کالمز

فِکری لحاظ سے مفلوج قوم کا المیہ۔۔۔۔۔۔!

تحریر: تہذیب حسین برچہ

سنا ہے گلگت ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ الجرنن ڈیورینڈ(1889-1892)نے لیویز فورس کا ایک خصوصی دستہ تشکیل دیا تھا جو گلگت کی دونوں تاریخی نہروں کی بحالی و صاف پانی کی فراہمی ،صحت عامہ کے حوالے سے خدمات،گلگت تا سری نگر روڑ کی مرمت کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کے حل کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے جبکہ لاء اینڈ آرڈر حالات میں یہی فورس ہنگامہ بنیادوں پراقدامات اٹھاتی تھی۔

گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال کا ماضی کے ساتھ موازنہ کریں تو مقامی حکمرانوں کے ببانگ دہل اعلانات اور جھوٹے وعدوں کی قُلی کھل جاتی ہے اور ان کی جمہور دشمنی اور بے حسی کھل کر سامنے آتی ہے ۔راقم نے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سال 2015 ء کے الیکشن سے قبل سپردِ قلم کیے گئے اپنے کالم میں دولت کے پہاڑوں پر تخت سجائے بیٹھے حکمرانوں کے جھوٹے وعدوں پر ایمان لانے والی کم فہم قوم کی امیدوں کے خاک میں ملنے کے خدشے کا اظہار کیا تھا ۔8 جون 2015ء کو الیکشن ہوئے۔ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی ۔عوام نے ہوائی فائرنگ کی ۔مٹھائیاں بانٹیں اور خوشیاں منائیں لیکن اب ایک سال کے گزرنے کے بعدٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں ،غلاظت و تعفّن سے پر گلگت کی تاریخی نہریں ،سرکاری اداروں میں اقرباپروری و میرٹ کُشی ،ہسپتال کی قابلِ رحم حالتِ زار کو دیکھ کر سرمایہ درانہ نظام کے ستونوں پر قائم فرسودہ نظام کا مسخ شدہ چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔جبکہ سیاسی شعور سے نا بلد قوم کی فکری پستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے وہ ہر نئے الیکشنز میں جوش و خروش اور ایک نئے ولولے کے ساتھ پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں او ر جب حکومت کے صرف ایک سال گزرنے کے بعد کارکردگی کے گوشوارے کو دیکھ کر امیدوں کے دیے مدھم دکھائی دیتے ہیں تواپنی کم فہمی اور کم عقلی کے باعث ظلم و ستم کی تاریک راہوں کو قسمت کادَین سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔

ہندوستان کے نامور شاعر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے۔

یہ لو گ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
اُدھر چلیں گے جہاں رہنما چلاتا ہے

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپیکر فدا محمد ناشاد ،ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان اور رکن قومی اسمبلی میجر(ر)امین نے اخباری بیانات کے ذریعے اپنی بے بسی کا کھُل کر اظہار کیا اور عوامی توقعات پر اترنے میں ناکامی کا رونا رویا۔جب عوامی نمائیندے ذاتی طور پر بے بسی کا برملا اظہار کریں تو یقینااس سماج میں عام عوام مسائل کے بھنور میں کس بے بسی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہونگے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔گلگت شہرمیں صفائی کے ناقص نظام کو دیکھ کر نا اہل حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عام عوام کی بے حسی بھی کُھل کر سامے آتی ہے ۔گلگت کی دونوں نہریں کبھی شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کا باعث بنتی تھیں لیکن اب حکومتی عدم توجہی کے باعث غلاظت و تعفّن کا شکار ہیں جبکہ گرمی کی شدت کے باعث سخت بدبو کا موجب بننے کے ساتھ ساتھ وبائی بیماریوں کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔خاتم النبیّن حضرت محمد ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا ہے ۔رمضان کا مہینہ آخری عشرے میں داخل ہونے کوہے۔ مساجد میں عبادتیں اداکی جارہی ہیں لیکن ہمارا نصف ایمان ناقص صفائی کے باعث زائل ہو چکا اور آدھا ہمارے جھوٹ و فریب ،ذخیری اندوزی،مصنوعی مہنگائی ،رشوت ستائی اور دفاتر میں کام چوری کے باعث زیاں کا باعث بنا۔اب ہمارے عبادات بارگاہ الٰہی میں اایمان کے کونسے درجے میں شمار کی جائیں گی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے علمائے دین کو بھی اس حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اگر گلگت بلتستان کے مختلف مسالک کے علماء صفائی کے حولے سے کسی مہم کا آغاز کریں تو تاریخ میں ان کی اس کاوشوں کو سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

گلگت بلتستان کے سڑکوں کی حالت بھی قابلِ رحم ہے۔گلگت شہر اور اس کے مضافات کی رابطہ سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں لیکن جمہور گریز حکمرانوں کے کانوں میں جوُتک نہیں رینگتی۔سکردو روڑ کا مسئلہ ایک عرصے سے زیرِ غور ہے لیکن اعلانات کو کب عملی جامع پہنایا جائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

گلگت کے معروف شاعر حسن شاد(مرحوم)نے کی خوب کہا تھا

ٹالا گیا ہے پھر مجھے اگلی بہار پر
”اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے”

گلگت بلتستان کے سرکاری ہسپتال بھی خستہ حالت کے باعث کسی مسیحا کامنتظر دکھائی دیتے ہیں ۔نیم تاجر ڈاکٹرز،غیر تربیت یافتہ پیرامیڈکل سٹاف اور جدید مشینری سے خالی ہسپتال عوام کی صحت کے حوالے سہولیات فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔حالیہ دنوں گلگت شہر کی دونوں بڑے ہسپتالوں میں سی ٹی سکین مشین کی خرابی کے باعث تپتی دھوپ میں مریضوں کو سی ٹی سکین کی غرض سے لمبی مسافت طے کرکے چلاس لے جایاجاتا ہے۔اس واقعے سے ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کا خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں اقرباپروری اور میرٹ کشی کا بھی بازار گرم ہے اور بے روزگاری سے عاجز نوجوان ہاتھوں میں ملک کی نامور یونیورسٹیوں کی رنگ برنگی ڈگریا ں تھامے سرکاری دفاترکی یاترا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک عرصے تک اخبارات میں مشتہر ہونے والے آسامیاں کے اشتہارات نوجوانوں کے لئے امید کی کرن ہوتی تھیں لیکن اب میرٹ کشی اور سفارش کلچرکے باعث ناامید اور مایوس نظرآتے ہیں اور خالی اسامیوں کے لئے جمع کرانے والے درخواستوں کی شرح بھی کم ہوتی جا رہی ہے ۔نوجوانوں سے وجہ پوچھنے پر قبل از مشتہر ہاؤس فل ہونے کا جواب مل جاتا ہے جبکہ ون مین شو کے ذریعے اختیارات کا غلط استعمال کرکے ایک ہی محلے کو سرکاری نوکریوں سے نوازنے کی شکایات بھی عام ہیں۔

گلگت بلتستان کے عوام میں روز بہ روز مایوسی ،نا امیدی اور تشویش بڑھ رہی ہے اور عوام اپنے منتخب کردہ نمائیندوں سے مایوس دکھائی دیتے ہیں اور اس جعلی جمہوریت کے نام پر استحصای طبقے سے عاجز آچکے ہیں ۔گلگت بلتستان کے عوام جب تک اس جمہور گریز جمہوریت کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہونگے تب تک اسی طرح پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی باری لینے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔جبکہ عام عوام مسائل کے دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے ۔جب کسی قوم کو اپنے حقیقی مسائل سے آشنائی نہ ہو تو مسائل کے حل ہونے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔گلگت بلتستان کو عوام کو سیاسی طور بیدار ہونے اور اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button