کالمز

پردیسی محبتیں!

ماں دھرتی گلگت بلتستان کے لوگوں میں بہت محبت، پیار اور احترم پایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ اس کا عملی اظہار جی بی کی حدود سے باہر باہرہی ہوتا ہے ، یاد پڑتا ہے کہ 2011 میں سفر حج کے دوران جب جدہ ائیر پورٹ پہنچے ، تو حجاج کا رش دیکھ سر چکرانے لگا ، کچھ دیر پریشانی کے بعد ایک عربی لباس میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو باری باری بسوں پر بٹھا کر سوئے حرم روانہ کر رہاہے ، چونکہ الحمدللہ عربی زبان سے کچھ نہ کچھ واقفیت تھی ، سیدھے اس کےپاس پہنچا اور عربی میں مخاطب ہوا تو پہلا سوال کیا کہاں کے ہو ؟ پاکستان کا ، جواب میں عرض کیا ، پاکستان کہاں کے ؟ اس کا سوال تھا ، جی بی کا ! یہ جواب سننا تھا کہ فورا گلے سے لگایا اور کہنے لگا خدا کیلئے ہم پر اپنی عربی کا رعب ہم پر مت جماو ، پھر فورا ہاتھ سے پاسپورٹ لیا ، اور شنا میں کہنے لگا : مو گہ استورئے ہانس ( میں بھی استوری ہوں) اس کے بعد پہلی بس میں نہ صرف سوار کروایا بلکہ اس قافلہ کا امیر بھی بنایا ، اور کھانے پینے کی ڈھیر ساری چیزیں بھی ساتھ میں تھماد یں ، اس کے بعد حرم شریف کے سامنے پہنچے تو کعبۃ اللہ کی ہیبت اور اپنے گناہوں پر شرمساری کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کیا جائے ؟ ابھی تک ہوٹل کا انتظام نہیں ہوا تھا ، ابھی کچھ دیر ہی گذری تھی کہ ایک نوجوان نے پوچھا حاجی صاحب کیا پریشانی ہے ؟ بتانے پر ہاتھ سے سامان اٹھا کے کہنے لگا : مو استورئے ہانس ( میں بھی استور کا ہوں ) اس نوجوان کا نام سرسید تھا ، بعد میں ان سے کافی بار ملاقات ہوئی ، اب کہاں ہیں معلوم نہیں ، جہاں بھی ہیں اللہ پاک ان کو سلامت رکھے۔

اس کے بعد عرصہ دراز مکہ مکرمہ مقیم مولنا محبوب احمد گلاپور والوں کے صاحبزادہ بھائی رحمت اللہ ، برارد مقصود احمد سے ملاقات ہوئی ، گھر لے گئے ، اور واپسی تک اتنی محبت سے خدمت کی کہ شاید سپاس گذاری کیلئے الفاظ بھی نہ ملیں ، اس کے بعد جب بھی حرمین کا سفر نصیب ہوا ، انہی کا گھر مسکن ٹھہرا ، مولنا مقصود احمد کا گھر گلگت بلتستان کے حجاج کی خدمت کیلئے گویاکہ وقف ہے ، جی بی کا شاید ہی کوئی شخص دیار حرم کا مسافر بنا ہو اور ان کی خدمت سے مستفید نہ ہوا ہو ، نیز ان کے مسلک کی بھی زیادہ قید نہیں ، میں نے اپنی آنکھوں سے کئی دوسرے مکاتب فکر کی قد آور شخصیات کو ان کے ہاں دیکھا ہے ، بلکہ سابق ایم ایل ایے جناب دیدار علی صاحب سے میری پہلی ملاقات مدینہ منورہ میں انہی کے دولت کدہ پہ ہوئی تھی ، اسی طرح مکہ مکرمہ میں مقیم ڈاکٹر عبد القیوم صاحب اور ان کے صاحبزادوں ڈاکٹر احمد ، ڈاکٹر محمد کی محبتیں ، احسانات ، اور پیار بھی بہت زیادہ رہا ، پھر یہی رسم وفا مدینہ منورہ میں قاری احمد صاحب ، چاچا عبدالظاہر گلاپور والے نبھائے ہوئے ہیں ، اللہ پاک ان محسنین کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے ، اور سدا سلامت رکھے ،میں زبانی شکریہ ، مہربانی طرح کے فرسودہ الفاظ اداکرکے ان کی بےپناہ محبتوں کی توہین نہیں کرنا چاہتا ، لیکن میرا رب خوب جانتا ہے کہ یہ دل ان کا کس قدر مشکور واحسان مند ہے! ،

اس کے بعد ایک دفعہ جب میں کسی عرب ملک میں تھا ، تو ایک سٹوڈنٹ نے بتایا کہ سر ڈو یو نو ۔۔۔۔۔۔ اینڈ ۔۔۔۔۔۔ اور کنٹین میں کام کرنے والے دو لڑکوں کا نام بھی لیا ، میں نے کہا نہیں جانتا ، کیوں ؟ کہنے لگا دے آر گلگتیز ! اور وہ روزانہ آپ کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں ، بس پھر رہا نہیں گیا ، جو ں ہی بریک ہوئی بھاگم بھاگ کنٹین پہنچا تو ہنزہ اور اوشکھنداس کے دو لڑکے تھے ، دیکھتے ہی پہچان لیا ، اور ایسے دیوانہ وار آکر لپٹ گئے کہ کیا کہوں ، محبت کی شیرینی روح تک محسوس کی ، پھر شکوہ بھرے لہجے میں کہنے : سر اچاک دیزی بلے تھئی بارار پرو جونیس ، ہر چھک تھئے پون چکونس ، لیکن تو اسو کچ وانو اکی نے ، جیک ریال گہ ڈالریس گلتئی چن پھش تو ناتھی گے ؟( بھئی اتنے دنوں سے آپ کی آمد کا سنا ہے ، اپ کی راہ تکتے ہیں ، لیکن آپ ہیں کہ ادھر کا رخ ہی نہیں کرتے ؟ کہیں ریالوں اور ڈالروں کی محبت وطن کے پیار پہ غالب تو نہیں آئی ؟

ان کا پیار بھرا یہ شکوہ سن کر انتہائی شرمندگی بھی ہوئی ، اور دونوں پر بہت پیار بھی آیا ، پھر روزانہ بریک میں سٹاف روم کی بجائے بھاگم بھاگ ان کے پاس پہنچ جاتا ( کوئی یہ سمجھے کہ وہ کنٹین مین تھے ، تو مفت کے سموسے ملتے تھے اور چائے ، وہ تو ملتے ہی تھے ، لیکن مری ملاقات کی وجہ محبت ہی تھی ) حتی کہ بعض اساتذہ بھی کہتے تھے کہ : لیٹ ہم گو ٹو گلگتیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button