تحریر: تہذیب حسین برچہ
۱۵ جنوری ۲۰۱۵ء کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی صبح تھی۔چاروں جانب آسماں کو چھُوتے گلگت کے بلند و بالا پہاڑ برف کی سفید چادر اوڈھے ایک طلسمی منظر پیش کر رہے تھے ۔جبکہ چنار کے قدیمی درخت جواں سال بیوہ کا وجود دِکھ رہے تھے اور پت جھڑ میں جھڑے پات سرِراہ آوارہ بکھرے ہوئے تھے۔درجہ حرارت منفی کے اوسط سے نیچے گرنے کے سبب روڑ کی دونوں جانب برف کی تہہ جمی ہوئی تھی۔راقم اپنے بغل میں رختِ سفر باندھے بھاگم بھاگ جٹیال بس سٹینڈ گلگت کی جانب روانہ تھااور موبائیل فون کو کان سے لگائے حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے جنرل سیکریٹری جمشید خان دکھی ؔ سے مسلسل رابطے کی کوشش کر رہا تھالیکن موبائیل فون کمپنیوں کی خراب سروس کے سبب بار بار رَبط منقطع ہوجاتا۔
حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے احباب ایک عرصے سے اسلام آباد سمیت لاہور کے ادبی حلقوں سے روابط بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک مطالعاتی دورے کا پروگرام بنا رہے تھے لیکن کوئی نہ کوئی وجہ پیروں کی زنجیر بن جاتی ۔گلگت بلتستان میں چونکہ سردیاں اپنے عرو ج پر تھیں اور برف پوش پہاڑوں سے وادیوں کا رخ کرنے والی یخ بستہ ہوائیں انسان کے جسم کی ہڈیوں تک سرایت کر گئی تھیں۔آخر کار سینئر شعراء نے ایک اجلاس طلب کرکے ۱۵ جنوری۲۰۱۵ء کی صبح کو راولپنڈی کی جانب روانگی کا عندیہ دے دیا تھا۔دوستوں کے ساتھ آوارگی کا موقع میسر آئے اور بندہء بشر اسے رد کرے یہ کفرانِ نعمت کے زمرے میں آجاتا ہے لٰہذا راقم نے بھی حامی بھر لی۔
خیر جب بس سٹینڈ جٹیا ل پہنچا تو دوستوں سمیت سواری کی عدم موجودگی پر راقم کے دل میں اضطراب کی لہریں سر اٹھا رہی تھیں۔نوجوان شاعر توصیف حسن توصیف ؔ سے رابطہ کرنے پر جواب ملا کہ آمد میں تاخیر کے سبب حلقہ اربابِ ذوق کا قافلہ کچھ دیر پہلے روانہ ہوچکا ہے۔پہلے پہل اپنی سماعتوں اور حسنؔ کی صداقت پر شبہ ہواتو تصدیق کے لئے موبائیل فون استاد نظیم دیا کو تھما دیا گیا۔دیاؔ صاحب نے کہا کہ واقعی راقم کے دیر کرنے کی عادت کی وجہ سے سواری چھوٹ گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نیٹکو کی گاڑی میں روانہ ہوکر پنڈی میں کاوراں میں شامل ہونے کامشورہ بھی دیا۔
سیانے کہتے ہیں کہ کوئی بھی عادت پختہ ہوجائے توچھٹکارہ پانے میں بہت سا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔لیکن راقم کی دیر کرنے کی عادت کا بچپن سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔سکول میں دیر سے پہنچنے کے سبب اساتذہ سے بید کھانے پڑتے جبکہ کالج میں پروفیسرز کے طعنے سننے کے بعد کئی بہانے بنانے پڑتے۔راقم نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ حلقہ اربابِ ذوق کے سینئر شعراء کو مطمئن کرنے کے لئے یادوں کی تہہ پر جمی گرد کو جھاڑتے ہوئے کالج کے دور کے کچھ بہانوں کو بطورِ استعمال کیا جائے۔لیکن اردو ادب کے نامور شاعر منیر نیازی کی مشہور نظم ذہن کے کسی گوشے میں نمودار ہوئی اور ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری اور مطمئن ہو ا کہ سینئر شعراء کسی بہانے سے مطمئن ہوں یا نہ ہوں لیکن منیر نیازی کی نظم کے سبب ضرور بخشش ہوگی۔
منیر نیازی نے کیا خوب کہا ہے۔
"ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلا نا ہو
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھاناہو
بہت دیرینہ رستوں میں کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یا د رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں”
منیر نیازی نے یہ نظم اپنی عادت سے عاجز آکر کہی ہو یا احساسِ تفاخر میں۔لیکن آج راقم کو اپنی دیر کرنے کی عادت کی وجہ سے ندامت ضرور ہوئی۔مزید دیر کرنے کی گنجائش نہیں تھی سو نیٹکو بکنگ آفس کا رخ کیا۔بکنگ آفس میں پہنچ کر مسرت کا احساس ہوا جب بکنگ کلرک نے گاڑی کی ساعتِ روانگی کے بالکل قریب ہونے کامژدہ سنا دیابلکہ اس کے ساتھ ساتھ بغیر ٹکٹ کے گاڑی میں سوار ہونے کا مشورہ بھی دیا۔راقم بنا کسی تاخیر کے گاڑی میں سوار ہوااور دوپہر۰۰:۱۲ بجے کے قریب روانگی ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ آفت کا پر کالہ ہو یا ساتھوں آسمان گردش میں ہوں تو کوئی بھی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی ۔لٰہذا راقم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔سواری تو وقت پر میسّر آئی لیکن خدا خدا کرکے آخری نشست نصیب ہوئی ۔شاہراہ قراقرم کا مسئلہ درپیش ہو اور آخری نشست بھی میسر آئے تو اسے قسمت کادَین سمجھ کر قبول کرنے میں ہی عافیت ہے ۔عزیز دوست عاجز ؔ مجنوں سے رابطہ کرکے جائے سفر دریافت کیا تو بونجی جگلوٹ پہنچنے کی خبر ملی ۔راقم بھی مناور کے مقام پر پہنچا تھا۔اس حساب سے ہمارے کوچ اور احباب کی سواری میں تقریباََ ایک گھنٹے کی مسافت کا فرق تھا ۔خیر اس بحث میں اعصاب پر زور ڈھالنے کے بجائے باہر کے مناظر سے محظوظ ہونا بہتر تھا۔
نیٹکو کی گاڑی شاہراہ قراقرم کی بل کھاتی ہوئی گھاٹیوں کو مسلسل عبور کر رہی تھی اور تین پہاڑوں کے سنگم کے قریب پہنچی تھی۔یہ وہ مقام ہے جہاں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے قراقرم،ہندوکش اور ہمالیہ آپس میں ملتے ہیں۔تھوڑی سی مسافت کے بعدبائیں جانب دنیا کا نواں بلند ترین پہاڑ نانگا پربت برف کی سفید چادر اوڑھے اپنے سینے میں سینکڑوں کوہ پیماؤں کی دردناک داستانیں لیے براجماں ہے۔
دو گھنٹے کی مسافت کے بعد راقم جب چلاس پہنچاتو گاڑی سے نکل کر عاجزؔ سے رابطہ کیاتو سن کے خوشی ہوئی کہ حاذ کا کارواں بھی چلاس پہنچاہے اور طعام کی غرض سے چلاس ہوٹل میں رُکا ہے ۔کنڈیکٹر کو تشکرانہ انداز میں خدا حافظ کہا اور ہوٹل کی تلاش شروع کر دی ۔تھوڑی سی کوشش ہوٹل ڈھونڈنے میں کارگر ثابت ہوئی ۔جہاں خوشی محمد طارقؔ ،جمشید خان دکھیؔ ،اقبال عاصی ؔ ،عبدالحفیظ شاکرؔ ،غلام عباس نسیمؔ ،احمد سلیم سلیمی ،محمد نظیم دیاؔ ،اشتیاق احمد یادؔ ،توصیف حسن توصیف ؔ ،عاجزؔ مجنوں،شاہ جہان مضطرؔ اور ناصرؔ نصیر جلوہ افروز تھے۔دوستو ں سے مل کر راقم کی آنکھوں میں خلاؤں کی جگہ آبادیاں پھیل گئی۔اور دل کو تسلی دی کہ جانِ برادر ! اب تو صعوبتیں ختم ہوگئی لیکن”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں”کے مصداق شاکرؔ نے یہ کہہ کر خطرے کی جھنڈی ہلادی کہ گاڑی میں مزید کوئی نشست خالی نہیں بلکہ عاجزؔ نے خواہش بھی ظاہر کی کہ اگر نیٹکو کوچ میں کوئی نشست خالی ہو تو وہ بھی سواری بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔تو راقم نے جواب دیا۔بھلے آدمی! گاڑی کی آخری نشست میں سفر کرکے یاں تک پہنچا ہوں اب تو خدشہ ہے کہ وہ بھی پرُ ہو خیر عاجزؔ نے ایک تمسخرانہ لہجے میں جلد ازجلد نیٹکو کی گاڑی میں سفر جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔عاجزؔ خوش گفتار اور سدا بشّاش رہنے والے نوجوان شاعر ہیں۔ان کو بیٹھے بیٹھائے اکثر تخلص بدلنے کی عادت ہے ۔پہلے پہل جعفر حسین زخمی ؔ تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے عاجزؔ ہوئے حسین جعفر کے بعد تازہ ترین اطلاع کے مطابق عاجزؔ مجنوں کے مرتبے پر پہنچے ہیں۔طبیعت میں لا ابالی پن کا غلبہ ہے اورسرِ راہ چلتے چلتے ایسا باآواز قہقہہ بلند کرتے ہیں کہ پاس سے گزرنے والے راہگیر بھی متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
چلاس ہوٹل سے نکل کر راقم نے نیٹکو کوچ کی کھوج شروع کر دی اور خوش قسمتی سے با آسانی مل گئی ۔کنڈیکٹر کو حالات سے آگاہ کیا اور دوبارہ سفر جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔پہلے پہل تو آخری نشست کی بھی پرُ ہونے کی غم ناک خبر سنا دی گئی مگر تھوڑی سی سوچ وبچار کے بعدکنڈیکٹر نے گلگت سے چلاس تک کی رفاقت کا مان رکھّا اور امیدوارِ آخری نشست کو معذرت کے بعد کرایہ بھی واپس کیا ۔بندہء بشر شکر گزاری کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوا ۔سواری شاہراہِ قراقرم کی بل کھاتی ہوئی گھاٹیوں سے گزر رہی تھی جبکہ دریائے سندھ لحظہ بہ لحظہ اپنی سمت خاموشی سے رواں تھا۔
سورج نے اپنا چہرہ پہاڑوں کے دامن میں چھپا لیاتھا اور شام اپنا پردہ کھول رہی تھی ۔فضا میں ایک کُہر آلود شگفتگی تھی جبکہ نیم تاریکی میں ڈوبے پہاڑ دل کی اضطرابی کیفیت کو مزید طول دے رہے تھے ۔ طبیعت میں بے وجہ اداسی امڈ رہی تھی اور گاڑی ویران سے رہگزاروں سے کسی بھٹکے ہوئے مسافر کے طرح گزر رہی تھی۔۱۱ گھنٹے کی طویل اور صبر آزما سفر کے بعدبشام کے مقام پر طعام کی غرض سے رکے۔بازار میں زندگی اور بشاشت کی لہر رواں دواں تھی اورہوٹلوں میں مسافروں کی بہتات تھی ۔بشام بازار میں راقم کی ملاقات سکول کے ہم درس سہیل احمد سے ہوئی جو اُن دنوں راولپنڈی میڈکل کالج (RMC)میں زیرِ تعلیم تھا۔سہیل احمد نہایت گرم جوشی سے ملا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سہیل بھی ہماری ہی سواری کا ہمسفر تھالیکن کوچ میں سواریوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ اور گردشِ ایام کی دھول ملاقات میں تاخیر کا سبب بنی۔بشام ہوٹل میں سہیل احمد نے یادوں کا پِٹارہ کھول کر سکول کے شب و روزپر طویل گفتگو کی ۔گاڑی کی ہارن پر متوجہ ہوئے اور بھاگم بھاگ گاڑی میں سوار ہوئے اور ایک دفعہ پھر مختصر وقفے کے بعد سفر کا آغازہوا ۔کوچ اپنے منزل کی جانب روانہ تھی ۔سہیل اپنی نشست چھوڑ کر راقم کے پہلو میں خالی نشت پر جلوہ افروزہوا اور ایک دفعہ پھر گفتگو کا آغاز ہوا ۔کچھ سکول دور کے شرارتوں کے قصے تو کبھی دیگر ہم جماعتوں کے تذکرے۔کچھ دیر بعد ہماری گفتگو بھی اپنے اختتام کو پہنچی اور گاڑی میں قبرستان کی سی خاموشی پھیل گئی۔
چاروں جانب ہولناک سنّاٹا چھایا ہوا تھاجبکہ آسمان میں چاند کو دیکھ کر لگتا تھاجیسے بے خوابی کی عادت سے مجبور ہو جبکہ گاڑی کا لپکتا ہوا سایہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔مزید تین گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی حسن ابدال کے مقام پر پہنچی ۔عاجز ؔ سے دریافت کرنے پر پتا چلا کہ دوستوں کی سواری ایبٹ آباد پہنچی ہے ۔راقم نے دل کو تسلی دی کی گلگت سے راولپنڈی کا طویل سفر دیر کرنے کی عادت کے سبب کشمکش میں گزرا لیکن اب منزل پہنچ کر دوستوں کی صحبت اور سکون میسر آئے۔صبح ۴ بجے کے قریب ہماری گاڑی راولپنڈی کے حدود میں داخل ہوگئی تھی ۔
جاری ۔۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button
ایک کمنٹ