کالمز

خدا زمین سے گیا نہیں ہے ۔۔۔۔

تحریر ۔محمد علی انجم

اکثر لوگ کہتے ہیں زمانہ بڑا خراب ہے زمانے میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کو عزت دینے کا رواج ختم ہو تا جار ہا ہے ، لوگ خود عرض ہو گئے ہیں صرف اپنی سوچتے ہیں دوسروں کے بارے سوچنے کااور دوسری کا خیال رکھنے کی عادتیں ، اب کہانیوں میں ہی ملا کرتی ہیں ، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں لوگ آج بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ایک دوسرے کو عزت و مقام دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے کام آئیں ، بہت پہلے کی بات ہے جب سلیم رضا یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ،شکل سے تھوڑے سے ناتواں نظر آنے والے اس بوڑھے نوجوان کے اندر بے پنا ہ صلاحتیں تھی کبھی کبھار شاعری کر لیا کرتے تھے ، ان کی شاعر ی اکثر قافیہ دریف اور شعری قاعدوں سے تھوڑی سے آذاد ضرور تھی لیکن انہیں سننے کا لطف ضرور آتا تھا ۔ اس زمانے میں یہ بزرگ نوجوان شاعر کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کر لیا کرتے تھے عموما یہ خیال کیا جاتا ہے جو لوگ سکول کالج لائف اور یونیورسٹی میں پڑھائی سے اکتا جاتے ہیں وہ اپنے بچاو کے لیے لازمی طور پر ادکاری کر لیا کرتے ہیں ، ویسے بھی اکثر طالب علم اداکار ہی ہوا کرتے ہیں ، لیکن ان کے اندر ادا کاری کا عنصر شاعری سے کچھ زیادہ تھا ، اسی لیے وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھے۔

انہیں جب بھی ہم نے یونیورسٹی میں دیکھا کلاس سے باہر ہی دیکھا ، کلاس سے انہیں چڑ تھی۔ گو کہ وہ انگریزی ادب کے طالب علم تھے ، لیکن ان کے پاس انگریز ی کے نہ تو الفاظ زخیرہ تھے اور نہ ہی فر فر انگش بولنے کی اہلیت تھی ، تاہم ہر کتاب کا انگزیزی ٹائٹل پڑھ کر کتاب پر تبصرہ ضرور کر لیا کرتے تھے ، ان کے تبصرے پر کوئی کان نہیں دھرتا البتہ مسکرا ضرور دیتا ، کیونکہ سبھی کو یہ علم تھا کہ حضرت مزاح کرنے کے عادی ہیں ان کی یہی عادت سب کو لبھاتی تھی۔

ہاں مجھے یہ بھی یاد ہے وہ انگریزی کی کلاس میں اردو کی کتاب ضرور لے کر آتے تھے اور میر و غالب کے حوالے سے تبصرہ کر لیا کرتے تھے البتہ انگریزی ادبیوں سے ان کو شناسائی نہیں تھی لیکن وہ ان کے حالات زندگی پر بھی ضرور تبصرہ کر لیا کرتے تھے حضرت ہمیشہ دوسروں کو سوچتے تھے انہوں نے اپنے بارے کبھی کچھ نہیں سوچا تھااور اس کا واضح ثبوت ان کی جسمامت تھی ، ان کی ناتوانی پر ترس کھا کر ایک بار یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے ان کے علاج کرانے کے لیے خصوصی رقم کا اعلان بھی کیا تاہم حضرت نے ٹھکرا دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں۔

حضرت نے اپنی پیدائش کے بعد ہی مشکلات سے لڑنا سیکھ لیا تھا اس لیے انہیں مشکلات سہنے کی شاہد عادت سی ہو گئی تھی ، ان دنوں وہ سماجی خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے یونیورسٹی آتے ہوئے ہمیشہ کسی سے لفٹ لیتے ، بلکہ یہ کہیے کہ ان لفٹ دینے کے لیے ہر بندہ ہمہ تن تیار رہتا ہے شاہد ان کی وجہ شہرت سماجی خدمت ہی تھی ، اور انہیں سماجی کاموں کی وجہ سے ہی یونیورسٹی چھوڑنی پڑی۔ یونیورسٹی کو خیر باد کہنے کے بعد انہوں نے ایک سماجی ادارے کا قیام عمل میں لایا ، اور ان کا ادارہ آج بھی غریب اور نادار افراد کے لیے علاج معالجے کی سعی کرتا ہے۔

سلیم کے ادارے کے ایک سرگرم کارکن معروف سماجی خدمت گار حاجی باقر کرگلی ہیں ، پست قد لیکن ان کا مرتبہ اور مقام بڑے بڑوں کو مات دیتا ہے حضرت صبح گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے تک بغیر کسی ناغے کے سماجی خدمات میں سر گرم رہتے ہیں ، انہیں بلاشبہ سماجی خدمت گاروں کے سر کا تاج کہا جا سکتا ہے ، آپ جب بھی ان سے ملیں اور اپنی مشکل ان کے سامنے رکھ دیں وہ پل بھر میں اپکی مشکل کا حل نکال لیتے ہیں۔ حاجی باقر کرگلی ایک کارباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اب انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو صرف سماجی امور تک ہی محددو کر دیا ہے ،حاجی صاحب کو سماجی خدمات سے جنون کی حد تک لگاو ہے ، کبھی کسی بیمار کے علاج کے لیے چندہ مہم کا حصہ بنتے ہیں تو کبھی کسی مریض کو علاج معالجے کی عرض سے پنڈی اور دیگر شہروں میں پہنچانے کی سہی کرتے ہیں گو کہ حاجی صاحب اب جوان نہیں رہے لیکن وہ جوانوں سے بھی بڑھ کر کام کرتے ہیں ان کے کام کو دیکھ کر اکثر جوان بھی خود کو ضعیف محسوس کر نے لگتے ہیں حاجی صاحب ایک ملنسار اور عظیم انسان ہیں ، ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ہر کسی کی بات سنتے ہیں ہر محفل میں گھل مل جاتے ہیں ، جوانوں کی محفل میں جوان ، داناوں کی محٖفل میں دانا۔ حاجی صاحب ایک اچھے سماجی خدمت گار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا بولتے بھی ہیں جب وہ بولتے ہیں اور مخاطب پر خاموشی چھا جاتی ہے ، اپنی بات منوانے کا ہنر بھی حاجی صاحب خوب جانتے ہیں حاجی صاحب نے اب تک بے شمار لا چار اور بے بس مریضوں کے علاج معالجے کے لیے چندے اکھٹے کیے ہیں اور ان کا باقاعدہ علاج کرایا ہے اور یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔

مجھے یاد ہے دسمبر کی ایک ٹھنڈی رات ، مجھے چیئرمین فدا علی اختر صاحب کا فون آیا۔ فدا علی صاحب نے کہا کہ چلیں کہیں چائے پہ چلتے ہیں میں گھر سے باہر نکلا تو چیئرمین صاحب گاڑی لے کر وہیں وارد ہوئے ، حاجی صاحب سے میری آشنائی نہیں تھی ، گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ان سے گپ شب ہوئی تو معلوم ہوا کہ صاحب ایک سماجی خدمت گار ہیں ، تب میں نے ان سے کہا کہ حاجی صاحب میں بھی کبھی کبھار اپنی بساط کے مطابق سماجی خدمات میں حصہ لینے کی کوشش کرتا ہوں ، میری خواہش ہے کہ ہسپتال میں کوئی مسافر خانہ ہو ۔

میرا یہ خیال انہیں بے حد پسند آیا اور انہوں نے اُسی رات سے ہی مسافر خانے کے قیام کے لیے اپنی سعی کرنی شروع کر دی ، چیئرمین فدا علی ، صاحب کی خصوصی کوششوں اور حاجی صاحب کی استقامت اور نیک نیتی کے ناعث بس تھوڑے سے ہی عرصے میں ہستپال کے اندر غریب اور نادار افراد کے لیے مفت مسافر خانے کا قیام عمل میں لایا گیا ، اور اب یہ مسافر خانہ انتہائی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے ، حاجی صاحب اکثر رات کو مسافر خانے میں ہی ہوا کرتے ہیں اور فدا علی اختر اور حاجی صاحب مسافر خانے کی نگرانی کیا کراتے ہیں ، اگر حاجی صاحب اس نیک کام کا حصہ نہ بنتے تو شاہد یہ مسافر خانہ نہ بن پاتا ، رات کے وقت حاجی صاحب مسافرخانے میں نوجوان سماجی خدمت گاروں کو سماجی امور کے متعلق لیکچر بھی دیا کرتے ہیں۔

حاجی صاحب کو اللہ سلامت رکھے ، حاجی صاحب جیسے مہربان اور رحم دل ، معاشرے کے لیے درد رکھنے والے انسانوں کو دیکھ کر اکثر دل میں یہ خیال آتا ہے کہ خدا زمین سے گیا نہیں ہے ۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button