کالمز

شنا شاعری

احمد سلیم سلیمی

موسیقی کی بات ہو تو ایک غضب کی بات بھی ساتھ ہوتی ہے۔آواز خوبصورت ہو،دھن میں تاثیر ہو اور سازوں کا متوازن استعمال ہو تو اس کی شاعری چاہے جتنی بھی اچھی ہو،بے چارہ شاعر موسیقی کے پردوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔
ہندوستان، پاکستان کی فلمی موسیقی کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ رفیع، لتا، مہدی حسن،کشورکمار،نورجہان کا نام بہت مقبول ہے مگر ان کے فن کو زندگی کی حرارت دینے والے شاعروں کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
یہی صورتحال باقی موسیقی کے ساتھ بھی ہے۔اب شنا گانوں کو ہی لیجئے۔پہلےایک ریڈیو گلگت ہی ذریعہ تھا،اب ایف ایم چینل بھی ہے۔موبائل اور کمپیوٹر کی سہولت بھی ہے۔ایسے میں پہلے کی نسبت ان گانوں کی رسائی کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے۔یہ الگ بات ہے اب ذوق کا معیار بدل گیا ہے۔فاسٹ اور ہلکی شاعری کا چلن ہے۔مگر ایک بات مشترک ہے۔ہر دور میں شاعر۔۔۔۔گلوکار کے اثر میں رہا ہے۔بہت کم شاعر موسیقی اور آواز کاجادو توڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ان کے لفظ،ان کا خیال اپنی پہچان خود ہوتا ہے۔۔
میڑیا کی وجہ سے اب دنیا سمٹ گئی ہے۔زبان ہو،ثقافت ہو،ذہنی رویے ہوں اب اپنی اصل میں نہیں رہے ہیں۔اس میں اتنی قباحت بھی نہیں۔کیونکہ وقت کے ساتھ بدلنا ترقی کی علامت ہے۔اسی سے زبان وبیان اور سوچوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔مگر فکر کی بات تب ہے جب یہ تصادم اپنی پہچان مٹا رے۔ایسے میں اپنی روایات کو جدت سے ہم آہنگ کر کے ایک متوازن اور مانوس راستہ اختیار کرنا کمال ہے۔اور ایسے باکمال لوگ ہم میں موجود بھی ہیں۔
ظفر وقار تاج ظفر صاحب بھی ایک ایسے ہی باکمال شنا شاعر ہیں۔ساز اور آواز کی جادو نگری میں بھی ان کی شاعری کی پریاں اپنی محفل جماتی ہیں۔یہ آج کے مقبول شاعر ہیں۔ان کی شاعری ،موسیقی کے سروں پہ سوار کانوں میں رس گھولتی ہے۔انہوں نے شنا شاعری کو ایک نیا آہنگ دیا ہے۔روایت اور جدت کے تال میل سے ایسی فن کاری دکھائی ہے کہ ان کے لفظ زندگی کی حرارت سے آتش بہ داماں ہوتے ہیں۔اچھی موسیقی اور آواز لفظوں میں جان ڈال دیتی ہے مگر ان کے الفاظ خود دھمال کرتے ہیں ۔ساز اور آواز کو اپنے ساتھ رقص جنوں پہ مجبور کراتے ہیں۔شنا موسیقی کا ذوق رکھنے والوں کو ایک منفرد مگر اپنا اپنا سا ذائقہ دیا ہے۔اور لگتا ہے ایک طویل عرصہ اس زائقے کی سحر کاری جاری رہے گی۔
ان کی شنا شاعری میں خیال بھی انفرادیت رکھتا ہے۔مکھی پہ مکھی مار کر محض گانے کا پیٹ ہی نہیں بھرتے معیاری ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں۔اپنی مٹی،اپنے ماحول اور اپنوں کے محسوسات بھی بیان کرتے ہیں۔ساتھ ہی بدیسی لب و لہجہ اور خیالات کا تڑکا بھی محسوس ہوتا ہے۔ان کی شاعری میں یاد ماضی اور یاد وطن کا احساس غالب ہے۔یہ محض nostalgia ہے یا اس کے پردے میں کسی کی چاہت کا اظہار ۔۔۔۔۔!جو بھی ہو مگر ہے قیامت۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

ان کا کلام شنا کے کئی گلوکاروں نے گایا ہے۔لیکن جابر اور سلمان پارس بہت مشہور ہوئے۔جابر خان جابر کی آواز میں نرمی بھی ہے،سوز بھی ہے مگر ورائٹی نہیں۔اس کی دھن اور ردھم ایک خاص لے کے اندر رہتی ہے۔اس لئے ظفر صاحب کا جتنا بھی کلام اس نے گایا اس میں ایک ہی آہنگ کا تاثر غالب رہا۔
سلمان پارس کی آواز میں لوچ ہے،سروں میں لچک ہے۔اور ورائٹی ہے اس لیے زیادہ مقبول ہیں۔
آج کی بے ہنگم اردو ،شنا موسیقی کے اس پر شور دور میں ظفر صاحب کا کلام ایک خوش گوار اضافہ ہے۔امید ہے اچھی آواز اور خوبصورت موسیقی سے یہ اضافہ اپنا جادو جگاتا رہے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button