تحریر: اسرارالدین اسرار
گلگت تا ریخی اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل شہر ہے ۔ یہ شہر صد یوں پہلے بھی اس خطے کا دارالحکومت تھا اور آج بھی ہے۔ یہ شہر صدیوں پہلے سے عا لمی طاقتوں کی توجہ کا مر کز بھی رہا ہے۔ ماضی بعید میں جب یہ خطہ شیناکی کوہستان سے لے کر کاشغر تک اور لداخ سے لیکر چترال اور بدخشان تک مختلف ادوار میں بروشال، دردستان اور بلورستان کے نام سے ایک وحدت تھا اس وقت بھی اس شہر کو مرکزی حیثیت حا صل تھی اور اس پورے خطے پر حکمرانی کرنے والے لوگوں کا تخت بادشاہت گلگت ہوا کرتا تھا۔ مگر عالمی منظر نامے میں یہ شہر اس وقت آیا جب اُس وقت کی بہت بڑی عالمی طاقت بر طانیہ اور روس کی اس خطے پر نظر پڑی ، روس اس خطے کے توسط سے ہندوستان میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ اس غرض سے روس پامیر تک پہنچ چکا تھا۔ مگر برطانیہ نے روس کو اس خطے پر قابض ہونے کا موقع نہیں دیا اور1840 کے بعد انگریز نے اس خطے کا رخ کر لیا ، اس دوران انگریز وں کے نمائندے جارچ ڈبلیو ہیورڈ اورکرنل جان بڈلف سمیت برطانیہ کے کئی اہم نمائندے یہاں آ تے رہے۔ 1879میں انگریزوں نے یہاں اپنی ایجنسی پہلی دفعہ قائم کر کے1881 پھر اس کو توڈ دیا۔ اس دوران یہاں ڈوگرہ حکمران تھے اور انہوں نے انگریزوں کو اس خطے میں نقل و حرکت کی مکمل آزادی دی ہوئی تھی۔ اس خطے کی بڑتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر 1889 میں برطانیہ نے پھر اس علاقے کی طرف توجہ دیا اور کر نل الجیرین ڈیورانڈ کی مدد سے یہاں با ضابطہ ایجنسی قائم کر دی۔ اس کے بعد اس شہر گلگت اور اس پورے خطے کی اہمیت عالمی سطح پر بڑھ گئی۔ یہاں تک کی5 193میں ایک معاہدے کے تحت انگریزوں نے اس خطے کو ساٹھ سالہ لیز پر ڈوگروں سے اٹھا لیا اور مکمل طور پر اپنے قبضے میں رکھا۔ اس دوران اس شہر کی اہمیت مزید بڑھ گئی تھی اور عالمی طاقتیں اس کی ہر سرگرمی سے واقف تھیں۔ پھر تقسیم ہند کے وقت بحالت مجبوری انگریز یہاں سے رخصت ہوا مگر ساتھ ساتھ اس خطے کو مستقبل کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے پیش نظر متنازعہ حیثیت دے کر گیا۔اس شہر اور مجموعی طور پر اس خطے کی یہی اہمیت ہے جس کی وجہ سے اس پردرجنوں عالمی شہرت یافتہ لکھاریوں اور محققین نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔
اس تمہید کے باندھنے کا مقصد قارئین کو تاریخ میں الجھانا نہیں ہے بلکہ اس شہر گلگت کی تاریخی اہمیت بتانا ہے ۔مذکورہ حقائق کی روشنی میں گلگت شہر کی تاریخی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس شہر کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے چنانچہ آج بھی یہ شہر اتنا ہی عالمی اہمیت کا حامل ہے جتنا صدیوں پہلے تھا ۔ دور جدید میں اکنامک کوریڈو ر، اس پورے خطے اور گلگت شہر کی اہمیت کو دوبالا کرتا دیکھائے دے رہا ہے۔ اس خطے کے آس پاس بڑی عالمی طاقتیں ہیں جو اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اور اس خطہ کی سرگرمیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس کی متنازعہ حیثیت بھی ان طاقتوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کی حساس جغرافیائی اور سٹریٹیجک اہمیت اپنی جگہ مگر آج اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔ دنیا بھر سے سیاح آج بھی اس شہر کا طواف کرنے آتے ہیں اور یہاں سے اپنے قیام کی خوبصورت یادیں ساتھ لے کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
مگر انتہائی افسوس اس بات پر ہے کہ آج تک کے حکمرانوں نے اس عالمی شہرت کے حامل شہر کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ دادی جواری کی ڈیولپمنٹ سکیموں کے بعد اس شہر میں حقیقی معنوں میں کوئی بہت بڑی ڈیولپمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ اس شہر کی نصف سے زائد آبادی آ ج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔جوٹیال، ذولفقار آباد سے لے کر سکوار تک اور کے آئی یو سے لے کر سکار کوئی تک کئی اہم زمینیں صدیوں سے پانی کی پیاسی اور بنجر ہیں او ر دریا ئے گلگت کو حسرت کی نظر سے دیکھتی ہیں کیونکہ ان کے بغل سے دریا گلگت ٹھاٹھے مارتا ہو ا گزر تاہے۔ پانی کی قلت کے باعث ہزاروں خواتین صدیوں پہلے کی طرح آج بھی بر لب دریا کپڑے دھوتی ہیں۔ بجلی اس شہر کے نصیب میں کبھی پوری میسر نہیں ہوئی۔ عالمی شہرت کا حامل یہ شہر اپنی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر خون کے آنسو بہاتا ہے۔
صدیوں تک عالمی اہمیت کے حامل اس شہر میں سیوریج اور ڈرینج کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں۔چنار باغ کے جڑواں پل اور کنوداس کا تاریخی معلق پل خستہ حال ہیں۔ ذولفقار آباد کو کے آئی یو سے ملانے والا پل گذشتہ ایک عشرے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود زیر تعمیر ہے۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ کے آئی یو روڑ پر سارے شہر کا کچرا ڈالا جاتا ہے جس سے دریا کا پانی آلودہ ہونے کے ساتھ کے آئی یو آنے اور جانے والے اساتذہ ، طلبہ اور مسافر روزانہ اس ناقابل برداشت بو کی اذیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ مشرف دور میں دئیے گئے پلوں ، رابطہ سڑکوں، یونیورسٹی اور جی بی سکاوٹس جیسے کچھ پراجیکٹس کے علاوہ ہم نے اپنی یا د میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ اس شہر کو ملتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اس شہر کے سرکاری دفاتر کی صورتحال بھی ابتر ہے۔ تحصیل اور عدالت کے سامنے سائلیں کو ڈھنگ سے بیٹھنے کی کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ کی حالت بھی قابل رحم ہے ۔ سوزوکی کی فرنٹ سیٹ میں جہاں ایک صحت مند شخص کو آرام سے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے وہاں تین تین خواتین بیٹھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہیں اور اس دوران سردی گرمی میں ان کی جان حلق میں آجاتی ہے۔ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور دیگر پبلک مقامات کی حالت زار بھی قابل تعریف نہیں ہے۔صوبائی دارلخلافہ ہونے کے ناطے گلگت بلتستان کے تمام لوگ اس شہر سے مستفید ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ شہر گلگت بلتستان کے باسیوں کامشترکہ شہر ہے اور گلگت بلتستان کا چہرہ ہے مگر اس چہرہ کی حالت 2016 میں بھی قابل رحم ہے۔
ڈوگروں، انگریزوں، چینیوں اور روسیوں سے لے کر بڑی بڑی طاقتوں اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے اہمیت کا حامل یہ شہر اور اس کے باسی یہاں کے حکمرانوں کے لئے ہمیشہ غیر ا ہم رہے ہیں۔گذشتہ حکومت نے اس شہر کو ماڈل سٹی بنانے کے دعوے کیا مگر نتیجہ صفر نکلا ۔اُس وقت اس شہر کے کل چھ باسی اسمبلی اور کونسل کے اہم عہدوں پر فائز تھے ۔ اس دفعہ موجودہ حکومت بھی ایک سال سے یہی راگ الاپ رہی ہے۔ اس دفعہ تو خود وزیر اعلیٰ اور وزیر تعمیرات کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ شہر کی تینوں سیٹیں موجودہ حکمران جماعت کو ملی ہیں۔ دو معاونین خصوصی اور ایک کونسل کا ممبر بھی اس شہر سے تعلق رکھتا ہے ۔ گویا گذشتہ کی طرح اس دفعہ بھی اسی شہر کے چھ باسی اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک ایک بھی نیاء ترقیاتی کام اس شہر میں شروع نہیں ہوا ہے۔ جو بھی ہورہا ہے وہ اخباری بیانات میں ہو رہا ہے اگر زمین پر کچھ ہوتا تو یہاں دن رات چلنے والے لوگوں کو نظر آتا۔ گذشتہ کئی سالوں میں یہاں صرف سرکاری افسران کی ٹھا ٹھ باٹھ اور اللے تللوں میں اضافہ ہوا ہے ، ان کو لش پش نئی گاڑیاں ملی ہیں، ان کے لئے بنگلے تعمیر ہوئے ہیں جبکہ شہر کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔سرکار ی افسران کی ان عیاشیوں کے لئے تو قومی خزانے میں بہت پیسہ ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس شہر کی خوبصورتی ،ترقی اور شہریوں کی آسائش کے لئے قومی خزانے میں کوئی پیسہ نہیں ہے ۔
لگتا ہے اس شہر کی اہمیت اقتصادی راہداری کے بعد مزید بڑھے گی مگر اس کا باسی صدیوں کی طرح آئندہ بھی کرب سے گزرتا رہے گا اور ہر آنے والے حکمران شہر کو جنت بنانے کے وعدے وید کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کر کے چلے جائیں گے اور عالمی شہرت کا حامل یہ شہر گلگت خستہ حال ہی رہے گا۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button