کالمز

گلگت بلتستان اور تعلق کشمیر کل سے آج تک

قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی ملک یا علاقے پر کسی دوسری قوم کا اقتدار مستقل قائم نہیں رہتا۔ حکومت اور اقتدار ہمیشہ مختلف رنگ، نسل، مسلک اور مذہب کے ماننے والے افراد، خاندانوں، جماعتوں اور اقوام میں گردش کرتے رہے ہیں۔ تہذیبیں اپنے عروج کو پہنچتی رہی ہیں، نوآبادیاتی قبضے ہوتے رہے ہیں، سلطنتیں کھڑی ہوتی رہی ہیں اور پھر انہیں عظیم تہذیبوں، استعماری قوتوں اور سلطنتوں نے زوال دیکھے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہر قوم کے لیے ریاست کا حق تسلیم کرنے کے باوجود عروج و زوال کا یہ الٹ پھیر اپنی جگہ جاری رہا ہے۔ دنیا میں آباد اقوام کی قوت، اقتدار اور سیاسی اثرورسوخ میں واضح فرق موجود ہے۔ بعض قومیں معاصر اقوام سے قوت و اقتدار میں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے قرب وجوار میں رہنے والی اقوام پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں اور ان کا یہ غلبہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ عالمی طاقت کے طور پر خود کو منوا لیتی ہیں جبکہ بعض قومیں اپنے علاقے پر بھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ پاتیں۔ریاست جموں و کشمیر، تبت، گلگت اور بلتستان کی تاریخ اقتدار کے ایک طاقت سے دوسری طاقت کو منتقل ہونے کی تاریخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مختلف علاقوں پر مختلف اوقات میں مختلف طاقتیں برسراقتدار رہی ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جو کوئی تاریخ سے اپنا حق حکمرانی ثابت کر لیتا ہے وہ اپنا اقتدار قائم کر لیتا ہے۔ تاریخ سے واقفیت اپنا حق حکمرانی جتانے کے لیے ضروری ہے۔ گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں تاریخ کی تحریف شدہ صورت پڑھائی جاتی ہے اور طلبہ کو ان کے ماضی سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ اسی تاریخی بددیانتی کے سبب ہم اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ آخر ہم کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور ہماری منزل کہاں ہے؟

ساتویں صدی عیسوی کے ایک چینی سیاح فاہیاں نے اپنے سفرنامے میں اس علاقے کا ذکر کیا ہے۔ گلگت بلتستان کو اس نے "پلور” کے نام سے ظاہر کیا ہے۔ پلور کی سرحدیں موجودہ چترال اورسوات سے لے کر مشرق میں تبت تک اور چلاس کوہستان سے لے کر خنجراب تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وسیع سلطنت کا صدر مقام موجودہ خپلو (بلتستان) تھا۔ عرب مورخین نے اس علاقے کا نام بعدازاں بگاڑ کر "بلور” بنا دیا۔ بعض لوگ اسی وجہ سے اس علاقے کو بلاورستان بھی کہتے ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ تبت کے زیرِ تسلط آیا۔ تبتی دور حکومت میں بلتیوں اور تبتیوں نے مل کر چینی فوج کو گلگت کے مقام پر شکست دی۔ تبت کی ثقافت کا اثر آج بھی گلگت بلتستان پر واضح ہے، بلتی زبان تبتی زبان کی ہی ایک شاخ ہے۔تبتی سلطنت کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان مختلف حصوں میں بٹ گیا اور گلگت، چلاس میں دردستان، ہنزہ اور نگر میں بروشال جبکہ بلتستان میں شگر، خپلو اور سکردو کی ریاستیں وجود میں آئیں۔ اسی طرح سولہویں صدی عیسوی میں سکردو کے مقپون خاندان کے ایک چشم و چراغ راجہ علی شیر خان انچن (جنہیں مغل تاریخ دان علی رائے تبتی کے نام سے یاد کرتے ہیں) نے پورے گلگت بلتستان کو ایک بار پھر متحد کیا اور چترال سے لے کر لداخ تک حکومت قائم کی۔ اس حکومت کی شان و شوکت خپلو، شگر اور کھرمنگ میں موجود قلعوں سے ظاہر ہوتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہنزہ میں موجود بلتت اور التت قلعے بلتی بادشاہ نے اپنی شہزادی کے لیے بنائے تھے جس کی شادی ہنزہ میں ہوئی تھی۔ گلگت کے قریب ایک پولو گراونڈ بھی ہے جسے مقپون پولو گراونڈ کہتے ہیں، یہ بھی اسی دور میں بنایا گیا تھا۔ سکردو میں قلعہ کھرپوچو، گنگوپی نہر، سدپارہ جھیل پر بنایا گیا بند اور چین کے ساتھ تجارتی شاہراہ براستہ مزتغ بھی اسی دور کی یادگاروں میں شامل ہیں۔تاریخ ہندوستان اور تاریخ فرشتہ میں ملا قاسم فرشتہ نے ایک تاریخی واقعے کا ذکر کیا ہے جب مغل فوج کی لڑائی تبتی(بلتی) فوج کے ساتھ کشمیر کے شمالی پہاڑوں پر ہوئی۔ اس لڑائی میں مغل فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں مغل شہنشاہ اکبر نے بلتی بادشاہ علی رائے یعنی علی شیر خان انچن کے پاس ایک مندوب بھیجا اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی، یوں مغل دربار میں علی رائے نے اکبر سے ملاقات کی اور ایک مغل شہزادی کی شادی بلتی شہزادے کے ساتھ ہوئی۔ مغل شہزادی کا نام گل خاتون تھا جس کا تاریخی ثبوت سکردو میں مغل شہزادی کے نام سے بنایا گیا مندوق گھر ہے (مندوق بلتی زبان میں پھول کو کہتے ہیں)۔رائے علی شیر خان کا زمانہ مقپون خاندان کے عروج کا زمانہ ہے۔ انچن کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں آدم خان اور عبدل خان میں جھگڑا ہوگیا جس کے بعد مقپون خاندان کا زوال شروع ہوگیا اور گلگت بلتستان پھر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔

اس کے بعد کے عرصے میں وقتاً فوقتاً یہاں مختلف خاندان حکومت کرتے رہے۔ جموں و کشمیر کے ڈوگرہ راجوں کے زمانے میں ہمالیہ کی جانب زورآور سنگھ کی قیادت میں فوج کشی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آخری اور انیسویں صدی کے ابتدائی برس گلگت بلتستان کے لیے بے حد تکلیف دہ سال تھے اور یہاں شدید سیاسی عدم استحکام رہا۔ 1840ء میں بھی زور آور سنگھ نے بلتستان پر حملہ کیا۔ ڈوگرہ اقتدار کے خلاف مزاحمت ہوئی لیکن کچھ خاص کامیابی نہ مل سکی۔ 12 دسمبر 1841ء کو زور آور سنگھ قتل ہوگیا تو احمد شاہ اور دیگر نے سکردو اور بلتستان میں بغاوت کا علم بلند کیا مگر آزادی کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوسکی اور بلتستان 1842ء میں پھر ڈوگرہ حکومت کے قبضے میں چلا گیا۔ انگریزوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کے ساتھ امرتسر کے معاہدے پر دستخط کرتے وقت گلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ گلاب سنگھ کے حوالے کیا۔ بلتستان پر ڈوگرہ فوج پہلے ہی قابض ہوچکی تھی، اس قبضے کے خلاف دیامر، گلگت اور غذر میں عوام نے گلاب سنگھ کی فوجوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ راجہ گوہر امان، ملک امان میر ولی نے مہاراجہ کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ تانگیز، داریل اور چلاس کے لوگوں نے بھی ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ بھوپ سنگھ پڑی میں اس مزاحمت کی یادگار موجود ہے ڈورکھن، مڈوری اور گلگت کے قلعوں میں شدید جنگیں ہوئیں۔ 1860میں گوہر امان کی وفات کے بعدگلاب سنگھ کے بیٹے رنبیر سنگھ نے دوربارہ گلگت کا اقتدار قبضے میں کر لیا۔ 1891 میں انگریزوں کی مدد سے ڈوگرہ افواج نے نگر اور ہنزہ پر بھی کافی مزاحمت کے بعد قبضہ کر لیا۔ چند ایک مزاحمتی کارروائیوں کے باوجود گلگت بلتستان پر ڈوگرہ حکومت نومبر انیس سو سنتالیس تک رہی۔

تقسیم ہند کے بعد ہمارے عوام نے کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں ان علاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا۔کرنل مرزا حسن خان کی سربراہی میں ان سکاوٹس اور مقامی مزاحمت کاروں نے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر 1947 کو بونجی چھاونی پر حملہ کر کے ڈوگروں کو گلگت سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس مقامی مزاحمتی تحریک نے گلگت اور استور کے علاقے بھی آزاد کرا لیے۔ اسی بغاوت کے دوسرے مرحلے میں بلتستان کے راجاوں نے بے سروسامانی کے عالم میں کرگل تک کے علاقے کو آزاد کیا۔ اس موقع پر ان آزاد کرائے گئے علاقوں نے ابھی اپنے مستقل کا فیصلہ کرنا تھا مگر بدقسمتی سے بعض افراد نے الحاق ڈرامہ رچا کر یہاں ایف سی آر جیسا کالا قانون نافذ کر دیا گیا۔گلگت بلتستان کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے اس علاقے کی پاکستان میں آئینی شمولیت ممکن نہیں رہی اور یہ علاقہ متنازعہ ہو گیا ہے۔ کشمیری رہنما اس علاقے پر ڈوگرہ راج کے قبضے کی بنیاد پر اسے کشمیر کا حصہ قرار دے رہے ہیں جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

گلگت بلتستان کو کشمیر کے مستقبل سے منسلک کرنے کی بجائے ہمیں وفاق سے اقوام متحدہ کی قردادوں کی پاسداری کرتے ہوئے گلگت بلتستان کویکم نومبر 1947 کی پوزیشن پربحال کرنے اور دفاع اور کرنسی کے علاوہ تمام اختیارات مقامی حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button