کالمز

اصلاحِ معاشرہ میں نوجوانوں کے کردار پر ایک تحقیقی مقالہ

تحریر محمد حسین

18 اور 19 مئی 2016 کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) اسلام آباد میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ‘اصلاحِ معاشرہ میں نوجوانون کا کردار سیرتِ طیبہ کی روشنی میں’ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور  شعبہ اسلامیات کے زیرِ اہتمام و اشتراک  منعقد کی گئی۔ جس میں اپنے عزیز دوست  برادر ڈاکٹر عرفان شہزاد کے ساتھ مل کر لکھا گیا تحقیقی مقالہ ہم دونوں نے پیش کیا۔  مقالے کو سامعین نے بہت سراہا، کچھ شرکاء نے اسے کانفرنس کا سب سے بہترین مقالہ قرار دیا۔

یہ مقالہ پاکستانی یونیورسٹیز میں سماجی علوم کے نوجوان محققین کو درپیش تعلیمی، تحقیقی اور عملی مسائل اور ان کے حل کے لیے سفارشات پر لکھا گیا ہے، جو نمل سے شائع ہونے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ مجلے البصیرہ میں شائع بھی ہو گا۔ تاہم اس کے اہم نکات بعض احباب کے اصرار پر  علم دوست قارئین کے مطالعہ کی نذر کر رہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

13271901_1154791054560638_1496956741_o

موضوع:تعلیم وتحقیق كے میدان میں پاکستانی نوجوان محققین کے مسائل اور ان کا حل

بنیادی اعداد و شمار

پاکستان کی آبادی تقریباً 193.13 ملین ہے۔

نوجوان پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 60 فیصد سے زائد ہیں۔

ورلڈ بینک کے شماریات 2014 کے مطابق پاکستانی نوجوانوں آبادی کا 42 فیصد ناخواندہ ہیں۔

پاکستان میں عمومی بے روزگاری کی شرح6 فیصد ہے۔

پچھلے تین سالوں میں 20،000 (بیس لاکھ) لوگ ملازمت کی تلاش میں بیرونِ ملک چلے گئے ہیں جن میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھی ہے۔

پاکستان تعلیم پر قومی بجٹ کا 2 فیصد کے لگ بھگ خرچ کرتا ہے۔  یونیسکو کے مطابق یہ شرح قومی بجٹ کا 20 فیصد ہونی چاہیے۔ 17.069 ملین نوجوان اعلی تعلیم کے لیے جامعات تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ 2014 کے سروے کے مطابق سرکاری جامعات کی تعدد 91 ہے۔ نجی جامعات کی تعداد 72 ہے۔ کل تعداد 163 ہے۔  گریجویٹ کرنے والوں کی تعداد، 2014کے مطابق 1.144 ملین ہیں ۔ یہ اوسطاً فی جامعہ تقریباً 7,018 افراد بنتے ہیں۔ 2014 تک 11846 پی ایچ ڈی تیار ہو چکے تھے۔ 2013 میں 1179 پی ایچ ڈی تیار ہوئے، جب کہ 2014 میں 1249 پی ایچ ڈی تیار ہوئے، جو کہ 77 افراد زیادہ ہے۔

ہر سال ایم فل اور پی ایچ ڈی فاضلین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان کی کھپت کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی زیرِ عمل نہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح پہلے ہی 8.2 فیصد ہے۔ اس پر ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں مسئلے میں مزید اضافہ کا سبب ہیں ۔ جامعات کے سروس قوانین کے مطابق استاد کی دوبارہ تعیناتی صرف ایسی ناگزیر صورت میں کی جا سکتی ہے جب کہ متبادل امید وار میسر نہ ہو۔ تاہم، یہ تعیناتی بطور صدرِ شعبہ یا ڈین کی حیثیت سے نہیں ہو سکتی۔ یہ تعیناتی ایک دفعہ میں دو سال سے زائد نہیں ہو سکتی ۔65 سال کی عمر کے بعد دوبارہ تعیناتی نہیں کی جا سکتی ۔ ایک طرف نوجوانوں تعلیم یافتہ افراد کے لیے عمر کی آخری حد 33 اور بعض صورتوں میں 35 سال مقرر کی گئی ہے، جس کے بعد وہ نوجوان ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت کے لیے نااہل قرار دے دئیے جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف 60 اور اس سے زائد عمر کے افراد ملازمت کے لیے کبھی زائد العمر قرار ہی نہیں پاتے۔

طریقہ کار

مقالے سے متعلقہ سوشل سائنسز کے مسائل کے بارے میں دو سوال نامے تشکیل دیے گئے۔ سوال نامہ نمبر 1 پاکستان کے ایم فل/ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے زیرِ تعلیم اور فاضل محققین کو ارسال کیا گیا ۔ جبکہ سوال نامہ نمبر 2 بیرونِ ملک جامعات میں زیرِ تعلیم اور فاضل محققین کو ارسال کیا گیا ۔ ان کے جوابات کی روشنی میں نتائج اخذ کیے گیے ہیں اور سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

سوال نامہ 1کے حاصلات

کورس ورک کے دوران آپ کو جو فنِ تحقیق (Research Methodology) پڑھائی گئی کیا اس کے معیار سے آپ مطمئن ہیں؟

جواب: 30 میں سے 28 افراد یعنی 93 فیصد نے نفی میں جواب دیا۔

آپ کو پڑھانے والے استاد کی عمر کیا تھی؟ کیا زیادہ عمر کے استاد ریسرچ کے جدید رجحانات سے کم واقف ہوتے ہیں؟

جواب: اساتذہ کی عمریں 40 سے 65 اور زائد تھیں۔ 100 فیصد افراد نے جواب دیا کہ زیادہ عمر کے اساتذہ تحقیق کے نئے رجحانات سے عموماً واقف نہیں ہوتے۔ ان کے مقابلے میں نوجوان اساتذہ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ تحقیق کے جدید رجحانات سے نسبتاً زیادہ واقف ہوتے ہیں۔

نگران مقالہ کا آپ کے ساتھ تعاون کیسا رہا؟

جواب: 30 میں سے 29 یعنی 97 فیصد کا جواب تھا کہ انہیں نگران کی طرف سے عدم تعاون کا سامنا رہا۔

اپنی تحقیق کے دوران یا اس کے بعد کیا آپ کو یہ احساس ہوا کہ تحقیق کے بارے میں آپ کو مناسب رہنمائی میسر نہیں آ سکی؟

جواب: 100 فیصد کا جواب ہاں میں تھا۔ یعنی کورس ورک کے بعد عملی تحقیقی کام میں احساس ہوا کہ ان کو ملنے والی رہنمائی ناقص تھی۔

کورس ورک کے دوران لیکچر کے طریقہ اور معیار سے کیا آپ مطمئن ہیں؟

جواب: 30 میں سے 28 یعنی 93فیصد افراد نے کورس ورک کے دوران لیکچر کے طریقے کو بے فائدہ اور وقت کا زیاں قرار دیا۔ تحقیقی سطح پر تحقیق سے متعلقہ کورسز کے علاوہ کورس پڑھانے کو غیر ضروری قرار دیا۔ اس گروپ کے افراد کے مطابق لیکچرز میں وقت صرف کرنے کی بجائے تحقیقی طریقہ کار کی تدریس ،مشق اور تحقیقی مقالات لکھوانے چاہیئں۔

مقالہ جمع کرانے بعد اس کی جانچ (evaluation) اور اس کی رپورٹیں وصول ہونے پر کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟

جواب: 100 فیصد کا جواب تھا کہ یہ وقت عموماً ایک سال کے لگ بھگ اور اس سے زائد ہوتا ہے۔

کیا آپ کے مقالہ جات بین الاقوامی معیار کے جرائد میں چھپے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

جواب: 100 فیصد کا جواب تھا کہ اس بارے میں انہیں مناسب رہنمائی میسر نہ آ سکی۔ صرف دو افراد نے بتایا کہ ان کے مقالات چھپے، لیکن انہیں بھی رہنمائی ،نگران مقالہ کے بجائے دیگر افراد سے حاصل کرنا پڑی ۔

پاکستانی تحقیقی جرائد میں آپ کو مقالات چھاپنے میں کن مسائل کا سامنا ہے؟

جواب: 100 فیصد کے جوابات کے مطابق اس کی وجوہات یہ تھیں:

پاکستانی جرائد میں مقالہ جات جانبداری، مسلک اور تعلقات کی بنیاد پر چھپتے ہیں۔

مقالہ چھاپنے کے لیے کسی سینیئر کا نام بطورِ ساتھی مقالہ نگار ساتھ شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر مقالہ جات نہیں چھاپے جاتے۔

اگر مدیر کو بغیر سفارش یا کسی سینیئر کے نام کے بغیر مقالہ بھیجا جائے تو جواب ہی وصول نہیں ہوتا یا سرے سے مسترد کر دیا جاتا ہے، چاہے مقالہ کتنا معیاری ہی کیوں نہ ہو۔

بیرون ملک جس جامعہ کے ایم فل/ایم ایس یا پی ایچ ڈی پروگرام میں آپ نے تعلیم حاصل کی اس کے کورس ورک میں طریقہ تدریس کیا ہے؟

جواب: جواب دہندگان نے بتایا کہ امریکہ میں لیکچر اور عملی کام یعنی اسائنمنٹس دونوں طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ جب کہ برطانیہ میں کورس ورک نہیں کرایا جاتا، سارا وقت عملی تحقیقی پر صرف کرایا جاتا ہے۔

نگران مقالہ کا رویہ عمومًا کیسا ہوتا ہے؟

جواب: پانچ میں سے چار جواب دہندگان نے بتایا کہ انہیں ان کے نگران کا بہت اچھا تعاون حاصل رہا۔ ایک نے بتایا کہ اوسط درجے کا تعاون ملا۔

مقالہ جمع کرانے کے بعد مقالہ کے دفاع تک عمومًا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟

جواب: تمام جواب دہندگان نے جواب دیا کہ عمومًا یہ وقت چھ ماہ سے زائد نہیں ہوتا۔

پاکستانی طلبہ کو بیرونِ ملک جامعات میں تحقیق کے میدان میں کن بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

جواب: پانچوں افراد نے درج ذیل باتوں کی نشاندہی کی:

پاکستانی طلبہ بین الاقوامی سطح پر رائج معروضی نوعیت کے غیر جذباتی تحقیقی مزاج سے مانوس نہیں۔ انہیں زیادہ مشکل اپنی اس فکری نہج کو بدلنے میں پیش آتی ہے۔

ایک زیرِ تعلیم محقق نے بتایا کہ وہ ایک پاکستانی یونیورسٹی میں ٹاپ کر چکا تھا، لیکن اوسلو یونیورسٹی میں داخلہ امتحان میں اس وجہ سے ناکام قرار دیا گیا کہ سیرت النبی ﷺ سے متعلق تحقیقی نوعیت کے امتحان میں اس نے اپنی عقیدت مندی کا بہت زیادہ اظہار کیا تھا جو تحقیق کے معروضی طریقہ کار کے مطابق نہیں قرار پایا۔

دوسرا مسئلہ زبان کی کمزوری کا ہے جو وقت کے ساتھ محنت کرنے پر بہتر ہو جاتی ہے۔

 

سفارشات

  1. حکومت کو چاہیے کہ یونیسکو کی سفارش کے مطابق بجٹ کا 20 فیصد تعلیم کی مد میں خرچ کرے۔

  2. مزید جامعات کو قائم کرتے ہوئے ملک کے مختلف حصوں میں آبادی کے تناسب کو مد نظر رکھا جانا چاہیے۔ شہروں میں ان کا ارتکاز کئی لحاظ سے سماجی عدم توازن کا سبب بنتا ہے۔

  3. اس مقصد کے لیے پبلک پرائیویٹ دونوں سیکٹرز اشتراک عمل کے ذریعے بھی اقدامات کر سکتے ہیں۔

  4. موجودہ این ٹی ایس کے طریقہ کار کے بجائے ایچ ای سی قومی معیار تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے یونیورسٹی (ایم فل/پی ایچ ڈی)داخلے کا ایسا ٹیسٹ مرتب کرے جسے ششماہی بنیادوں پر پورے ملک میں ایک ہی وقت میں منعقد کیا جائے۔

  5. مختلف سطح پر مزید سکالرشپ پروگرام کا انتظام کیا جائے۔

  6. دیہی اور پسماندہ علاقوں کے مستحق طلبہ کے لیے ایسے سکالرشپس پروگرامات کا اہتمام کیا جائے جن میں شہروں میں آ کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران طلبہ کے قیام و طعام کے اخراجات بھی شامل ہوں۔

  7. ایچ ای سی کی جانب سے سکالرشپس پروگرامات پر سہ ماہی یا ششماہی بنیادوں پر مختلف شہروں میں اورینٹیشن سیمینارز کا انعقاد کیا جائے۔

  8. جامعات میں فیسوں کی شرح کو کم از کم رکھنے کے لیے مزید قانون سازی کی جائے۔

  9. تحقیق کے معاصر معیارات اور رجحانات سے روشناس کرانے کے لیے جامعات میں اعلی تعلیم کے نصاب کی مستقل تجدید نو کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔

  10. جامعات میں اعلی تعلیم کے نصاب کو مزید تحقیقی سرگرمیوں اور مشقوں پر مبنی بنایا جائے۔

  11. اساتذہ کی وقتاً فوقتاً پیشہ وارانہ تربیت کو یقینی بنایا جائے۔

  12. غیر معیاری تدریس ، اساتذہ کی نا اہلیت، غیر ذمہ دارانہ رویے اور نگران مقالہ کے عدم تعاون کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

  13. بین الاقوامی جامعات کے پاکستانی جامعات سے اشتراک عمل کے اقدامات کیے جائیں۔ پاکستانی اساتذہ، محققین اور طلبہ کے مطالعاتی وفود بیرونِ ملک بھیجے جائیں جو وہاں کے طریقہ تدریس و تحقیق اور نصاب کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق پاکستان کی جامعات میں عمومی طور پر اور تحقیق کے میدان میں خصوصی طور پر جامع اصلاحات متعارف کروائیں۔

  14. اس مقصد کے لیے بیرونِ ملک جامعات سے ماہرین کو مدعو کر کے ان کی مہارت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔

  15. نوجوان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تحقیقی مقالات کی حوصلہ افزائی کے لیے ایچ ای سی کی جانب سے تحقیقی مجلات کو واضح ہدایات بمع کچھ مشاہرہ دیا جائے تاکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مقالات کو اشاعت کے لیے کسی قسم کے غیر ضروری تعلقات اور منت سماجت کے استعمال کی ضرورت نہ رہے۔

  16. تحقیقی مقالات میں معیاری تحقیقی زبان اختیار کرنے پر زور دینا چاہیے اور اسے سکھانے کے لیے ماہرین سے باقاعدہ طور پر تربیتی ورکشاپ کرائی جانی چاہیں۔

  17. اردو زبان میں لکھے جانے والے مقالات کی برقی (Electronic ) چیکنگ کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن جامعات میں ایسا سافٹ ویئر متعارف کرائے جس طرح انگریزی مقالات میں مواد میں یکسانیت جانچنے کے لیے ٹرنٹ ان سافٹ ویئر موجود ہے۔

  18. مقالہ جمع کروانے سےمقالے کے دفاع تک کی مدت 6 ماہ کرنے کا قانون بنائے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائے۔

  19. جامعات کے فاضل محققین اور فارغ التحصیل طلبہ کے روزگار اور ملازمت کے لیے حکومت ترجیحی پالیسی اپنائے۔

  20. جامعات میں ملازمت کے لیے بھرتی کے عمل کو مزید شفاف تر بنایا جائے۔

  21. ریٹائرمنٹ کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے عمر کی مقررہ حد پوری کرنے والے سینیئر ملازمین کی آسامیوں پر ضوابط کے مطابق نئے امیدواروں کے تقرر کو یقینی بنایا جائے۔

آپ کی رائے

comments

محمد حسین

محمد حسین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ دینی تعلیم کے علاوہ ایجوکشن میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں ، ایک ماہر نصاب کے طور پر اب تک بارہ کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کیا ہے۔ ایک پروفیشنل ٹرینر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں مختلف درسگاہوں اور مراکز میں اب تک ایک ہزار سے زائد اساتذہ، مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ مذہبی قائدین اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کو فن تدریس، ، قیادت، امن، مکالمہ، حل تنازعات، نصاب سازی ، تعصبات اور مذہبی ہم آہنگی جیسے مختلف موضوعات پر پیشہ ورانہ تربیت دے چکے ہیں۔ ریڈیو ، ٹی وی اور ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button