کالمز

فیضی صاحب کے لفظوں کی ٹو ٹی ہوئی مالا ( پہلی قسط)

فدا علی شاہ غذریؔ

داد بیداد کے خالق ’’ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضیؔ ‘‘ سے بالمشا فہ ملاقات کا شرف کبھی حا صل نہیں ہوا لیکن اُن کی تحریریں مختلف قومی اخبارات اور جریدوں میں پڑ ھنے کو ملتی ہیں۔ اُن کی علمی خدمات ، کھوار زبان کی ترقی اور تحفظ کے لئے اٹھا ئے گئے اقدا مات، صحا فت سے لے کر درس و تدریس و تحقیق کا ہر پہلو ، سما جی خدمات اور معا شرتی تبدیلی کے لئے ہر کاوش قابل صد احترام و تکریم کا با عث ہے۔ اُن کی ذات مجھ جیسے طفل مکتب کے لئے علمی تشنگی بجھا نے کا ذریعہ ہے، اس سے بھی بڑھ کر فیضی صاحب میرے بچپن کے علمی آئیڈل ہے جس کے متعلق بہت کچھ سن چکا ہوں اور ملنے کی تمنا آج بھی با قی ہے ۔ وادی بالیم جہاں فیضی صاحب نے آنکھ کھو لی اور دیکھتے دیکھتے اُس وادی کے ما تھے کا جھو مر بنا، میرے خو نی رشتوں کا مسکن ہے اس لئے بالیم سے میرا رشتہ بہت جذباتی نو عیت کا ہے۔ غذر اور چترال نہ صرف جغرا فیا ئی ، لسانی اور ثقا فتی روابط میں بندھے ہیں بلکہ حقیقی رشتوں کے بندھن میں ایک دوسرے سے ایسے جُڑے ہیں جیسے دو نو مولود بچوں کے اعضا ء، جن کی علیحدگی سے طبی سائنس پر ہیز کر تی ہے ۔ غذر کو چترال سے اور چترال سے غذر کو ما ئنس کر نا اب مشکل ہی نہیں نا ممکنات میں شا مل ہو چکا ہے لیکن کو شش ہنوز جا ری ہے۔ حا لیہ دنوں میں بھی ایک کو شش دو نوں خطوں کے اس مضبوط رشتے کو توڑنے کے لئے کی گئی اور اس دفعہ یہ بیڑا وادی بالیم کے نامور سپوت ڈاکٹر فیضی اور شہاب الدین ایڈوکیٹ اُٹھا چکے تھے۔وکیل کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ توڑنے اور پھر جو ڑنے کی بات کرے گا، اُکسانے کی تگ و دو کرے گا تا کہ دو چار پیسے کما سکے مگر یہاں معاملہ پیسے کا نہیں تھا بلکہ نفرت کے بیچ سے محبت کے پودے کی اُمید لے کر ہیرو بننے کا اشتیاق تھا، اور یہ وہ اشتیاق ہے جو آرمان کی صورت شہاب وکیل کے سرشت میں تا حیات زندہ رہے گا کیونکہ تخمِ نفرت کا ثمر نفرت و ملامت کے سوا کچھ نہیں ہو تا ہے اگر ہیرو بننا ہو تا تو وادی با لیم کی نفرت ہی کا فی ہو تی ۔ شہاب کی خدمت میں کسی اور نشست میں حا ضر ہو نگے آج کے ’’ بر ملااظہار‘‘ میں فیضی صاحب سے محو گفتگو ہو نے کا بہت من کر رہا ہے۔

ڈاکٹر صاحب!! ادریس شاہ اپنی ایک تصنیف Tales of Darvesh میں ایک تالاب کی تین مچھلیوں کے بارے میں لکھتا ہے ’’ پہلی مچھلی بہت ہو شیار تھی، دوسری آدھی ہو شیار اور تیسری با لکل بے وقوف ، ہو ا یوں کہ ایک دن شکاری جال لے کر تالا ب میں آیا اور ہوشیار مچھلی نے دیکھ لی اور اپنے تجر بے اور علم کا استعمال کر تے ہو ئے فیصلہ کیا کہ ابھی کچھ ایکشن لینا چاہئے ، اُس نے سوچ لیا کی اس تالاب میں چھپنے کے لئے چند بل مو جود ہیں اس لئے موت کا ڈرامہ رچانا با عث جان بخشی ہو گی، مچھلی اپنی طاقت کا بھر پور استعمال کر تے ہو ئے تالاب سے با ہر چھلانگ لگا دی اور شکاری کے پاوں پہ گر نے کے بعد اپنی سانس روک لی، شکاری حیرت کیساتھ مچھلی کو اُٹھا یا اور دیکھا تو مچھلی سانس نہیں لے رہی تھی وہ غصے سے مچھلی کو مر دہ قرار دے کرواپس تالاب میں پھینک دیا، مچھلی ایک سوراخ میں جاکر آرام سے چھُپ گئی۔ یہ منظر آدھی ہو شیار مچھلی بھی دیکھ رہی تھی لیکن انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا تو جاکرہو شیار مچھلی سے پو چھنے لگی کہ آخر ما جرا کیا ہے تو ہو شیار مچھلی نے کہا کہ میں نے جان بچا نے کے لئے موت کا ڈرامہ رچا لی اور بس بچ گئی۔یہ سنتے ہی دوسری مچھلی نے چھلانگ لگا دی لیکن بد قسمتی سے سانس روکنا بھول گئی مچھیرا سمجھ گیا اور مچھلی کو بیگ میں ڈال کر تالاب کو دیکھنے لگا کہ مچھلیاں وہاں سے باہر چھلانگ لگا کر با ہر کیوں آتی ہیں؟ اتنے میں آدھی ہو شیار مچھلی بھی بیگ سے نکل گئی اور چھلانگ لگا کر تالاب کے نیچے چلی گئی کیونکہ شکاری نے بیگ کا منہ بند کر نا بھول گیا تھا۔ اب بے وقوف مچھلی بھی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی اُس نے بھی موت کا ڈرامہ رچا نے کاآزمودہ طریقہ استعمال کر نے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں بھی اوپر جا کر سانس رو کنے کے نسخے پتہ چل چکا تھا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بے و قوف مچھلی نے بھی چھلانگ لگاکر شکاری کے پاس گرتے ہی اپنی سانس روک لی ۔ شکاری نے مچھلی کو اُٹھا کر دیکھے بنا زندہ ہے کہ مردہ ہے بیگ میں ڈال دی ۔ بار بار جال پھینکنے سے اُکتا یا ہوا شکار ی ہاتھ آئی ہو ئیں دو مچھلیاں کھو نے کے بعد افسردہ تھا اُس نے جال بند کر نے کے بعد اپنا بیگ کھول کر دیکھا کہ مچھلی کی کیا حالت ہے، بے و قوف مچھلی سانس رو کتے روکتے مر چکی تھی ،شکاری یہ کہتے ہو ئے چلتا بنا کہ چلے گھر ہی لے جا تا ہوں میری بلی توکھا لے گی ‘‘۔

تنا زعہ شندور غذر اور چترال کے لو گوں کے درمیان ایک معمولی نو عیت کی چپقلش ہے مگر انتظامیہ اور چند مفادات کے مارے لوگوں کے لئے موت اور زندگی کا سوال بن چکا ہے اور وہ صدیوں کی روایات ، رشتہ داریوں اور تعلقات کو ایک خون ریز اختتام دینا چا ہتے ہیں اور ہر سال شندور پو لو فیسٹیول کے موقع پر ذکر چھیڑ کر فیسٹیول کو بند کر کے دونوں اطراف کے عوام کا نقصان چا ہتے ہیں ، ایسے نصیب کے مارے دو نوں اطراف میں مو جود ہیں لیکن چترال میں اس دفعہ کچھ حد ہی پار ہو گئی۔

شندورکا تنا زعہ اس وقت عدالت میں ہے یا پھر با ونڈری کمیشن کے پاس ہے اس مر حلے میں آپ ( ڈاکٹر فیضی)، شہاب الدین اور سر فراز صاحب کی تقلید یا پیرو ی میں مجھے ادریس شاہ کی کہانی میں تیسری بے و قوف مچھلی کا انجام نظر آتا ہے کیونکہ دانشمندی کا تقا ضا ہے کہ موقع محل دیکھ کر بات کی جا ئے لیکن تد بیر اور طریقہ آزمودہ نہیں ہو نا چا ہئے۔ ایک لکھاری کو کسی چیز کو تحریرکی شکل دینے سے پہلے سو بار سو چنا چاہئے اور اس کی اثرات اور محر کات سے واقف و اگاہ ہو نا بھی نہایت ضروری عمل ہے ۔مجھے لکھتے لکھتے ابھی ایک عشرہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے مجھے نہیں معلوم کی لفظوں کی وقعت کیا ہو تی ہے، ان کا اثر کیا ہو تا ہے اور یہ بھی نہیں جا نتا ہوں کہ ایک لکھاری کی روح لفظوں کے ما لے میں کیوں اٹکی ہو ئی ہو تی ہے؟ لیکن فن نو یسی کے مالے سے اتنا واقف ضرور ہوں کہ جب یہ ما لا ٹو ٹ جا تی ہے تو لکھنے کا ہنر ماند پڑھتا ہے اور وہی سے ایک سچے رائٹر کی جان بھی محو پرواز ہوتی ہے اوریہ پرواز بلندی کی طرف کبھی نہیں ہوتا ۔ فیضی صاحب کی زندگی خو شگوار تحر یروں میں گزری ہے ، وہ لفظوں کی وقعت بھی خوب جا نتے ہیں اور ان کی وسعت بھی ،کئی کتا بوں ، تحقیقی اور فکری مقا لوں کے مصنف ہو نے کے نا طے اُن کا قد اہل قلم کے درمیان زیادہ اونچا ہے لیکن ’’ شندور اورکھو کُش لنگر ‘‘ نامی ‘حقا ئق نامہ’ نے اُن میں موجود رائٹر کی روح اورقد کاٹھ کو اہل گلگت بلتستان با لعموم، اور اہل غذر کی نظر میں بالخصوص، مشکوک بنا کر جہاں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے وہیں اُن کے لفظوں کی خو بصورت ما لا کو بھی مات دی ہے اور وہ ما لا ابھی ٹوٹ چکی ہے ۔

مجھے اُمید ہے کہ فیضی صاحب کے لفظوں کی یہ ٹوٹی ہوئی ما لا اس ( حقائق نا مے) رسالے میں مو جود نفرت کی قبر کا آخری پو شاک ہو گا اور اس نفرت نامے کی کوکھ سے ہی اصل حقا ئق کی نشاندہی کا راستہ جنم لے گا اور گلگت بلتستان اور چترال کا صدیوں پرانارشتہ اور بھی مضبوط ہوگا ۔ نفرت نامے میں درج حقائق کا ایک ایک کرکے جواب لکھنے کا من تو کر رہا ہے لیکن کسی کیس کے دلائل اور ثبوت کورٹ کے روسٹرم پر ہی پاور فل ہو تے ہیں، پبلک کر نا قطعاً دانشمندی نہیں اس لئے فیضی صاحب اور شہاب الدین اپنے حقائق کے ساتھ جیت کی خو شی منا لیں مجھے فی الحال سانس روکنے میں بہتری نظر آرہی ہے۔ چند نا گوار الزامات جن سے گلگت بلتستان کے باسیوں کی پا کستان کے ساتھ وفا دار ی کو مشکوک گرداننے کی بو آرہی ہے، کا جواب دینا نا گزیر ہو چکا ہے تا کہ شہاب الدین ایڈو کیٹ اور فیضی صاحب کی دانش اور یاداشت کو ایک نئی جہت مل سکے۔

( جا ری ہے)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button