


وادی ہنزہ گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم کے اوپر واقع ہے جو کہ اسلام آباد سے تقریباً 600 کلومیٹر اور گلگت سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چینی سرحد کے قریب وادی ہنزہ پاکستان کی خوبصورت ترین وادی کہلاتی ہے۔ پوری دنیا میں سیاحوں کی جنت سے کے نام سے مشہور ہے۔ ہنزہ کے گردونواح میں راکا پوشی کا مشہور پہاڑ۔ نگر وادی نگر مناپن گلمت اور پسو واقع ہیں۔ دنیا کی سب سے بلند بارڈر کراسنگ خنجراب پاس کا راستہ بھی ہنزہ سے ہوکر جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے زلزلہ کے نتیجے میں بننے والی عطا آباد جھیل بھی ہنزہ میں واقع ہے۔
ہنزہ وہ سیاحتی مقام ہے جو دہشتگردی کی جنگ کی وجہ سے معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ 2007 کے بعد سے بین الاقوامی سیاحوں نے آنا چھوڑ دیا۔ مقامی سیاحوں کی پہنچ سے دور تھا۔ ایسے میں ہنزہ کی معیشت تقریباً تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی تھی۔ جو مقامی سیاحوں نے دوبارہ آباد کردی ہے۔ ہوٹلوں نے اپنی مدد آپ کی تحت کچھ انتظامات کیے۔ ہنزہ کی بیوروکریسی خصوصا اسسٹنٹ کمشنر نے ملکر ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو ترتیب دیا۔ اور سب کو ایک دائرہ کار میں مربوط کردیا۔ ان سب کوششوں کے باوجود کچھ ایسے مسائل ہیں جو پرانے تو ہیں مگر حالیہ سالوں میں ان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ ان مسائل کو بڑھانے میں کسی حد تک ہنزہ کے سیاستدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
ہنزہ میں پینے اور روزمرہ استعمال کا پانی التر گلیشئیر سے آتا ہے۔ نہایت گدلا پانی ہے جس کا رنگ مٹیالا ہے۔ پانی کو گلاس میں ڈال کر دیکھیں تو مٹی اور ریت کی تہیں نظر آتی ہیں۔ ایسے گدلے پانی سے نہانے مشکل ہوتا ہے اور ہنزہ کے لوگ وہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جس سے پورے ہنزہ میں معدہ اور گردہ کی بیماریاں عام ہیں۔ چند کروڑ کی لاگت سے فلٹر نصب کیا جاسکتا ہے جس سے صاف پانی مل سکتا ہے یا پھر کسی دوسرے صاف پانی والے نالے سے پائپوں سے پورے ہنزہ کو صاف پانی میسر ہوسکتا ہے۔