سیاحتکالمز

وادی ہنزہ پاکستان کا خوبصورت سیاحتی مقام مگر سیاسی طور پر یتیم                

تحریر: محمد عبدہ

Abduho, prof picوادی ہنزہ گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم کے اوپر واقع ہے جو کہ اسلام آباد سے تقریباً 600 کلومیٹر اور گلگت سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چینی سرحد کے قریب وادی ہنزہ پاکستان کی خوبصورت ترین وادی کہلاتی ہے۔ پوری دنیا میں سیاحوں کی جنت سے کے نام سے مشہور ہے۔ ہنزہ کے گردونواح میں راکا پوشی کا مشہور پہاڑ۔ نگر وادی نگر مناپن گلمت اور پسو واقع ہیں۔ دنیا کی سب سے بلند بارڈر کراسنگ خنجراب پاس کا راستہ بھی ہنزہ سے ہوکر جاتا ہے۔  کچھ سال پہلے زلزلہ کے نتیجے میں بننے والی عطا آباد جھیل بھی ہنزہ میں واقع ہے۔

اسلام آباد سے دور واقع ہونے اور سڑک کی حالت بہتر نا ہونے سبب پاکستانی سیاحوں میں ہنزہ کو وہ مقام نا مل سکا جو ناران و کالام کو ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر مختلف ٹکڑوں میں جاری ہے۔ مگر داسو سے چلاس کے درمیان 125 کلومیٹر کا حصہ اتنا خراب ہے کہ یہ سفر 6 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ آخیر جون سے ناران اور چلاس کو ملانے والا درہ بابوسر کھل جاتا ہے جس سے اسلام آباد سے ہنزہ کا سفر 4 سے 5 گھنٹے کم ہوجاتا ہے۔ یہ سہولت پاکستانی سیاحوں کیلے نعمت سے کم نہیں ہوتی اور وہ ناران میں چند دن گزار کر گلگت سے ہنزہ چلے آتے ہیں۔ ہنزہ جو کبھی گورے سیاحوں کی جنت اور پاکستانی سیاحوں کیلے شجر ممنوعہ تھا اب اہم مقام بنتا جارہا ہے۔ پچھلے سال اتنا رش بڑھا کہ ہوٹل بھر جانے کے بعد سیاحوں کو اپنی گاڑیوں اور سکولوں میں سونا پڑا۔ اس سال بھی عید کے بعد بھرپور سیزن کی آمد ہے۔ مقامی ہوٹلوں نے انتظامات کرنا شروع کردئے ہیں۔ اور امید ہے اس بار سیاحوں کو بہتر طریقے سے سہولتیں مہیا ہوں گی۔

13578492_10153789903768123_1397313384_nہنزہ وہ سیاحتی مقام ہے جو دہشتگردی کی جنگ کی وجہ سے معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ 2007 کے بعد سے بین الاقوامی سیاحوں نے آنا چھوڑ دیا۔ مقامی سیاحوں کی پہنچ سے دور تھا۔ ایسے میں ہنزہ کی معیشت تقریباً تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی تھی۔ جو مقامی سیاحوں نے دوبارہ آباد کردی ہے۔ ہوٹلوں نے اپنی مدد آپ کی تحت کچھ انتظامات کیے۔ ہنزہ کی بیوروکریسی خصوصا اسسٹنٹ کمشنر نے ملکر ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو ترتیب دیا۔ اور سب کو ایک دائرہ کار میں مربوط کردیا۔ ان سب کوششوں کے باوجود کچھ ایسے مسائل ہیں جو پرانے تو ہیں مگر حالیہ سالوں میں ان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ ان مسائل کو بڑھانے میں کسی حد تک ہنزہ کے سیاستدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

گلگت بلتستان میں زرداری دور میں پہلی بار قانون ساز اسمبلی کا قیام ہوا۔ جو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرکے پچھلے سال ہی ختم ہوئی ہے۔ دوبارہ الیکشن کے بعد نئی اسمبلی وجود میں آچکی ہے۔ ہنزہ کو حلقہ چھلت سے شروع ہوکر سوست کے سرحدی قصبے سے آگے شمشال اور چہ پرسان تک جاتا ہے۔ پہلے ہنزہ کے حلقے سے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے وزیر بیگ تھے جن کا تعلق علی آباد سے تھا۔ جو گلگت بلتستان اسمبلی میں سپیکر بھی رہے۔ پھر یہاں سے میر آف ہنزہ میر غضنفر نون لیگ کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ جن کا تعلق خاص کریم آباد سے ہے جوکہ سیاحت کا مرکزی قصبہ ہے۔ میر غضنفر اب اپنی سیٹ سے استعفی دے کر گورنر گلگت بلتستان بن چکے ہیں۔

گورنر میر غضنفر کے سیاسی حلقے کو بجلی حسن آباد نالے پر بنے ہوئے پاور ہاؤس سے ملتی ہے۔ چوبیس گھنٹے میں سے صرف چار گھنٹے بجلی آتی ہے۔ اور اس کی وجہ پاور ہاؤس کی خراب اور ازکار رفتہ پرانی ٹربائنیں مشینری اور ان کا مناسب دیکھ بھال نہ ہونا ہے۔ ہوٹل و ریسٹورنٹ والے جنریٹر چلاتے ہیں۔ جس کا شور سیاحوں کو پریشان اور لاگت کو بڑھا کر مہنگائی کا سبب ہے۔ پاور ہاؤس کو ٹھیک کرنے پر اربوں نہیں چند کروڑ چاہیں۔ بجلی وہ بنیادی ضرورت ہے جس کے نا ہونے سے ہنزہ والوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے۔

13563630_10153789903588123_134401020_nہنزہ میں پینے اور روزمرہ استعمال کا پانی التر گلیشئیر سے آتا ہے۔ نہایت گدلا پانی ہے جس کا رنگ مٹیالا ہے۔ پانی کو گلاس میں ڈال کر دیکھیں تو مٹی اور ریت کی تہیں نظر آتی ہیں۔ ایسے گدلے پانی سے نہانے مشکل ہوتا ہے اور ہنزہ کے لوگ وہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس سے پورے ہنزہ میں معدہ اور گردہ کی بیماریاں عام ہیں۔ چند کروڑ کی لاگت سے فلٹر نصب کیا جاسکتا ہے جس سے صاف پانی مل سکتا ہے یا پھر کسی دوسرے صاف پانی والے نالے سے پائپوں سے پورے ہنزہ کو صاف پانی میسر ہوسکتا ہے۔

ہنزہ میں کریم آباد مرکزی قصبہ ہے جہاں تمام ہوٹل ریسٹورنٹ اور شاپنگ کی دکانیں واقع ہیں۔ کریم آباد بازار بمشکل آدھا کلومیٹر لمبا ہوگا۔ جو زیرو پوائنٹ چوک سے شروع ہوکر گورنر میر غضنفر کے گھر کے سامنے سے گزر کر بلتت فورٹ چوک تک جاتاہے۔ سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی اور مٹی سے اٹی ہوئی ہے۔ ایک موٹرسائیکل یا کار بھی گزر جائے تو دھول ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ یہ دھول دکانوں اور ہوٹلوں کے اندر تک چلی آتی ہے لیکن میر غضنفر کے گھر تک نہیں پہنچ پاتی کیونکہ انُکےگھر کی دیواریں کافی اونچی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس سڑک کی یہ حالت پچھلے دس سال سے ایسی ہی ہے۔

رمضان کے اختتام پر ایک بھرپور سیاحتی موسم شروع ہونے جارہا ہے۔ پورے پاکستان سے مقامی و بین الاقوامی سیاح ہنزہ کا رخ کررہے ہیں۔ ایسے میں مقامی آبادی کیلے نا سہی سیاحوں کیلے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ضروری ہیں۔

صاحبِ تحریر ایک سیاحتی کمپنی انڈس  کوریا ٹور کا مالک ہے۔ 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button