گلگت بلتستان

اینٹی ٹیکس موومنٹ کی کال پر ضلع دیامر میں ہڑتال

چلاس(مجیب الرحمان)اینٹی ٹیکس موومنٹ گلگت بلتستان کی کال پر ضلع بھر میں مکمل طور پر شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔تمام کاروباری مراکز مکمل طور پر بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم رہی۔شہر بھر کے ٹرانسپورٹرز اڈے مکمل طور پر بند رہے اندرون و بیرون شہر اور دیگر اضلاع کے لئے چلنے والی ٹریفک بھی معطل رہی۔چلاس شہر کے صدیق اکبر چوک میں احتجاجی جلسے کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں تاجر برادری ،کنٹریکٹرز اور وکلا برادری سمیت سول سوسائٹی کی کثیر تعداد شریک تھی۔جنہوں نے حکومت اور ٹیکس کے ظالمانہ فیصلے کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے راہنماؤں حاجی سید جان،سمیع اللہ مغل،محمد افضل،حاجی عبدالرحمان،سید قدم خان اور طاہر شاہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت خطے کے عوام کو کوئی سہولت نہیں دے رہی ہے۔یہاں کوئی فیکٹری اور بڑا کاروبار بھی نہیں ہے۔نہ ہی وڈیرے یہاں آباد ہیں۔غریب عوام پر ظالمانہ ٹیکس نافذ کر کے انکے منہ سے نوالہ چھینا جا رہا ہے۔سڑکوں سے لیکر ہسپتال تک کہیں بھی کوئی سہولت نہیں ہے۔وفاقی حکومت میں بیٹھے وڈیرے اور جاگیر دار خود ٹیکس نہیں دے رہے ہیں اور الٹا بوجھ غریب عوام پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔گلگت بلتستان میں حکومت کس قانون کے تحت ٹیکس لاگو کرنا چاہ رہی ہے۔عوام ہوشیار ہوجائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی بد دعائی سے بچنے کے لئے کوئی ٹیکس ادا نہ کریں۔اور نہ ہی حکومتی کسی فیصلے کو تسلیم کریں۔ٹیکس سہولیات فراہمی کے لئے دیا جاتا ہے جس سہولت ہی نہیں تو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے کرپٹ مافیا کو فائدہ دینے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ہے۔پورے جی بی کے عوام کی ایک کرکٹ کھلاڑی جتنی اہمیت بھی نہیں ہے۔ملکی استحکام اور خوشحالی کے لئے اہم سنگ میل اقتصادی راہداری منصوبے میں یہاں کے عوام کو محروم رکھنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔گلگت بلتستان میں تین اکنامک زونز بنائے جائیں۔جن میں سے ایک دیامر میں ہی بنایا جائے۔منتخب نمائندے عوامی ووٹ سے اسمبلی میں جا کر عوام کا ہی گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔فی گاڑی بارہ سے چودہ ہزار ٹیکس جبراً وصول کیا جا رہا ہے۔چلاس میں تو نائی اورسبزی فروش پر بھی ٹیکس عائد ہے۔خدشہ ہے کل کو عوام کی سانس پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے گا۔قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی اور تمام تر سہولیات سے مستفید ہونے والے علاقوں ملاکنڈ ایجنسی اور سوات میں بھی اس طرح کا ٹیکس نہیں ہے۔حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے۔لگتا یہی ہے کہ دیامر کے عوام کو ڈیم کی مد میں دی گئی معاوضے کی رقم اب واپس بٹوری جا رہی ہے۔عوام کسی قسم کا غیر قانونی ٹیکس دینے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔وفاق گلگت بلتستان کو دیا گیا کٹھ پتلی سیٹ اپ فوراً واپس لے اور عوام کو انکے اپنے ہی حال پر جینے دیا جائے۔

مقررین کا مزید کہنا تھا دیامر ڈویژن میں تاحال چیف انجینئیر تک تعینات نہیں کر سکے وہ عوام کو کیا خاک سہولیات دینگے۔ ایک ڈپٹی کمشنر کو اپنے دفتر میں بیٹھ کر عوامی مسائل سننا گوارہ نہیں ہے۔آفیسران وقت پر دفاتر میں نہیں جاتے ہیں غریب سائلین دور دور سے اپنے کام لیکر آتے ہیں مگر آفیسران غائب ہی رہتے ہیں۔

احتجاجی مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے بصورت دیگر عوام سول نافرمانی کی تحریک چلانے پر غور کرینگے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button