چترال

مستوج میں ہزاروں زلزلہ اور سیلاب متاثرین کا حکومت کے حلاف احتجاجی دھرنا

چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے بالائی علاقے سب ڈویژن مستوج کے ہزاروں متاثرین نے ضلعی انتظامیہ اور حکومت کے حلاف احتجاجی دھرنا دیا اور جلسہ کیا۔ متاثرین نے مستوج، گلگت اور چترال روڈ کو بھی بلاک کیا تھا۔ احتجاجی جلسہ کی صدارت عبدالرحمان کے زیر صدارت ہوا۔

احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اس علاقے کو پہلے سیلاب نے تباہ کیا اور 26اکتوبر کے زلزلے نے اس کو بہت نقصان پہنچایا مگر ضلعی انتظامیہ کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر محمد صالح اور تحصیلدار نور الدین نے ان کو ماموں بنایا انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بار بار اے اے سی اور تحصیلدار کے دفاتر کا چکر لگاتے رہے اور وہ ہر بار ان کے ساتھ وعدہ کرتے تھے کہ وہ سروے ٹیم بھیجے گا اور متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کریں گے مگر انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور تعلق والوں کو تو نوازا مگر غریب متاثرین کو نظر انداز کیا۔

خاتون کونسلر نے بھی شکایت کی کہ وہ بار بار اے اے سی صالح کے دفتر گئی مگر انہوں نے اس کی ایک بھی نہیں سنی۔سب ڈویژن چترال میں چودہ ہزار چیک سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوئے جبکہ سب ڈویژن مستوج میں صرف چار ہزار چیک تقسیم کئے حالانکہ نقصان یہاں بھی ہوا تھا۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بونی سے شندور روڈ کیلئے سابق صدر پرویز مشرف نے کروڑوں روپے کا فنڈ دیا تھا جس پر کام بھی شروع ہوا تھا مگر محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس اور ٹھیکدار کی ملی بھگت سے یہ کام ادھورا چھوڑا گیا اور سڑک اب بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ بونی سے شندور روڈ کو تارکولی بنایا جائے، سیلاب اور زلزلہ کے متاثرین میں ایک لاکھ اور دو لاکھ روپے کے چیک تقسیم کئے جائے اور وزیراعظم کے اعلان کردہ بنک کے ذرعی قرضے معاف کئے جائے۔

احتجاجی جلسہ میں کوشت کے مقام پر دریا پر پل ٹوٹنے کی وجہ سے مرنے والے پانچ افراد کی ایصال ثواب کیلئے فاتحہ حوانی بھی کی گئی اور فرنٹئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) کی ناقص کام پر شدید تنقید بھی کیا کہ انہوں نے کروڑوں روپے تو لے لئے مگر پل 23کو ناقص بنایا تھا جو بغیر سیلاب کے پانی میں بہہ گیا اور اس میں چار قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئے۔

مظاہرین نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر محمد صالح کا وہاں سے گزرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کو چور اور غدار کے ناموں سے پکار ا اور اس کے حلاف مردہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیلاب اور زلزلہ کے بعد متاثرین کیلئے جو امداد آیا تھااس کی تحقیقات کی جائے کہ وہ امدادی چیک سیاسی بنیادوں پر ایسے لوگوں میں کیوں تقسیم ہوئے جن کا کوئی نقصان بھی نہیں ہوا تھا۔ اور جن عملہ اس میں ذمہ دار پایا گیا ان کے حلاف سخت ترین قانونی کاروائی کرکے ان کو ملازمت سے نکالا جائے تاکہ آئندہ سرکاری خزانے کو کوئی اس طرح نقصان نہ پہنچائے اور غریبوں کا حق دوسروں کو نہ دے۔

جلسہ سے علاقے بھر کے خواتین کونسلروں نے بھی اظہار حیال کیا اور انہوں نے ضلعی انتظامیہ پر شدید تنقید کی۔ مظاہرین نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت پاکستان ان کوان کا حق نہیں دے سکتا تو پھر ان کو اجاز ت دی جائے تاکہ وہ چترال کے پڑوس میں واقع کسی دوسرے پڑوسی ملک کو ہجر ت کرے۔

90

چترال سے منتحب رکن قومی اسمبلی شہزادہ افتحار الدین بھی جلسہ گاہ میں آئے جنہوں نے یقین دہانی کی کہ وہ ان کی فریاد کو وزیر اعظم تک پہنچائے گا تاکہ بنک کے ذرعی قرضے ایک سے تین لاکھ روپے تک معاف کئے جائے اور متاثرین میں چیک بھی تقسیم کرکے بونی سے شندور سڑک کو بھی بلیک ٹاپ کرے۔

مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ چترال میں کام کرنے والے ڈپٹی کمشنر سے لیکر تحصیلدار تک سب کا یہاں سے باہر تبادلہ کرے اور یہاں ایماندار عملہ کولایا جائے۔

جلسہ اور احتجاجی دھرنا شام تک جاری رہا بعد میں حکومت کومحتصر وقفے کی لئے ڈیڈ لائن دیتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہوا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button