کالمز

امیرو خدا را غریبوں کے ایدھی کو ہائی جیک نہ کریں

تحریر:فدا حسین

عبدا لستار ایدھی کے اس دارفانی سے کوچ کرتے ہی ان کی انسانیت کیلئے کی جانے والی خدمات کا اعتراف کرنے کی باتین ہو رہی ہیں جو کہ مجموعی طور پر حوصلہ افزا بات ہے۔کیونکہ کم از کم یہ قوم اپنے محسنوں کو موت کے بعد تو یاد رکھتی ہے ۔لیکن جس طریقے سے حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں وہ حوصلہ افزائی کے بجائے ایدھی کی شخصیت ہی ہائی جیک کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد روالپنڈی جنرل ہسپتال کو بے نظیر ہسپتال رکھا گیا مری روڈ کو شہید محترمہ سے منسوب کر دیا گیا اور اسلام آباد ائرپورٹ کو بھی محترمہ کے نام کر دیا گیا ۔ بات یہی پر آکے نہیں روکی بلکہ نواب شاہ کو بھی بے نظیر آباد رکھا گیا ۔لیکن نہ ہسپتال میں مریضوں کیلئے سہولت، نہ مری روڈ پر ٹرفیک کنٹرول، نہ ائرپورٹ پر بہتر نظام اور نواب شاہ کو بے نظیر آباد رکھنے کے بعد وہاں پر کیا بہتری آئی ہے ؟ اس حوالے سے بھی کچھ معلوم نہیں ہے ۔لیکن گمان غالب یہی ہے کہ اگر وہاں پر حالت بدتر نہیں ہوئی ہے تو بہتری بھی نہیں آئی ہوگی۔ خدا کرئے میرا گمان لغو ہو اور صورت حال اس کے برعکس ہو۔ اسی طرح اب ایک طرف گودار کے بندرگاہ کو عبدالستار ایدھی کے نام منسوب کرنے کے مطالبے سامنے آنے لگے ہیں تو دوسری طرف اسلام آباد کے نئے ائر پورٹ کو بھی ان کے نام سے منسوب کرنے کامطالبہ سامنے آنے لگا ہے۔آخر الذکر مطالبہ کرنے والوں میں میرئے اپنے رفیق کاروں اور دفتر والے بھی شامل ہیں۔میں ان سب کی رائے کا احترام کرتا ہوں مگر اس مطالبے سے نہ صرف مجھے اتفاق نہیں ہے بلکہ سخت اختلاف ہے ۔اختلاف کی وجہ یہ نہیں کہ ان کی عظیم اور بے لوث انسانی خدمات کو یاد نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی روح کو تسکین پہنچنے کے بجائے تکلیف پہنچے گی۔اب یہ یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ ایدھی ایک شخص کا نام نہیں رہا بلکہ ایک سوچ اور ایک ارادہ و ادارئے کا نام بن چکا ہے ۔ اس لئے اس کے مشن آگے بڑھنے کیلئے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔دوسرا کسی ادارئے یا جگے کو کسی سے منسوب کرنے کیلئے ان دونوں میں کسی بھی قسم کی مطابقت بھی ضروری ہے۔ چونکہ ائر پورٹ اور بندر گاہوں کا تعلق امیروں سے ہے غریبوں کا اس میں حصہ نہ ہونے کے برابرہے ۔ اس لئے اس میں کوئی افادیت نظر نہیں آتی ۔کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا کرنے سے نئی نسل میں ایدھی کے بارئے میں جاننے کی جستجو پیدا ہو گی۔مگر اس دلیل میں بھی اتنا وزن نظر نہیں آتا۔ اسلام آباد میں جہان پر ہمارا دفتر واقع ہے اس کے ساتھ کے روڈ کا نام فضل الحق روڈ ہے اس طرح خیابان سہروردی ،خواجہ ناظم الدین روڈ اور نہ جانے کتنی سٹرکیں مختلف شخصیات سے منسوب ہیں اس سے کتنے لوگوں کو ان کے بارئے میں میں جاننے کا موقع ملا ہے اگر کسی کو پتہ ہو تو اس ناچیز کے علم میں اضافہ ضرور کریں۔خاص طور پرایدھی صاحب تو ان سب چیزوں سے بالا تر ہیں۔جب ہم نے ان نکات کو اپنی ایڈیٹر محترمہ نگہت آمان صاحبہ کے سامنے رکھا تو انہوںنے تو ایسے کاموں کا دفاع کرنے کے ساتھ تعلیمی نصاب میں بھی ایدھی کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ہمارئے اپنے خیال میں ان کو تعلیمی نصاب میں کرنا اسلام آباد کے نئے ائر پورٹ کو ان سے منسوب کرنے سے کہیں بہتر بلکہ بہت ضروری قدم ہوگا۔ایدھی کو یاد رکھنا ہے تو ایدھی سنٹر کو مدد کی جائے ۔ایدھی سنٹر کے طرز پرادارئے قائم کئے جائیں۔نہ کہ ایدھی کو ہائی جیک کریں ۔اب خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا اللہ بھلا کرئے انہوں نے ایدھی سنٹر کیلئے اراضی دینے کا اعلان کیا ہے۔اس طرح کے اقدامت دوسروں صوبوں کو بھی کرنا چاہیے۔ ایدھی اپنی زندگی غریبوںکیلئے جیا۔ انہیں ان کی زندگی میں ہی ہائی جیک کرنے کوشش کی گئی مگر ایسا کرنے والے کامیاب نہیں ہو سکے اب یہ کوشش ان کی موت کے بعد دوبارہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر اس میں وہ لوگ کامیاب ہو گئے تو ایدھی صاحب کی روح کو شدید تکلیف پہنچے گے ۔اس لئے ہم یہی گزارش کرتے ہیں کہ ایدھی غریبوں کا تھا اور انہیں غریبوں کیلئے رہنے دیجئے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button