کالمز
گلگت بلتِستان کو سیاسی طور پر معذور کرنے میں اِتنی دِلچسپی کیوں؟؟؟؟
امجد علی
کسی بھی اِرتقائی عمل میں ہر اگلا مرحلہ مختلف ہوتا ہے، اِس لحاظ سے مختلف کہ اِس میں ایک تبدیلی آتی ہے اوریہ تبدیلی مثبت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر ایک صحت مندانہ اثر مرتب کرتی ہے۔ یوں معاشرے میں خوشحالی اور ترقی آتی ہے۔
میرا مقصد آپکو کسی اِرتقائی عمل کے بارے میں بتانا نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جِس غفلت کی نیند ہم سو رہے ہیں اُس سے جاگا جائے۔ گلگت بلتِستان کے معاملات پر اگر مُجھ جیسا کم علم بندہ بھی سرسری نظر دوڑائے تو یہ بات بلکل واضع ہو جاتی ہے کہ یہاں کا اِرتقائی عمل اِنتہائی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف جانے کے بجائے پیچھے کی طرف چل رہا ہے۔ اِنتہائی معذرت کے ساتھ ، چند ایک حقائق کو اِس وقت زیر بحث لانا بہت ہی زیادہ لازمی ہے، اور یہ تو صاف ظاہر ہے کی حقیقت چُبھتی بہت زور سے ہے عموماً اگر وہ گلگت بلتِستان اور خصوصاً ہنزہ کے حقوق سے متعلق ہو ۔ گلگت بلتِستان میں ویسے تو حقیقت کو بیان کرنا بہت مُشکل ہے، ورنہ ایف آئی آر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ صاف کہوں تو مُجھے بھی ڈر لگتا ہے، میرے جیسے لاکھوں ہیں، جو ڈر کی وجہ سے بس چُپ ہی ہیں۔ لیکن کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال یہ یے کہ کیا ڈرنے اور چُپ رہنے سے معاملا حل ہوگا؟ اگر ہاں تو تقریباً اِن ساتھ دہائیوں میں کوئی حل کِیوں نہیں نکلا؟ کیوں نہ گلگت بلتِستان کو اُسکے حقوق ملے؟ یا پھر کیوں نہ گلگت بلتِستان کے لوگ خوف کے مارے ہمیشہ کے لئے چُپ ہو گئے؟ اور اپنے حقوق سے دستبردار ہوے؟ شائد نہیں۔
زبان درازی کے لئے جان کی امان مانگتے ہوے عرض کروں کی اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے، وقت کی ضرورت ہے، جِس طرح علاقے کے حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والوں کو عبرت کا نِشان بنایا جاتا ہے اُس سے بظاہر لگتا تو یہی ہے کہ لوگ سہم گئے لیکن حقیقت اِس کے بر عکس ہے۔ لوگوں کے دِلوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ جِس طرح سیاسی طور پر لوگوں کا حکومتی مشینری کے ذریعے اِستحصال کیا جاتا ہے اِس نے لوگوں کے دِلوں میں ایک بیزارگی اور نفرت پیدا کی ہے۔ جِس طرح وفاقی نمائندے وہاں کے نمائندوں کو خصوصاً الیکشن کے دوران اپنا دُم بنا کر عوام کے درمیان جاتے ہِیں اور غیر معقول تقاریر کرتے ہیں اِس سے لوگ بدظن ہو چُکے ہیں ۔ جِس طرح وہاں روائتی طریقے سے اور دھونس دھمکی سے حکومت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اِس سے لوگ اب چھُٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ جِس طرح پڑھے لِکھے معاشروں کے اقدار ، روایات اورعوامی رائے کو پامال کیا جا رہا ہے وہ سب لوگوں کو بخوبی سمجھ آرہی ہے۔
اِس نُکتے پر سوچنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیوںکہ زمانہ بدل گیا ہے، لوگ بدل گئے ہیں اور سمجھدار بھی ہو گئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ اِسطاعت آگئی ہے، چاہے علمی اعتبار سے ہو یا پھر معاشی اور سیاسی۔ اِسی لئے اب سیاسی جماعتوں کا، سیاسی رہنماوں کا، بیوروکریسی کا اور ہر زمہ دار شخص کا رویہ تبدیل ہونا چائیے، تاکہ ترقی کا عمل آگے کی طرف بڑھے۔
گلگت بلتستان کے عوام پاکِستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، بہت عرصے تک نِگاہیں نیچی کئے چُپ رہے، محرومیوں اور نا انصافیوں نے مجبور کیا کہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ لیں، جائزہ لیں کہ ہو کیا رہا ہے، اُس پہ بھی حکمرانوں نے برہم ہونا شروع کر دیا اور اے ٹی اے کا تحفہ پیش کر دیا۔کیا اپنے حق کی جدوجہدہمارے قائد نے ہمیں نہیں سِکھایا؟ یا پھر یہ قائد کا پاکِستان نہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ظلم و نااِنصافی خُدانخواسستہ ختم نہ ہواور لوگوں کی نِگاہیں اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیں۔