کالمز

صرف احکامات جاری کرناکافی نہیں

شجاعت علی

حالیہ بارشوں نے گلگت بلتستان میں وسیع پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے۔ تمام دس اضلاع سے نقصانات کی خبریں آرہی ہے۔ شاہراہ قراقرم جگہ جگہ بند ہے۔ مختلف علاقوں کا ذمینی رابطہ منقطع ہے۔دور افتادہ گاؤں کے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسے حالات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ قدرتی آفات کے فوراً بعد عوام کو مطمئن کرنے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کرنے کے بعدمیڈیا پہ بھی یہی بیان جاری کیا جاتا ہے کہ متعلقہ حکام کو ہد ا یات جاری کر دی گئی ہے اور پھر متعلقہ حکام بھی اگر سب اچھا ہے یا انڈر کنٹرول ہے کا رپورٹ دیں گے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے صرف احکامات یا ہدایات جاری کرنے سے ذمینی حقا ئق ایکدم بدل نہیں جاتے حالات سازگار نہیں ہوتے۔ اس کے لئے گراونڈ پہ عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ متعلقہ اداروں کو فعال کرناہوگا ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنی ہوگی انہیں فنی اور مالی وسائل مثلاً مشینری، ایندھن، خوارک، رہائش، سمیت ٹرانسپورٹیشن کا بندوبست کرنا ہوگا۔ تبھی ذمینی حقائق کچھ سازگار ہونگے۔ احکامات جاری کرنے سے ذیادہ ضروری اُن احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ذمین پر ہونے والی کام پر پیشرفت کا وقتافوقتا جائزہ لینا(مانیٹرنگ) اور اسے منتقی انجام تک پہنچانا ہی اصل کامیابی ہے۔ کسی شاعر نے خوب ہی کہا ہے۔ نصیحت بے اثر ہے گر نہ ہو درد ، یہ گُر ناصح کو بتلانا پڑے گا۔

گذشتہ دنوں ریڈیو پاکستان گلگت بلتستان کا وخی پروگرام صدائے بام دنیا سننے کا موقع ملا جس میں انہوں نے بذریعہ سیٹلائٹ (تریا) فون شمشال میں رابطہ کیا اور وہاں بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے اپنے سامعین کا آگاہ کیا۔ ریڈیو پاکستان گلگت کے انتظامیہ کا شکریہ کہ انہوں نے ہمیں شمشال کی صورتحال سے بروقت باخبر رکھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کام گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منجمینٹ اتھارٹی، پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی، فوکس ہیومینیٹیرئن اسسٹنس، اور ضلع ہنزہ کے مقامی انتظامیہ کو پہلے سے ہی کرنا چاہیے تھا۔ شمشال واقعی میں بے مثال ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی وہاں مواصلات کا کو ئی نظام نہیں۔ ڈھائی سو سے ذائد گھرانے ہیں مگر کسی ایک گھر میں بھی لینڈلائن ٹیلی فون کی سہولت نہیں، موبائل فون کا کوئی سگنل نہیں کوئی رنگ ٹون نہیں، انٹر نیٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ اپنے گھر والوں سے ر ابطے اور ایک دوسرے کی خیریتی جاننے کا کوئی طریقہ نہیں۔ گاؤں سے باہر رہنے والے لوگ ہنزہ سے شمشال جانے والے گاڈی کے ڈرائیور کو فون کرتے ہے اور ان کے ذریعے یا گاؤں جانے والے مسافروں کے ذریعے اپنا پیغام بھجواتے ہیں۔ پیغام کا جواب کبھی کھبار ملتا ہے اور کبھی کبھی پتہ ہی نہیں چلتا کہ پیغام ملا بھی کہ نہیں۔ ذرا غور کیجئے اگر آپ گلگت شہر میںآج رہ رہے ہوتے اور آپ کو یہ سب سہولیات میسر نہ ہو تو آپ کی کیا کیفیت ہوتی۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس۔سی۔او) نے شمشال کے ساتھ جو سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہے اس کی ایک لمبی داستان ہے۔ کبھی جز وقتی بجلی گھر کا بہانہ، کبھی فنڈز کی کمی، کبھی تیکنیکی مسائل، کبھی سولر سسٹم سے موبائل فون سروس فراہمی کی خوشخبری، اورکبھی کل وقتی بجلی کا انتظار۔ غرض یہ سب تاخیری حربے ہیں۔ گاؤں کا کوئی سپاسنامہ ایسا نہیں ہوگا جس میں گاؤں والوں نے مواصلات کے نطام کے لئے درخواست نہ کی ہومگر شمشال والوں کے مقدر میں شائد ٹیلی فون کی سہولت نہیں لکھا ہے ۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حلقہ ۶ ہنزہ کی نشت پر کامیاب ہونے والے محترم میر غضنفر علی خا ن صا حب ان دنوں گورنر گلگت بلتستان ہے اور ان کی خالی ہونے والی نشست پر ہونے والی ضمنی انتخابات مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ لہذا حلقہ نمبر ۶ سے اس وقت کوئی نمائندہ نہیں جو بارش کے بعد ہونے والی صورتحال سے صوبائی حکومت کو باخبر رکھے اور متاثرین کی داد رسی کرے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی محترمہ رانی اتیقہ صاحبہ ہنزہ کی بجائے اوشکھنداس میں بارش کے متاثرین سے اظہار ہمدردی اور اُن کی حال پُرسی کر رہی ہے جبکہ ہنزہ کے متاثرین بالخصوص شمشال، چپورسن، مسگر اور دیگر گاؤں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ شمشال کے مقامی باشندے مسعود علی کے بقول شمشال روڑ پچیس سے ذائد مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ اور برفانی تودہ گرنے کی وجہ سے بند ہے جسے دوبارہ کھلا کرنے کے لئے بلاسٹنگ اور ڈوزر مشین درکارہے۔ پی پی ایچ آئی (محکمہ صحت ہنزہ) کی ٹیم وہاں پھنسی ہوئی ہے۔ ملازمت پیشہ لوگ اور طالب علم وہاں رکھے ہوئے ہیں۔ بیمار لوگ گاؤں سے باہر علاج معالجے کے لئے نہیں لائے جاسکتے۔ گاؤں میں برف کے طوفان کی وجہ سے کھیتوں، جنگلات، مویشی خانوں سمیت رہائشی عمارات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اب چونکہ ذمینی ر ابطہ ممکن فوری طور پر ممکن نہیں ہے اس لئے چند گذارشات ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔ صوبائی حکومت ایف ۔سی۔این۔ اے سے درخواست کر کے دور افتادہ علاقوں میں بذریعہ ہیلی کاپٹر نقصانات کا تخمینہ لگانے اور اصل صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان آرمی، گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، پاکستان ہلال احمر، فوکس، اور ضلعی حکومتی نمائندوں پر مشتمل ٹیم فیلڈ میں بھیجنے کا بندوبست کرے۔ اور ان کی سفارشات کی روشنی میں فوری اور ضروری اقدامات کئے جائیں۔

۲۔ حکومتی اداروں مثلا محکمہ تعمیرات، مواصلات، پانی و بجلی، جی بی ڈی ایم اے، این ۔ایچ ۔اے، ایف۔ ڈبلیو۔ او اور دیگر متعلقہ اداروں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کے ذریعے عملی اقدامات اٹھائے جائے۔

۳۔ جی بی ڈی ایم اے کو مطلوبہ وسائل مہیا کئے جائے جس سے وہ بحالی کا کام شروع کر سکے مگر ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ وسائل کا دانشمندانہ اور منصفانہ استعمال ہو اس کے لئے جی بی ڈی ایم اے کے اوپر چیک اینڈ بیلنس رکھنا بھی ضرورری ہے۔

۴۔ وزیر اعلی معائنہ کمیشن کی طرز گاؤں کی سطح پر معائنہ کار (انسپکشن ٹیم) کا قیام عمل میں لایا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے گے کہ حکومتی ادارے اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں فنڈز کے استعمال میں کوئی خرد برد نہیں کی جا رہی اور عوامی شکایات کا بر وقت ازالہ کیا جا رہا ہے۔

۵۔ بند راستوں کو فوراً کھولنے اور عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔

۶۔ قدرتی آفات کے دوران ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی ترتیب دی جائے جس میں سٹینڈرڑ آپریٹنگ پروسیجرز(ایس۔او۔پی) سمیت دیگر اقدامات شامل ہو۔

۷۔ بدلتے ہوئے موسمی حالات میں محکمہ موسمیات ( میٹ آفس) کا کردار بہت بڑھ گیاہے ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں محکمہ موسمیات کو فعال کیا جائے پیشنگوئی کے نظام کو مزید بہتر اور کار آمد بنایا جائے۔ محکمہ موسمیات اور دیگر اداروں کے درمیان بہتر کورڈینیشن کا نظام وضع کیا جائے۔

امید کی جاتی ہے کہ مندرجہ بالا نکات حکومت وقت کے لئے ممدومعاون ثابت ہونگے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button