کالمز

مائننگ پالیسی اور بھتہ خوری

بشیر حسین آزاد

26مارچ سے29مارچ تک پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک چترال کا دورہ کرنے والے ہیں۔چترال میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کا گراف روز بروز گررہا ہے۔اس دورے میں اگر پی ٹی آئی کے لیڈروں نے عوامی اجتماعات میں شرکت کیں۔پارٹی کارکنوں سے ملے اور عوام کے مسائل جاننے کی طرف توجہ دی تو سب سے زیادہ شکایات مائننگ پالیسی اور محکمے کی طرف مائننگ پالیسی کے نام پر بھتہ خوری کے خلاف آئینگی۔وجہ یہ ہے کہ2015کے سیلاب اور زلزلے کے بعد انفراسٹرکچر بُری طرح تباہ ہواہے ۔ترقیاتی کام سارے بند ہیں۔کسی بھی محکمے میں کسی منصوبے پر کام نہیں ہورہا۔ٹھیکہ دار اور مزدور بے روز گار ہیں۔بازار میں سرمایے کی گردش رک گئی ہے۔تین سالوں کے اندر غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔دوسری طرف زلزلہ کے نقصانات کے بعد لوگ گھروں کی تعمیر نو کاکام کررہے ہیں۔لوگوں کی اس مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر مائننگ کے محکمے نے مٹی،پتھر،ریت اور بجری پر بھتہ اور غنڈہ ٹیکس لگادیا ہے۔جو پہاڑ،جو میدان ،بیابان اور دریا کے کنارے سالہا سال سے عوامی شاملات میں شمار ہوتے تھے۔یا بعض مقامات پر ذاتی ملکیت کے زمرے میں آتے تھے۔ان پر مائننگ ڈیپارٹمنٹ نے غنڈہ ٹیکس لگادیا ہے۔بجری ،پتھر،مٹی اور ریت لانے پر ڈرائیوروں کو چالان کرکے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔اس کا مقصد پی ٹی آئی کی حکومت کو بدنام کرنے کے سوا کچھ اور نہیں۔حویلیاں،نوشہرہ،بٹ خیلہ،چکدرہ اور تیمرگرہ میں بھی ریت اور بجری ہے مٹی اور پتھر ہے۔لوگ زلزلہ زدہ مکانات کی تعمیر نو کے لئے،نئے مکانات کی تعمیر کے لئے اس میٹرئیل کو استعمال کرتے ہیں۔اس پر کوئی غنڈہ ٹیکس اور بھتہ نہیں ہے۔مائننگ کے محکمے کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔حکومتی ذرائع کا دعویٰ یہ ہے کہ نئی مائننگ پالیسی صوبے کے وسائل میں اضافہ کے لئے بنائی گئی ہے۔اس پالیسی کے نتیجے میں حکومت کو محاصل اور ریونیو کے نئے ذرائع ہاتھ آئینگے۔چترال کے کاروباری اور عوامی حلقے اس پر حیراں ہیں کہ یہ کیسی پالیسی ہے جس کے تحت 8ہزار فٹ کی بلندی پر گولڈ ،سوپ سٹون،یورینیم اوردیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر پرکام کرنے والی چینی کمپنیوں کو کام سے روک دیا گیا۔4بڑی کمپنیوں کاکام بند کرکے6ہزار مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ماربل ،انٹی منی اور دیگر معدنیات پر کام کرنے والے مائن اونرز کے لائسنس منسوخ کرکے مزید2ہزارمزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ضلع چترال کے اندر مائننگ کے شعبے میں 2002سے لیکر2013تک جو کام ہوا تھا۔اُس کو بند کردیا گیا۔ترقی کا پہیہ جام کردیا گیا۔ایک ایک مزدور مہینے میں25ہزار روپے کماتا تھا۔وہ سارا کام ٹھپ ہوگیا۔اب3000سے لیکر7000فٹ تک ٹاون کے اندر زلزلہ زدہ مکانات کی تعمیر نو کے لئے پتھر ،ریت اور بجری یا مٹی لے جانے پر غنڈہ ٹیکس یا بھتہ لگادیاگیا۔یہ کام مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔پی پی پی ،مسلم لیگ(ن) اور متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں بھی نہیں ہوا تھا۔اے این پی کے دور میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔اندازہ یہ ہے کہ سابقہ دورے کی طرح اس بار بھی26مارچ سے29مارچ تک چترال کے دورے میں عمران خان اور پرویز خٹک اپنے ہوٹل سے باہر نہیں نکلینگے۔عوام سے خطاب نہیں کرینگے۔عوامی وفود کو ملاقات کاوقت نہیں دینگے۔اخباری نمائندوں ،کاروباری تنظیموں اور مختلف شعبوں کے لوگوں کو ملاقات کا وقت نہیں دینگے۔اگر انہوں نے عوامی وفود کوملاقات کا وقت دیدیا تو عوام کے مسائل ان کے سامنے رکھے جائینگے۔مائننگ ڈیپارٹمنٹ کا غنڈہ ٹیکس ان مسائل میں سرفرست ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button