہم نے چوتھی رات کشمان جا نامی آبادی میں مومن بابا ( مرحوم ) کے دولت خانے میں خصوصی اور درباری مہمانوں کی حیثیت سے گزاری ۔ قدم علی جو کہ مومن بابا ( مرحوم ) کے صاحب زادے ہیں نے اپنے ایک سکاوٹ دوست منصور کے ساتھ مل کر ہماری خوب تواضع مدارت کی ۔

جولائی کی ۱۵ تاریخ کو ہم بروغل پوسٹ میں تھے ۔ تورکہو سے ایک صوبیدار صاحب تھے جس کا نام غالباً حاجی تھا ۔صوبیدار حاجی نے ہمارے لیئے شاہانہ بندوبست کیا ہوا تھا۔ رات کو شکار کا تازہ گوشت کھلایا اور بانسری کی ایک محفل بھی سجائی گئی، بانسری نواز پوسٹ سے ملحق گاؤں چکار کا رہنے والا کوئی نوجواں تھا ۔

ہماری اگلی منزل ،بروغل کی مشہور اور معروف شخصیت میرزہ رفیع ( مرحوم ) کا گھر ،تھی ۔ میرزہ رفیع( مرحوم ) سے ہمارے مراسم کی وجہ اُن کا صاحب زادہ عمر رفیع تھا جو کہ پامیر پبلک سکول بونی میں پانچوں جماعت کا طالب علم تھا اور ہم نے عمر رفیع کو اپنا میزبان بنایا ہوا تھا ۔ بروغل پوسٹ سے صبح جب ہم روانہ ہوئے توہمارے لئے گھوڑوں کی سواری کا انتظام کیا گیا تھا ۔ یہ سارے انتظامات میرزہ رفیع( مرحوم ) کی طرف سے کئے گئے تھے۔ میرزہ رفیع( مغفور) کے گاؤں کا نام لشکر گا ز ہے، جہاں تا حد نگاہ رفیع صاحب کی زمینیں اور جائیداد ہیں ۔ اس گاؤں میں لے دے کے چھے یا سات گھرانے آباد ہیں جن میں کچھ گھرانے رفیع کے مزارعین کے ہیں ۔ ہم نے تین دن اور چار راتیں مرزا رفیع ( مرحوم ) کی رفاقت اور اُن کے صاحب زادہ عمر رفیع کی میزبانی میں گزاریں ۔ ہمیں فروٹ کے علاوہ ہر قسم کاطعام کھلایا گیا ۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی کا دارومدار مال مویشی پالنے پر ہے ان جانوروں میں بھیڑ بکریاں ، گائے ، بیل ،خوش گاؤ ، جنگلی بیل ، گھوڑے اور گدھے شامل ہیں ۔ ان مال مویشیوں کی نگہبانی کے لئے ان لوگوں نے بڑی نسل کے شکاری کتے پال رکھے ہیں اُ ن کتوں کی شکل و صورت بھیڑیوں سے ملتی جلتی ہے ۔ یہاں رات کو عجیب سماں ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کسی بہت بڑے قافلے نے پڑاؤ ڈالا ہو۔ ہم رات کو اس پڑاؤ نما گاؤں کے بیجوں بیج رات گزارتے تھے یہاں جولائی میں موسم کی یخ بستگی کا یہ عالم ہے کہ رات کو دو دو رضائیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد موسم خاصا خوشگوار رہتا ہے ۔میرزہ رفیع کی رفاقت میں یہ چار دن ہماری زندگی کے یادگار دن تھے ۔یہاں اُس وقت کوئی ہسپتال اور کوئی سکول نہیں تھا ۔

میرزہ رفیع نے بتایا کہ جنرل ضیأ الحق کے دور میں جب سویت یونین چڑھائی کرتے ہوئے وخان اور بروغل کے بارڈر دروازے تک پہنچا تھا تو جنرل ضیأالحق خود بروغل تشریف لائے تھے اور میرزہ رفیع کے گھر جاکر اُن سے ملاقات بھی کی تھی ۔ اُس زمانے میں میرزہ رفیع نے بروغل میں ایک سکول کھلوانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ یہ مطالبہ منظور تو ہوا لیکن کچھ نا مساعد حالات کی وجہ سے اُس پر عملی کام نہیں ہو سکا۔ اُس وقت بروغل میں واحد آدمی میرزہ رفیع تھے جنہوں نے اپنے صاحب زادے کو تعلیم دینے کے لئے بونی کے پامیر پبلک سکول میں داخلہ دلوایا ہوا تھا۔ بروغل میں کسی کو اگر صحت کا کوئی مسلہ ہوتا تھا تو آفیون پلانے کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔انسانی صحت کے لئے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بچوں اور بوڑھوں میں شرح اموات بہت زیادہ تھی ۔یہ صورت حال دیکھ کر ہمارے دل کڑھتے رہے ہم بروغل کے زندگی کیہر سہولت سے محروم لوگوں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ البتہ واپسی پر ہم نے آغا خان سوشل ویلفیر کو ایک خط لکھا جس میں یہ داستان زیب قرطاس کیا ۔ ہماری درخواست پر سوشل ویلفیر نے بروغل میں آفیون چھڑوانے کے حوالے سے ایک مہم چلائی اور سنا یہ گیا کہ یہ مہم کافی حد تک کامیاب رہی۔

دوران قیام بروغل کی چوتھی اور آخری رات ہمارے امیرِ سفر شمس الدین، نے فیصلہ کر لیا کہ ہم سامنے استادہ پہاڑ سے محلق گلیشر کو عبور کرکے در کوت سے ہوتے ہوئے یاسین جائیں گے ۔گلیشیر دیکھنا اور گلیشیر کے اوپر سے سفر کرنا ہمارے لئے ایک نت نیا تجربہ تھا ۔ اُس وقت آج کی طرح کوئی نیٹ یا موبائل کی سہولت نہیں تھی اور نہ ہمارے پاس کوئی نقشہ تھا ۔میرزہ رفیع صاحب نے ہمیں بار بار روکنے کی کوشش کی لیکن ہمارا امیر سفر تھا ایک ایسا شخص کہ جو ایک دفعہ فیصلہ کرے تو اُس سے کسی بھی قیمت پر پیچھے ہٹتا نہیں تھا بالکل ایسے جیسے تیر سے نکلا ہوا کمان! چنانچہ اُن کی زبان سے بات نکلی تھی اور امیر سفر کو اپنے فیصلے کا پاس تھا ۔ میرزہ رفیع نے گلیشیر پر سفر کرنے کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک سیر حاصل لیکچر دیا ۔اور ہمیں یہ بھی مشورہ دیا کہ ہم آفیون بھی اپنے ساتھ رکھیں کہیں صحت خراب ہو یا زیادہ تھکاوٹ ہو تو بہت کم مقدار میں لیا جائے ۔ ایک نوجوان کو بھی مبلغ پانچ سو روپے کرائے پر ساتھ جانے پر آمادہ کیا ۔

صبح چار بجے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ ساتھ ہی ایک زمینی گلیشر تھا جس کے نیچے سے جو پانی نکل کے بہتا ہے اُس پانی کو دریائے کابل اور اس زمینی گلیشر کو دریائے کابل کا منبع کہتے ہیں ۔ اس گلیشیر کے اوپر مٹی اور چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ر وڑے اور سنگ ریزوں کی بھر مار ہے اور نیچے پانی کی جمی ہوئی سخت تہہ ۔ ہمارے پورٹر نے ہمیں بتایا کہ اس گلیشیر کو ’’چٹی بوئے ‘‘کہتے ہیں ۔ ہم دیر تک گلیشیر کے نیچے سے اُبل اُبل کر نکلنے والے دریائے کابل کے منبع کو دیکھتے رہے ۔یہ پانی اُسی سرچشمے سے ہی گدلا اور خاک آلود ہے ۔ اندازے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ گلیشر بہت تیزی سے پگھل رہا ہے ۔

ہم چار گھنٹوں کی ہلکی چڑھائی چڑھنے کے بعد ایک ایسی جگے پر پہنچے جہاں اوپر جمی ہوئی برف کی سخت سطح اور عین نیچے بہت بڑا غار تھا اُس غار سے ایک ندی بہتی تھی اور غار کے اندر سے تیز اور ٹھندی ہواؤں کے ساتھ خوفناک اور غیر مانوس شور بھی آرہا تھا ۔ ہمارے پورٹر نے ہمیں بتایا کہ یہ اُس گلیشر کی شروعات ہے جس کے اوپر سے ہم آٹھ گھنٹہ پیدل چلیں گے اور اس گلیشر کو مقامی لوگ چلینگکیو آن کہتے ہیں ۔ اس کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً۱۷ ہزار فٹ اُونچائی پر واقع ہے جہاں سے گزرتے ہوئے کئی لوگ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لقمہ اجل بنے تھے ۔ ہم نے گلیشر کے نیچے موجود خوف ناک غار کی ایک جانب، جہاں چڑھنے کا راستہ تھا، سے گلیشر پر چڑھنا شروع کیا ۔ہم موت اور زندگی کی تلوار کے ایک باریک اور نازک دھار پر سے چل رہے تھے ۔ اس جگہے پرتھوڑی سی بھول چوک جان لے لیتی ہے ۔ اس گلشیر کے زیرو پوائنٹ سے چڑھائی چڑھناایک انوکھا احساس تھا ۔کیوں کہ ہم نے اپنی زندگی میں آج تک زمیں کے اوپر کبھی بھی ایسی جگہ یا ایسا مقام نہیں دیکھا تھا کہ جہاں چاروں طرف تا حد نگاہ برف ہی برف ہو، تیز اور ٹھنڈی ہواوں کے ساتھ گلیشر سے گرنے والے آبشاروں کے چھینٹے برف کے گولے بن کر چہروں پر پڑ رہے ہوں۔ کوئی دو سو گز چلنے کے بعد ہم ایک ایسی جگہے پر پہنچے تھے کہ جہاں ہماری چاروں طرف برفانی تودوں کے اوپر سے ندیاں بہہ رہی تھیں اور ایک جمے ہوئے برفانی ٹیلے کے اوپر سے ہم اوپر چڑھ رہے تھے ۔ ہمارے جسم ہم پر بھاری معلوم ہو رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اپنے اپنے بدن اپنے اوپر بوجھ کے طور پر لاد کے جا رہے ہیں ۔ یہ ایک ڈھلوانی راستہ تھا ، پھسلنے کی صورت میں موت یقینی ہوتی نظر آتی تھی ۔ہم بہت احتیاط سے چل رہے تھے کیوں کہ پچھلی رات ہی ان ناہموار راستوں میں حائل خطرات کے حوالے سے معلومات دی گئی تھیں ۔ سانس اندر لے جانے کے لئے کافی زور لگانا پڑتا تھا اور جب کوئی سانس اندر جاتی تھی تو اُس میں ایک کمی کا سا احساس سا باقی رہ جاتا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سب کچھ خواب میں ہو رہا ہے ۔ کان ہم سب کے بند ہو گئے تھے ۔ لیکن ہم چلتے رہے ۔ ہمارے پورٹر نے ہمیں تسلی دی کہ جب ہم اوپرپہنچیں گے تو چلنا ہمارے لئے آسان ہوگا کیوں کہ اوپر میدانی گلیشر ہے ۔

موت سے دوچار ہونے کا احساس اتنا شدید تھا کہ ہم جس لمحہ بھی ہماری نظر ایک دوسرے پر پڑجاتی تھی، ہم ایک دوسرے کی افسوس بھری نظروں سے گویا آخری بار دیکھنے کے انداز سے دیکھتے تھے ۔ چڑھائی ختم ہونے میں یہی کوئی ادھا گھنٹہ باقی تھا کہ ہم سب ، بشمول ہمارا بروغل والا پورٹرِ ، بے حال ہو گئے ۔ ہمارے پورٹر کے پاس ایک چائے جوش، چائے کی پتیاں اور اور چینی وغیرہ تھی ، ہم نے کچھ لکڑیاں بھی ساتھ رکھی تھیں ۔ اسی چڑھائی میں ایک ہموار پتھر نظر آیا جس کے اوپر ہم سب آسانی کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے ۔ چنانچہ ہم نے پڑاو ڈالا ، چائے بنائی ۔ مجھے یاد ہے کہ چائے کے اُبلنے میں آدھا گھنٹہ صرف ہوا کیوں کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے پانی میں جوش نہیں آتا تھا ۔ چائے تو پی لی مگر تھکاوٹ جوں کہ توں رہی ۔

اچھا یہ ہوا کہ ہمیں میرزہ رفیع صاحب کا نسخہ یاد آیا ۔ ہمارے بروغل والے پورٹر کے پاس آفیوں تھا لہذا ہم نے تھوڑا سا منہ میں ڈالا اور اور جب چلنا شروع کیا تو ایسا لگا جیسے ہم ہوا میں فٹ تھے لیکن بیگ محمد نے آفیون نہیں کھایا اور نہ ہی آفیون کھانے کے لئے ہم نے اُس پر کوئی زور لگایا ۔ ہمیں گلیشر کے میدانی سطح تک پہنچے کے لئے یہی کوئی دس منٹ کا راستہ تھا کہ بیگ محمد ہمت ہار گئے ۔ ایسی کمزوری کی توڑ کے طور پرہمارے پاس آفیوں کے سوا اور کوئی علاج نہیں تھا جو کارگر ثابت ہوسکے ۔ ہم نے بیگ محمد کو آفیوں کھانے کا مشورہ دیا ۔ بیگ محمد بضد تھے کہ وہ مر جائے گا لیکن آفیون نہیں کھائے گا ۔ ہم لوگوں نے آٖفیون کے فوائد اپنے اپنے انداز سے بیان کئے اور آفیوں کھانے سے چلنے کی جو ہمت ہم میں پیدا ہوئی تھی اُس کا تذکرہ کیا لیکن بیگ محمد ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ یہی کہتا رہا کہ وہ مر جائے گا لیکن آفیون نہیں کھائے گا ۔ ہم نے آٖفیون نہ کھانے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے صرف ایک جواب دیا جو کہ ہم سب کے لئے ایک سبق تھا ۔ بولے ’’ میں جب اپنی والدہ سے اجازت لے کے رخصت ہو رہا تھا تو ماں نے بولا تھا کہ بیٹابروغل میں لوگ آفیوں کھاتے ہیں جو کہ کافی بیماریوں کا وقتی علاج ہے لیکن تم کسی بھی حال میں آفیون کو ہاتھ نہیں لگانا افیوں اگر تمہیں موت سے بھی بچائے لیکن خبر دار! اُس لعنت کو ہاتھ نہیں لگانا۔‘‘

بیگ محمد کا یہ جواب سن کر ہم ششدر رہ گئے ۔ بیگ محمد نے آفیوں تو کسی بھی قیمت پر نہیں کھایا لیکن اپنی ماں کا نام لے کر ایک جست ضرورلگایا اور ہم سے آگے ہوکے مردانہ وار چلنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد ہم نے یہ چڑھائی عبورکی۔ گلیشر کے اوپر ابھی ابھی تازہ برف پڑی ہوئی تھی ۔ برف کے نیچے قدم قدم پر ہلکی اور قدرے نیلے رنگ کی لائنیں نظر آ رہی تھیں ۔ ہمارے مقامی پورٹر نے ہمیں یہ تنبیہ کی کہ ہم گلیشر کے انتہائی خطرناک مقام کے اوپر سے سفر کر رہے ہیں ۔ گلیشر کے اوپر جگہ جگہ جو لائنیں نظر آ رہی ہیں یہ در اصل بہت بڑے دراڑیں ہیں ۔ اگر غلطی سے کوئی بندہ ان درزوں میں گر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ سینکڑں فٹ نیچے زمین کی سطح پر گرے گا ۔ اس میدانی سطح کے اوپر چلتے ہوئے یہ اندازہ لگانا آسان تھا کہ گلیشر کیسے بنتے ہیں ؟ اس مقام کے دونوں اطراف میں فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیاں اسی گلیشر کی سطح سے تھوڑی اونچی نظر آتی ہیں ۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اُونچے پہاڑوں کے درمیان خالی جگہوں پر مسلسل برف باری سے برف کی اتنی موٹی تہہ جم جاتی ہے کہ پہاڑ کی چوٹیوں تک موٹی سطح بناتی ہے اور گرمیوں میں دھوپ پڑنے پر یہ برف تھوڑی سی پگھلتی ہے اور شام کو منجمد ہوتی ہے اور پگھلنے اور جمنے کا یہ عمل جب صدیوں تک محیط ہوتا ہے تو اس طرح کے گلیشر وجود میں آتے ہیں ( یاد رہے کہ یہ ہماری اپنی رائے ہے اس رائے کا تعلق کسی سائنسی تحقیق سے قطعاً نہیں ہے )۔

بہر حال ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے رہے ۔ چونکہ یہاں کوئی چڑھائی نہیں تھی ہم پرسکون تھے ، موسم بھی ٹھیک تھا ۔میں نے اپنے ریڈیو کی سوئی آل انڈیا کے میٹر بنڈ ( SW-31) پرگھمائی تو اتفاقاً یہ گانا چل رہا تھا ۔’’ ساتھی ہے خوب صورت اس موسم کو بھی خبر ہے ‘‘ میں نے بیگ محمد کی طرف دیکھا تو وہ مجھے واقعی بہت ہی خوبصورت لگے ۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ ’’ برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دل رُبا سا‘‘ ۔ یہ منظر ایسا تھا جیسے ہم کسی بڑے جہاز میں بیٹھیہوں اور پہاڑی سلسلوں کے اُوپر سے پرواز کر رہے ہوں، زمیں کا خشک حصہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ ہمارے چاروں طرف پہاڑی سلسلوں کی چوٹیاں آری کے نوکیلے دانتوں کی طرح جگہ جگہ ابھری ہوئی نظر آتی تھیں ۔ ہم چلتے رہے اور چلتے رہے ۔ ایک مقام ایسا آیا جہاں ایک بہت بڑا سا پتھر تھا جس کے نیچے غارنما جگہ تھی اور اُوپر ہموار سظح ۔

ہمارا مقامی پورٹر دیوانہ وار چھلانگ لگاکے اُس پتھر کے اُوپر چڑھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک لے جاکر ایک روح پرور آواز میں آذان محمدی ﷺ بلند کی۔ پورٹر کی آواز میں طاقت ، ہمت، حوصلہ اور ایک جادو تھا ۔ پورٹر کی سریلی آواز میں آذان سن کر مجھے اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آیا ؂ الفاظ ومعانی میں تفاوت نہیں لیکن، مُلا کی اذاں اور ہے مومن کی آزاں اور )۔ بے وقت آذان دینے کی وجہ ہم نے دریافت کی تو ہمارے پورٹر نے کہا کہ بس اس پتھر پر چڑھ کر آذان دینا ہوتا ہے ۔

یہ ایک عجیب واقعہ تھا جو کہ مجھے چبھتا رہا ۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے تھوڑا آگے جاکے اُترائی شروع ہوتی تھی ۔ ہم تیرہ گھنٹوں کی پیدل مسافت کے بعد درکوت کے چراگاہ ( غاری) پہنچ گئے ۔ اس’’ غاری دوری‘‘ میں ایک بوڑھا شخص باقی تمام نو جواں مرد اور خواتین تھیں۔ ہماری خوب خاطر مدارت کی گئی ۔ میرے دل میں وہ اذان والی بات کھٹکتی رہی۔

میں نے معمر شخص سے آذان کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ہمیں ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے تو ہمارا دادا ہمیں اساذان کے بارے میں قصہ سنایا کرتے تھے ۔ ہوا یوں ہے کہ درکھوت سے ایک نوجواں کی منگنی بروغل میں ہو ئی تھی۔ خزاں کے موسم میں( غالباً اکتوبر کا پہلا عشرہ ہوگا) یاسین درکھوت سے پانچ افراد بشمول دولہا بھائی بارآتی بن کر بروغل گئے ۔ پانچ دنوں کے بعد انہیں دلہن کو لیکر دوبارہ درکھوت پہنچنا تھا لیکن پانچ دن مکمل ہوئے وہ نہیں آئے چھٹا دن بھی مکمل ہوا اور پھر موسم سرما کی بارشوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا لیکن بارآتی قافلے کی واپسی نہیں ہوئی ۔ ادھر درکھوت میں دولہا کے خاندان کو یقین آگیا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے دولہا کی بارات بروغل میں ہی ٹہری ہوگی ۔ اُس وقت ذرائع مواصلات کا خاطر خواہ نظام بھی نہیں تھا لہذا دولہا کے خاندان والوں کا اگلے سال گرمیوں کے موسم تک بروغل گئے ہوئے باراتیوں سے رابطہ نہیں ہو پایا ۔ اور جب رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ بارات تو پچھلے سال ہی مقررہ تاریخ پر بروغل سے کوچ کر گئی تھی ۔ یہ ایک عجیب واقعہ تھا ۔ جب یہ بات یقینی ہوئی کہ باراتیوں کا یہ قافلہ موسم کی خرابی کی وجہ سے اس گلیشر میں ہمیشہ کے لئے بھٹک گیا ہوگا تو گاؤں والوں نے گم شدہ باراتیوں کی لاشوں کی تلاش کی مہم شروع کی ۔ یہ لوگ شکاری کتے بھی ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ سونگھ کر لاشوں کو برآمد کرسکیں۔ آخر کار انہیں ان بدقسمت باراتیوں کی لاشیں اُس پتھر کےنیچے ملیں جہاں اذان دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ اُس وقت سے یہ ریت ٹھری ہے کہ آج تک اس گلیشر کے اوپر سفر کرنے والے تمام مسافر اس مقام تک پہنچے کے بعد آذان محمدیﷺ بلند کرتے ہیں ۔ گلیشر میں موسم کا خراب ہونا موت کو یقینی بناتا ہے ۔ اس قافلے کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا ۔ اور اس قافلے نے اِس بڑے پتھر کے نیچے پناہ لی تھی لیکن بارش تھم نہ سکی اور جب بارش تھم گئی تب تک یہ تمام بارآتی راہی عدم ہو چکے تھے ۔ (جاری)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. AY bo maza arair,sakht risk ghani asumy,baig muhammad d ispa mutaasir arair.Hay buzhnat ganak chacha abu kivali?

Back to top button