ڈاکٹر محمد زمان داریلی
بولوں تو میرے باہر کا انسان مار دیگا
نہ بولوں تو میرے اندر کا انسان مار دیگا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھٹیاں گزارنے پاکستان میں تھا میں نے اْن سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اس وقت وہ اقتدار میں نہیں تھے بلکہ اقتدار کی باقائدہ مشک کر رہے تھے لیکن ایک مشکل پیش آئ وہ یہ کہ اْن کی صبح دن کے گیارہ بجے ہوتی ان کے کسی قریبی سے فون پر ملاقات کا وقت طے کرنے کو کہا تو وہ صاحب ان کا نمبر تو دیگئے مگر خود بات کرنے سے معزرت کی وجہ بےوقت تنگ کیے جانے کا خوف تھا اْس وقت یہ حال تھا تو اب کیا ہوتا ہو گا اقتدار کا سورج بھی ایسے فرمانبرداروں کے سروں پر نکلتا ہے ہم جیسے نافرمانوں جن کی کھوپڑی میں ہر وقت دھرتی کی فکر ہو کے قریب سے بھی اقتدار کا سورج گزرنا گوارا نہیں کرتا۔
خیر میں نےان کے اس فرمانبردار کا دیا ہوا نمبر ملا دیا۔ موصوف نے نمبر اٹھایا سلام دعا کے بعد شام ساڑھے چھ بجے ملاقات کا وقت بتایا لیکن میرے اصرار پر آدھ گھنٹہ پہلے ملاقات پر راضی ھوے کیوں کہ ان سے ملاقات کے بعد میں غذر جا کے ساس اور دیگر سسرالیوں کی زیارت کر کے ثواب سسرالی حاصل کرنا تھا۔
ویسے بھی میں شہیدوں کی سر زمین غذراور وہاں کے لوگوں سے بہت پیار کرتا ہوں، اسی پیار کا ہی تو نتیجہ ہے کہ میں وہاں ازدواجی کھونٹی کے بندن میں ہمیشہ کے لیے بْن گیا ھوں۔ اس کے علاوہ بھی میں دوران ملازمت ضلع غذر کے ہر طول و عرض کا ذاتی طور پر قریب سے مشاہدہ کر چکا ھوں اور تقریباً ہر گاوُں کے کسی نہ کسی گھر سے روزی روٹی سے اپنے پیٹ کا جہنم بھر چْکا ھوں۔
غذر کے بارے میں یہ کہونگا کہ معاشرتی اقدار رسم ورواج رشتے ناتے اگر زندہ ہیں تو پورے گلگت بلتستان میں وہ ضلع غذر ہے باقی ضلعوں میں بہت ملاوٹ آئ ہے یقین نہیں آتا تو ایک بار میرے اس دعوے کو اپنی آنکھوں سے مشادہ کر سکتے ھو میں تو یہ کہوں گا جس نے غذر نہیں دیکھا ھے اْس نے کچھ نہیں دیکھا ھے
(جاری ہے)