دو پہاڑی سلسلوں کوہ قراقرم اور ہمالیہ کے دامن میں 9968 مربع میل پر محیط بلتستان جسے آٹھویں صدی عیسوی تک پلولو کے نام سے جانا جاتا تھا آج سرزمین بے آئین ہے اور متنازع سمجھا جاتا ہے۔ تبت اور لداخ والے اس پورے علاقے کو بلتی اور یہاں کے باشندوں کو بلتی پا کے نام سے پْکارتے تھے۔ دوسری صدی عیسوی کے محقیقین اس علاقے کا بالتی کے نام سے ذکر کرتے تھے۔ تاریخی حوالے سے بلتستان کے 91فیصد پاشندے تبتی نڑاد ہیں اور تبت والے زمانہ قدیم میں بلتستان کو نانگ گونگ کے نام سے پْکارتے تھے۔ کشمیری اس علاقے کو بوٹن سوری بوٹن یعنی خوبانیوں کا شہر پکارتے تھے۔ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ پولو اس خطے کا قدیمی کھیل رہا ہے اور زمانہ قدیم میں اس علاقے کے لوگوں کو ‘پولولو’ کے نام سے پکارا جاتا تھا یہی سبب ہے کہ ا?ج بھی گلگت کے بعض باشندے بلتستان والوں کو اسی نام سے پْکارتے ہیں۔ لیکن آج یہ علاقہ بلتستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلتستان فارسی کا لفظ ہے۔ اس خطے میں اسلام کی تبلیغ کے لیے ایرانی مبلغین کا بڑا عمل دخل رہا جس کے سبب اس پورے خطے میں بولی جانے والی زبانوں پر فارسی کی گہری چھاپ ہے۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ یہاں کے لوگوں نے بلتی رسم الخط کو بھی ترک کر دیا اور بلتی زبان کو فارسی اور عربی رسم الخط میں لکھا جانے لگا۔ حالانکہ بلتی زبان جسے ‘اگے’ کہا جاتا ہے،کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط آج بھی بلتستان کے بعض تاریخی مقامات پر اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ بلتی زبان کی ترویج اور اسے ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے بہت سے لوگ عملی کوشش کر رہے ہیں۔
بلتی ایک قدیم زبان ہے اور تبت میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان رہی ہے۔ اس زبان کا تعلق سائنو تبتین زبانوں کی تبت برمن شاخ سے ہے۔ تبت، لداخ، بھوٹان اور شمالی نیپال میں اس زبان کی مختلف صورتیں آج بھی رائج ہیں۔ بلتستان اور اْن تمام خطوں کا جہاں یہ زبانیں بولی جاتی ہیں اگر آج موازنہ کیا جائے تو کہیں سے نہیں لگتا کہ زمانہ قدیم میں یہ تمام خطے ایک ہی مشترک ثقافت رکھتے تھے۔ اس کی چند اہم وجوہ میں سیاسی حالات میں تبدیلی اور بلتستان کے علاقے میں اسلام کی اشاعت ہے۔ 842ء میں تبت کے بادشاہ لانگ درما قتل ہوئے اور بلتستان کو تبت سے الگ ہونا پڑا۔ چودہویں صدی کے وسط میں مبلغ اسلام سید علی ہمدانی کے ہاتھوں اس علاقے کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔ سہولیویں صدی کے اوائل تک یہاں کی تقریباً تمام آبادی اسلام قبول کر چکی تھی اور اس طرح بلتستان کا تبت کے ساتھ روحانی اور معاشرتی رابطہ منقطع ہو گیا۔ اشاعت اسلام کے بعد بلتی زبان میں بدھ مت کی مذہبی اصطلاحات کی جگہ عربی اور فارسی اصطلاحات نے لے لی اور بلتی میں عربی اور فارسی کے لفظ بھی بڑے پیمانے پر شامل ہوئے۔ اس تبدیلی نے بلتی زبان میں بعض نئے لہجوں کو جنم دیا جنہیں آج بھی بلتستان کے مختلف علاقوں میں سنا جا سکتا ہے۔قبول اسلام کے بعد جہاں بلتیوں کا تبت سے روحانی، سیاسی اور معاشرتی رابطہ منقطع ہوا اسی طرح بلتی زبان بھی تبتی سے علیحدہ ہوئی۔ اس تبدیلی کے باعث بلتی کا درجہ ایک ایسی زبان سے جس میں ادب تخلیق کیا جا رہا تھا سے گھٹ کر ایک مقامی بولی کا سا ہو گیا۔ لیکن بلتستان کی جعرافیائی تنہائی نے بلتی زبان کا ماضی سے رشتہ ختم نہیں ہونے دیا یہی سبب ہے کہ آج بھی تبتی اور بلتی زبان میں مشترک الفاظ موجود ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بلتی زبان کی باقاعدہ تعلیم کی جانب بہت تاخیر سے توجہ دی گئی۔ بلتی زبان کی ترویج کے لیے پہلی مرتبہ 1973 میں خپلو سے تعلق رکھنے والے مولوی عبدالرحمن نے بلتی قاعدہ اور کھرمنگ غاسنگ سے تعلق رکھنے والے مرحوم فدا حسین صاحب نے بلتی گرائمر اور بول چال جیسی بنیادی کتب مرتب کیں۔ بلتستان کے زیادہ تر مقامی لوگ منگول قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو جسمانی خصائص کے اعتبار سے تبتی نسل کے مقامیوں سے قدرے مختلف ہیں۔ اشاعت اسلام کے دور میں کشمیر سے سید گھرانوں نے بھی بلتستان کا رخ کیا، سادات کے یہی خانوادے یہاں اسلام کی ترویج میں پیش پیش رہے۔ سادات کی نسلیں آج بھی یہاں مقیم ہیں۔ بلتی شاعری کو بلتی تہذیب و ثقافت میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ ابتدا میں بلتی منظوم کلام کو ‘خلو’ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں رگیانگ خلو، رزونگ خلو، یود خلو بلتی شاعری کے اہم موضوع ہوا کرتے تھے۔ بلتستان کے بہت سے علاقوں میں یہ منظوم کلام اج بھی سنا اور سنایا جاتا ہے اور آنے والے نسلوں کو ان کے تہذیبی ورثے کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ زمانہ قدیم میں ‘رگیانگ خلو’ خفیہ پیغام رسانی کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن آج یہ تاریخ سے اگاہی کے لیے ایک نئے ڈھنگ سے ادبی نشستوں کا موضوع ہے۔ اسی طرح رزونگ جسے آج کی زبان میں ڈرامہ کہا جاتا ہے، موسم سرما کی لمبی راتوں میں سْنانے کا رواج عام تھا، اور موسم کی سختیوں کے باعث جب یہ علاقہ باقی دنیا سے کٹ جاتا تھا تو راتیں کاٹنے کا ایک عمدہ ذریعہ تھا۔ اشاعت اسلام کے بعد بلتی زبان و ادب کو نئے موضوعات ملے، اور بلتی میں قصیدہ گوئی، مرثیہ گوئی اور نعت گوئی نے خْلو کی جگہ لے لی اور خْلو چند حلقوں تک محدود ہو گیا۔ بلتی کی مقامی رسوم، تہوار اور میلے جدید تہذیب اور معاشرت کے اثرونفوذ کے باوجود کئی مقامات پر آج بھی بڑی شان کے ساتھ منائے جاتے ہیں، بعض جشن تو پورے بلتستان کی سطح پر اجتماعی طور پر منائے جاتے ہیں، ان میں جشن مے فنگ اورعید نوروز قابل ذکر ہیں۔ مے فنگ بلتیوں کا قدیم تہوار ہے جو کافی عرصے سے منایا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے بْزرگ لوگ اس تہوار کی تشریح سے قاصر ہیں کہ یہ کیوں منایا جاتا ہے۔ پھر بھی ہر سال 21دسمبر کی رات کو پورے بلتستان کی سطح پر مے فنگ بڑے جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس شام کو بلتستان میں خصوصی تقریبات اور لذیذ کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اپنے عزیزوں کواس دن دعوت دینا یہاں کی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح عید نوروز بلتستان کا ایک اور اہم تہوار ہے جو ایران کا قومی تہوار بھی ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ دن تاج پوشی امام علی علیہ السلام کا دن بھی ہے اور اسے جشن آمدِ بہار کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عرش سے فرش بچھانے کا دن بھی کہتے ہیں۔یہاں کے باشندے زمانہ قدیم سے ہی صلح پسند، امن دوست، خوش اخلاق، مہمان نواز اور فن و ادب کے دلدادہ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس علاقے پر بھی شدت پسندی کے مہیب سائے پھیلنے لگے ہیں۔ پولو بلتستان کا قدیمی اور قومی کھیل ہے۔ پولو کا کھیل دراصل بلتستان سے ہی دنیا میں متعارف ہوا۔ پولو بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گول چیز کے ہیں۔ یہ کھیل بلتستان میں آج بھی شاہی کھیل کے طور پر کھیلا جاتا ہے۔ بلتستان کو زمانہ قدیم سے ہی اس علاقے کی بڑی تجارتی گزرگاہ کے طور پر استعمال کیاجاتا رہا ہے۔ یہاں سے تبت، کاشغر، لداخ، کشمیر، ہند اور یارقند کے ساتھ تجارتی لین دین قائم تھا، لیکن جعرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث ا?ج اس علاقے کا یہ تابناک ماضی تاریخ کا ایک خواب نظر آتا ہے۔ بلتستان کی معیشت دستکاریوں سے جڑی تھی لیکن اب سیاحت کی صنعت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہاں کی دیسی صنعتوں میں بارچہ بافی جسے بلتی زبان میں (چھرا) اور اونی چادر جسے (قار)کہا جاتا ہے کی تیاری کی صنعتیں بے حد اہم رہی ہیں لیکن یہ صنعتیں اور ان کے کاریگر اب معدوم ہو گئے ہیں۔ بلتستان کے لوگ گھریلو ضرروریات کی چیزیں بھی مقامی طور پر دیسی طریقے سے بنایا کرتے تھے اور خطے کی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ ہند، کشمیر اور تبت کو برآمد بھی کرتے تھے۔ لیکن بلتستان کی یہ تمام گھریلو صنعتیں اب سکردو اور گلگت میں قائم آثار قدیمہ کی دکانوں کی سجاوٹ بن کر رہ گئی ہیں۔ لکڑی سے بنائے جانے والی اشیا جن میں حْقہ، تیر کمان، تلوار اوربیلچہ شامل ہیں، یہاں کی صنعت کا ایک اہم حصہ تھیں لیکن یہ صنعتیں بھی اب ناپید ہو چکی ہیں۔ بلتستان پر مقبون،اماچہ اور یبگو خاندان نے عرصہ دراز تک حکمرانی کی لیکن تاریخ بلتستان میں مقپون حکومت کے علاوہ دوسرے خاندانوں کے بارے میں اب تک کوئی خاص معلومات اکٹھی نہیں کی جا سکیں۔ بلتستان میں موجود شاہی محلوں اور تاریخی عمارتوں سے البتہ متعدد حکمران خاندانوں کا پتہ چلتا ہے لیکن ان تین خاندانوں کے عرصہ حکمرانی کا کوئی مستند اور مفصل احوال موجود نہیں۔ ان خاندانوں کے تعمیر کردہ محل، قلعے اور پْل البتہ موجود ہیں۔ مقپون پْل، میندوق کھر سکردو، نہر گنگوپی، خپلو، شگر اور کھرمنگ کے شاہی محلات یہ پتہ دیتے ہیں کہ بلتستان میں کئی خاندان برسر اقتدار رہے۔ کھرپوچو کا عسکری قلعہ بلتستان کی عظیم عسکری تاریخ کا منہ بْولتا ثبوت ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں بلتستان کے حکمرانوں نے لداخ سے ہنزہ تک حکمرانی کی، ہنزہ میں آج بھی ایک بلتت کھر یعنی(بلتی کا محل) موجود ہے۔